Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 110
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَآ اَنَا : اس کے سوا نہیں میں بَشَرٌ : بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : فقط اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد فَمَنْ : سو جو كَانَ : ہو يَرْجُوْا : امید رکھتا ہے لِقَآءَ : ملاقات رَبِّهٖ : اپنا رب فَلْيَعْمَلْ : تو اسے چاہیے کہ وہ عمل کرے عَمَلًا : عمل صَالِحًا : اچھے وَّ : اور لَا يُشْرِكْ : وہ شریک نہ کرے بِعِبَادَةِ : عبادت میں رَبِّهٖٓ : اپنا رب اَحَدًا : کسی کو
آپ کہہ دیجیے کہ میں تو بس تمہارا ہی جیسا بشر ہوں میرے پاس تو بس یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے،160۔ سو جو کوئی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے، تو اسے چاہئے کہ نیک کام کرتا رہے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے،161۔
160۔ یعنی امتیازی چیز میرے پاس صرف یہ ہے کہ میرے پاس وحی آتی ہے جو دوسروں کے پاس نہیں آتی، میں صرف وصف رسالت میں دوسروں سے ممتاز ہوں۔ (آیت) ” انما “۔ اول تو خود ہی کلمہ حصر ہے۔ پھر (آیت) ” مثلکم “۔ میں اس کی مزید تصریح کہ میں بشر ہی نہیں ہوں بلکہ تم ہی جیسا بشر ہوں۔ صفات بشری میں تم ذرا الگ نہیں ہوں۔ (آیت) ” انما ....... واحد “۔ میرا پیام توحید ہی ہے۔ 161۔ اور شرک کے اندر شرک جلی اور شرک خفی دونوں آگئے (آیت) ” فلیعمل عملا صالحا “۔ عمل صالح کا معیار یہ ہے کہ عمل شریعت اسلامی کے مطابق ہو۔ (آیت) ” ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا “۔ یعنی علم کا نقطہ آغاز تو کم از کم صحیح ہو۔ ایمانیات کا جو اقل قلیل مطالبہ ہے، وہ تو بہرحال موجود ہو۔
Top