Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 109
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا
قُلْ : فرمادیں لَّوْ : اگر كَانَ : ہو الْبَحْرُ : سمندر مِدَادًا : روشنائی لِّكَلِمٰتِ : باتوں کے لیے رَبِّيْ : میرا رب لَنَفِدَ الْبَحْرُ : تو ختم ہوجائے سمندر قَبْلَ : پہلے اَنْ تَنْفَدَ : کہ ختم ہوں كَلِمٰتُ رَبِّيْ : میرے رب کی باتیں وَلَوْ : اور اگرچہ جِئْنَا : ہم لے آئیں بِمِثْلِهٖ : اس جیسا مَدَدًا : مدد کو
آپ کہہ دیجیے کہ اگر سمندر (سارے کے سارے) روشنائی ہوجائیں میرے پروردگار کی باتیں لکھنے کے لئے تو سمندر ختم ہوجائے گا اور میرے پروردگار کی باتیں ختم نہ ہوسکیں گی اور اگرچہ ہم ایسا ہی جیسا (اور سمندر) اس کی مدد کے لئے لے آئیں،159۔
159۔ مطلب یہ ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی کلمات الہی کا احاطہ کرنا چاہے تو بھی ممکن نہیں۔ سارا سامان تحریر وتسوید ختم ہوجائے گا اور نامتناہی کسی طرح متناہیوں کی گرفت میں نہ آسکے گا۔ سمندر لاکھ وسیع ہو بہرحال محدودہی ہے۔ صفات نامتناہی وغیر محدود ومتناہی ہستی اپنی گرفت میں لاہی کیونکر سکتی ہے ؟ (آیت) ” البحر “۔ مراد کوئی متعین سمندر نہیں۔ جنس بحریا سارے سمندر مراد ہیں۔ والمراد بالبحر الجنس (کشاف) اے جنس البحر (روح) فاضل محقق علامہ مناظر احسن گیلانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں :۔ ” مطلب یہ ہے کہ فردوسی زندگی سے لوگ منتقل اسی لیے نہیں ہونا چاہیں گے کہ اس زندگی میں لامحدود کمالات رکھنے والی ذات اپنے انہیں لامحدود کمالات کو لامحدود کلمات کے ذریعہ سے ظاہر کرتی رہے گی۔ انسانی احساسات اپنے اردگرد، پس وپیش، اندروباہر، ہر لمحہ، ہر لحظہ ایسے نت نئے تجلیات کو مسلسل بغیر کسی انقطاع کے چاہتے چلے جائیں گے جن کی نہ کوئی حد ہوگی نہ انتہاء اور یوں لامحدود ومطالبات والی فطرت کو لامحدود مطلوبات سے متمتع اور لذت گیر ہونے کا موقع ابد الآباد تک ملتا جائے گا۔ اس وقت تک جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ اور جس کا کوئی اختتامی نقطہ نہیں ہے۔ “ (اسلامی معاشیات صفحہ 141) (آیت) ” قبل “۔ سے یہ مراد نہیں کہ کوئی امکان مزید امداد پہنچ جانے کے بعد کلمات رب کے پورے لکھ لیے جانے کا ہے۔ (آیت) ” قبل “۔ کا ایک مفہوم غیر یادون کا بھی ہے اور وہی یہاں مراد ہیں۔ اے من غیر ان تنفد (ابوسعود) قبل ھنا بمعنی غیر او بمعنی دون (جمل)
Top