Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسَىٰ : اے موسٰی لَنْ : ہرگز نُؤْمِنَ : ہم نہ مانیں گے لَکَ : تجھے حَتَّىٰ : جب تک نَرَى اللہ : اللہ کو ہم دیکھ لیں جَهْرَةً : کھلم کھلا فَاَخَذَتْكُمُ : پھر تمہیں آلیا الصَّاعِقَةُ : بجلی کی کڑک وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے تھے
: اور (وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز نہ باور کریں گے تمہارے (کہنے سے) ،183 ۔ جب تک کہ ہم خدا کو دیکھ نہ لیں علانیہ،184 ۔ سو (اس پر) تم کو آلیا کڑک نے،185 ۔ اور تم (اس کا آنا) دیکھ رہے تھے،186 ۔
183 ۔ (کہ جو مخاطبہ تم سے ہوا وہ مخاطبہ الہی ہی تھا، اور جو کلام تم ہمیں سنا رہے ہو وہ کلام الہی ہی ہے) (آیت) ” قلتم “ تم نے کہا تھا “ یعنی تمہاری قوم کے ستر بڑے بوڑھے نمائندوں نے۔ والقائلون ھم السبعون الذین اختارھم موسیٰ للمیقات (بیضاوی) (آیت) ” لن نؤمن لک “۔ اے لاجل قولک (بیضاوی) تاریخ اسرائیل کے اہم ترین واقعات دہرائے جارہے ہیں، اور اسرائیلیوں پر ان کی قومی تاریخ سے ’ حجت ‘ قائم کی جارہی ہے۔ اب ذکر اس وقت کا ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ستربزرگان قوم کو ہمراہ لے کر لشکر گاہ سے کوہ طور پر گئے ہیں۔ دامن کوہ میں انہیں چھوڑ کر خود آگے بڑھ گئے ہیں اور مکالمہ ومخاطبہ الہی سے مشرف ہونے کے بعد اس کی اطلاع اور خوشخبری ان بزرگان قوم کو پہنچائی ہے۔ 184 ۔ (اپنی انہیں مادی اور ظاہری آنکھوں سے) گویا اللہ تعالیٰ بھی کوئی مادی جسم رکھتا ہے ! اور گویا رسول کے حواس عام بشری حواس سے کچھ ممتاز ہی نہیں ہوتے ! 185 ۔ (اس گستاخانہ مطالبہ کی پاداش میں) لفرط العناد والتعنت وطلب المستحیل (بیضاوی) (آیت) ” اخذتکم “ پکڑلیا تم کو “ یعنی انہیں ستربزرگان قوم کی جماعت کو۔ معتزلہ نے آیت سے استدلال یہ کیا ہے کہ رؤیت باری جائز ہی نہیں، ورنہ اگر جائز ہوتی تو اس سوال پر سرداران اسرائیل کو اتنی سخت سزا نہ ملتی لیکن اہل سنت کا مذہب ہے کہ رؤیت باری جنت میں تو مومنین کو ہو ہی کر رہے گی، باقی دنیا میں بھی مخصوص افراد کو بہ طور فضل خاص ممکن ہے۔ البتہ ہر جہت، جسم اور مادی کم وکیف سے پاک۔ وقد اختلف فی جواز رویۃ اللہ تعالیٰ فاکثر المبتدعۃ علی انکارھا رفی الدنیا والاخرۃ واھل السنۃ والسلف وعلی جو ازھا فیھما ووقوعھا فی الآخرۃ (قرطبی) الممکن ان یری رویۃ منزھۃ عن الکیفیۃ وذلک للمومنین فی الاخرۃ ولا فراد من الانبیاء فی بعض الاحوال فی الدنیا (بیضاوی) رہی ان کی یہ سزا تو اس کے اسباب بالکل دوسرے ہیں۔ مثلا یہ کہ وہ پیمبر (علیہ السلام) کی بات کو جھٹلا رہے تھے (حالانکہ معجزات و دلائل کے بعد پیغمبر (علیہ السلام) پر ایمان لانا فرض ہوجاتا ہے) یا یہ کہ وہ سوال اپنے رفع جہل کے لیے نہیں بلکہ بطور انکار، از راہ عناد کررہے تھے۔ انما عوتبوا بکفرھم لانھم امتنعوا عن الایمان بموسی بعد ظہور معجزاتہ والایمان بالانبیاء واجب بعد ظھور معجزاتھم ولانھم لم یسألوا سوال استرشاد بل سوال تعنت وعناد (مدارک) ۔ 186 ۔ توریت میں ہے :۔ ” اور یوں ہوا کہ تیسرے دن صبح کو بادل گرجے اور بجلیاں چمکیں اور پہاڑ پر کالی گھٹا امڈی اور قرنائی کی آواز بہت بلند ہوئی، چناچہ سب لوگ ڈیروں میں کانپ کانپ گئے “۔ (خروج۔ 19: 16) (آیت) ” وانتم تنظرون “۔ مفسرابن حیان نے کہا ہے کہ ینظرون عربی میں ینتظرون کے معنی میں بھی آتا ہے اس لیے اگر کوئی یہ مراد لے کہ ” تم سوال رؤیت کے مقبول ہونے کا انتظار کررہے تھے “۔ تو اس معنی کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے۔ اگرچہ کسی سے یہ مفہوم منقول نہیں، ولکن ھذا الوجہ لیس بمنقول فلا اجسر علی القول بہ وان کان اللفظ یحتملہ (بحر) ۔
Top