Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 91
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗ١ۗ وَ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ١ؕ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِیَآءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَاِذَا : اور جب قِیْلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں اٰمِنُوْا : تم ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلَ اللّٰهُ : نازل کیا اللہ نے قَالُوْا : وہ کہتے ہیں نُؤْمِنُ : ہم ایمان لاتے ہیں بِمَا : اس پر أُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا عَلَيْنَا : ہم پر وَيَكْفُرُوْنَ : اور انکار کرتے ہیں بِمَا : اس سے جو وَرَآءَهُ : اس کے علاوہ وَهُوْ : حالانکہ وہ الْحَقُّ : حق مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا لِمَا : اسکی جو مَعَهُمْ : ان کے پاس قُلْ : کہہ دو فَلِمَ : سو کیوں تَقْتُلُوْنَ : قتل کرتے رہے اَنْبِيَآءَ اللہِ : اللہ کے نبی مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم مُؤْمِنِیْنَ : مومن ہو
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ اس (کلام) پر جو اللہ نے نازل کیا ہے،316 ۔ تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر تو ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے اوپر نازل ہوا ہے،317 ۔ اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے اس سے یہ کفر کرتے ہیں،318 ۔ حالانکہ وہ (خود بھی) حق ہے اور اس کی (بھی) تصدیق کرنے والا ہے جو ان کے پاس ہے،319 ۔ آپ کہیے کہ اچھا تو تم اس کے قبل انبیاء کو کیوں قتل کرتے رہے ہو، اگر تم واقعی ایمان والے تھے ؟320 ۔
316 (اپنے بندہ اور آخری رسول محمد ﷺ پر) ذکر وہی بنی اسرائیل کا چل رہا ہے۔ انہیں نے کہا جاتا تھا کہ آخری کتاب الہی قرآن پر ایمان لاؤ۔ 317 ۔ (اور وہ ہمارے لیے بالکل کافی ہے) (آیت) ” انزل علینا۔ ہمارے اوپر، یعنی ہماری قوم ونسل کے اوپر نازل ہوا ہے۔ یہود کا کہنا یہ تھا کہ ہم کوئی سلسلہ وحی یا مسئلہ رسالت کے منکر تھوڑے ہی ہیں، ہم بھی تو مومن ہی ہیں اور اپنی نسل اسرائیل کے انبیاء کے قائل ہیں۔ 318 ۔ یہ یہود کے قول کا تتمہ ہے۔ قرآن مجید نے یہ اضافہ کردیا کہ یہ لوگ اپنے اسرائیل سلسلہ کے باہر کسی اور نبوت کے قائل نہیں، ایک عرصہ تک الطاف الہی و عنایات خداوندی کے مورد خاص بنے رہنے، اور اسی نسل کے اندر انبیاء کے مسلسل پیدا ہوتے رہنے سے بنی اسرائیل کے دل میں یہ جم گیا تھا کہ نبوت خاندان اسرائیل کے باہر جاہی نہیں سکتی۔ 319 ۔ (آیت) ” ھوالحق۔ ضمیر ھو قرآن کی جانب ہے۔ اس کی حقانیت دلائل سے ثابت اور شواہد سے روشن ہے۔ (آیت) ” مصدقالما معھم۔ “ یعنی وہ تصدیق کرتا ہے توریت اور انبیاء بنی اسرائیل کے دوسرے صحیفوں کی۔ قرآن یہاں یہود کے مقابلہ میں اپنے دو وصف بیان کررہا ہے۔ ( 1) ایک یہ کہ وہ فی نفسہ حق ہے۔ اس کی حقانیت دلائل سے ثابت ہے۔ اس لیے اس پر ایمان لانا بجائے خود واجب ہے۔ (2) توریت اور دوسرے اسرائلی صحیفوں کے ساتھ اس کا تعلق منافات کا نہیں۔ اس کا رشتہ اتحاد وتصدیق کا ہے۔ 320 ۔ تیسرا جواب قرآن مجید نے یہود کو یہ دیا کہ خود یہی دعوی تمہارا کب صحیح ہے کہ تم اپنی قوم کے انبیاء پر ایمان رکھتے ہو ؟ ایمان وتصدیق الگ رہی، تم نے خود اس زور وشور سے ان کی تکذیب کی اور ان کی مخالفت وعداوت پر اس حد تک اتر آئے کہ انہیں قتل تک کرڈالا۔ اور تمہاری قومی تاریخ کے تو صفحات رنگین ہیں انبیاء کے خون سے۔ اسرائیل اور قتل انبیاء پر مفصل حاشیے رکوع (7) کے ذیل میں گزر چکے۔ بائبل کے ان حوالوں کے علاوہ ایک حوالہ اور ملاحظہ ہو، نحمیاہ نبی (علیہ السلام) کے زمانہ میں خود اکابر بنی اسرائیل اپنے باپ دادوں سے متعلق، مناجات میں کہتے ہیں :۔ ” وہ نافرمانبردار نکلے اور تجھ سے پھرگئے۔ اور انہوں نے تیری شریعت کو اپنی پشت کے پیچھے پھینکا اور تیرے نبیوں کو جو ان کو نصیحت دیتے تھے کہ انہیں تیری طرف پھرا لائیں قتل کیا اور انہوں نے اپنے کاموں سے تجھے غصہ دلایا “۔ (نحمیاہ۔ 9:25، 26)
Top