Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور ہم نے نصیحت (کی کتاب یعنی تورات) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ میرے نیکوکار بندے ملک کے وارث ہوں گے
ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الزکر اور ہم نے لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد سب آسمانی کتابوں میں لکھ دیا ہے۔ سعید بن جبیر اور مجاہد نے کہا زبور سے مراد تمام کتب الٰہیہ ہیں اور ذکر سے مراد ہے لوح محفوظ۔ یعنی لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد ہم نے اپنی تمام نازل کردہ کتابوں میں لکھ دیا ہے۔ شعبی نے کہا زبور سے مراد زبور داؤد ہے جو حضرت داؤد پر اتاری گئی تھی اور ذکر سے مراد ہے توریت حضرت ابن عباس اور ضحاک کا قول ہے کہ زبور سے مراد توریت ہے اور ذکر سے مراد ہیں وہ تمام آسمانی کتابیں جو توریت کے بعد اتاری گئیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زبور سے مراد ہے زبور داؤد ہے اور ذکر سے مراد ہے قرآن۔ مؤخر الذکر دونوں قولوں پر بعد الذکر میں لفظ بعد بمعنی قبل ہوگا۔ یعنی ذکر سے پہلے۔ ان الارض یرثہا عبادی الصلحون۔ کہ زمین کے (یعنی جنت کی زمین کے) مالک میرے نیک بندے ہوں گے۔ اَلْاَرْضَسے مراد ہے جنت کی زمین۔ اسی مضمون کو آیت والْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَمیں بیان کیا گیا ہے۔ ایک سوال۔ کیا گناہگار مؤمن (جو فاسق ہوتے ہیں صالح نہیں ہوتے) جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ جواب سزا پانے یا اللہ کی طرف سے گناہ معاف ہوجانے کے بعد ہو پاک ہوجائیں گے (اور صالحین کے حکم میں داخل ہوجائیں گے) اور صالحین کے ساتھ ان کو ملا دیا جائے گا۔ مجاہد نے کہا صالحین سے مراد امت محمدیہ ہے کیونکہ اسی کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے ‘ وَقَالُوْا اَلْحَمْدَلِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّءُ مِنَ الْجَنَّۃ حَیْثُ نَشَآءُ ۔ بعض لوگوں کے نزدیک الارض سے مراد ہے ارض مقدسہ اور عِبَادِی الصَّالِحُوْنَسے مراد ہیں وہ لوگ جن کو زمین کے پوربی اور پچھمی حصوں میں کمزور (اور حقیر) سمجھا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا الارض سے مراد ہے کافروں کی سرزمین مراد یہ ہے کہ کافروں کی زمین کو مسلمان فتح کریں گے گویا یہ اللہ کی طرف سے پیشین گوئی (اور فیصلہ قطعی) ہے کہ دین اسلام غالب آئے گا اور مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ حاصل ہوگا۔ میں کہتا ہوں اس وقت الارض سے مراد تمام روئے زمین ہوگا۔ امام احمد راوی ہیں کہ حضرت مقداد نے بیان کیا میں نے خود رسول اللہ ﷺ : کو فرماتے سنا کہ روئے زمین پر تمام مکان خواہ مٹی کے بنے ہوئے ہوں یا (اونی کمبلوں کی) جگیاں ہوں کوئی مکان بھی ایسا نہ رہے گا جس کے اندر اللہ کلمۂ اسلام کو داخل نہ کر دے (یعنی ہر گھر میں اسلام داخل ہوجائے گا) عزت والے کی عزت کے ساتھ یا ذلیل کی ذلت کے ساتھ۔ یعنی اللہ ان کو گویا مشرف باسلام کر دے گا اور وہ عزت یاب ہوجائیں گے یا کافر ہی رہیں گے اور ان کو بمجبوری اسلام کا غلبہ تسلیم کرنا اور ذلیل ہونا پڑے گا۔ حضرت مقداد نے فرمایا میں کہتا ہوں اس وقت سارا دین اللہ ہی کا ہوگا (یعنی سب پر اسلام ہی غالب ہوجائے گا۔ مترجم) ۔
Top