Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا
: اور تحقیق ہم نے لکھا
فِي الزَّبُوْرِ
: زبور میں
مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ
: نصیحت کے بعد
اَنَّ
: کہ
الْاَرْضَ
: زمین
يَرِثُهَا
: اس کے وارث
عِبَادِيَ
: میرے بندے
الصّٰلِحُوْنَ
: نیک (جمع)
ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے۔
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزُّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِالذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ ۔ (الانبیاء : 105) ( علیہ السلام) ْ (ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے۔ ) اس آیت کریمہ میں پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے زبور میں اپنا یہ فیصلہ لکھ دیا اور اب پھر اس کا اعادہ کررہے ہیں کہ زمین کے وارث اللہ تعالیٰ نے نیک بندے ہوں گے۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زمین سے مراد وہ زمین ہے جس پر ہم رہ رہے ہیں اور اس زمین پر جو لوگ بھی حکومت قائم کرلیتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ جو بالعموم برسراقتدار رہتے ہیں انھیں کو حق ہے کہ وہ اس زمین کے وارث ہوں۔ اور وہ اپنی جن قوتوں سے بہرہ ور ہو کر زمین کی حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اسی صلاحیت کا حاصل کرنا صالحیت ہے جو صلاحیت کا ہم معنی ہے اور یہی لوگ صالحین کہلانے کے مستحق ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک دنیا میں جتنی حکومتیں گزری ہیں اور جن لوگوں نے زمین کے بڑے حصے پر کبھی بھی اقتدار حاصل کیا ہے یہی لوگ تھے جن کو صالح قرار دیا گیا ہے اور انھیں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کا وارث بنایا گیا تھا۔ اس مفہوم کو قبول کرلینے کے بعد پہلی جو بات تسلیم کرنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ فرعون اور نمرود، شداد اور ہامان، ہٹلر اور مسولینی، لینن اور سٹالن علی ہٰذا القیاس ہماری قریب یا بعید تاریخ میں جتنے بھی بڑے بڑے حکمران گزرے ہیں چاہے وہ پرلے درجے کے کافر اور مشرک ہوں، چاہے وہ چنگیز خاں جیسے ظالم ہوں یا جدید دنیا کے بش جیسے لوگ ہوں ان کا کفر اور شرک، ان کا ظلم اور نفاق، ان کی بداخلاقی اور بےحیائی، ان میں سے بعض حکمرانوں کا خدا سے انکار یہ سب بیکار باتیں ہیں، اصل بات دیکھنے کی صرف یہ ہے کہ ان میں دنیا کے کسی حصے پر اقتدار چھین لینے اور قبضہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کے وارث ہیں۔ دوسری بات یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہوگا کہ ماضی میں کتنے عظیم رسول گزرے ہیں جنھیں کسی نہ کسی حکمران کی اصلاح اور ہدایت کے لیے بھیجا گیا اور اگر وہ ہدایت قبول نہیں کرتے تو پھر ان سے اقتدار چھین کر اللہ تعالیٰ کی زمین کے اوپر رہنے والوں کو آزادی سے اللہ تعالیٰ کا دین قبول کرنے کا موقع دیا گیا۔ نہایت اختصار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے اقتدار سے ٹکرائے اور بالآخر فرعون کو تباہ کردیا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نمرود اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے اٹھے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے جالوت کو شکست دی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ یمن کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔ غرضیکہ دنیا میں آنے والا کوئی رسول بھی پہلے سے تخت اقتدار پر متمکن حکمرانوں کی حکمرانی کو پختہ کرنے اور سند جواز دینے کے لیے نہیں آیا بلکہ ان کا تختہ الٹ کر اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین کو نافذ کرنے کے لیے مبعوث ہوا۔ اگر آج کے دانشوروں کا متذکرہ بالا تصور قبول کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبروں کی دعوت غلط تھی اور ظالم حکمرانوں سے ان کا تصادم سراسر فساد پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان بھی اس بےہودہ تصور کو قبول نہیں کرسکتا۔ رہی یہ بات کہ اس آیت کریمہ کا صحیح مفہوم کیا ہے اس کے لیے ہم نے معارف القرآن کا ایک نوٹ اور پھر تدبر قرآن کا ایک نوٹ نقل کیا ہے تاکہ ان سے استفادہ کیا جاسکے۔ ذکر اور زبور کی وضاحت لفظ زبور، زُبُرْ کی جمع ہے جس کے معنی کتاب کے ہیں اور زبور اس خاص کتاب کا نام بھی ہے جو حضرت دائود (علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔ اس جگہ زبور سے کیا مراد ہے اس میں اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) کی ایک روایت میں یہ ہے کہ ذکر سے مراد آیت میں تورات ہے اور زبور سے مراد وہ سب کتابیں ہیں جو تورات کے بعد نازل ہوئیں۔ انجیل، زبور، دائود اور قرآن (اخرجہ ابن جریر) یہی تفسیر ضحاک سے بھی منقول ہے اور ابن زید نے فرمایا کہ ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے اور زبور سے مراد تمام کتابیں جو انبیائے پر نازل ہوئی ہیں۔ زجاج نے اسی کو اختیار کیا۔ (روح المعانی) الارض سے کیا مراد ہے ؟ الارض… اس جگہ ارض سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک ارض جنت ہے۔ ابن جریر نے ابن عباس ( رض) سے یہ تفسیر نقل کی ہے اور یہی تفسیر مجاہد، ابن جبیر، عکرمہ، سدی اور ابوالعالیہ سے بھی منقول ہے۔ امام رازی ( رح) نے فرمایا کہ قرآن کی دوسری آیت میں جو یہ فرمایا کہ اس ارض کے وارث صالحین ہوں گے یہ بھی اسی کا قرینہ ہے کہ ارض سے جنت مراد ہو۔ دنیا کی زمین کے وارث تو مؤمنین کافر سبھی ہوجاتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہاں صالحین کا وارث ارض ہونا ذکر قیامت کے بعد آیا ہے اور قیامت کے بعد جنت کی زمین کے سوا کوئی دوسری زمین نہیں اور حضرت ابن عباس ( رض) کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس ارض سے مراد عام ارض ہے۔ دنیا کی زمین بھی اور جنت کی زمین بھی۔ جنت کی زمین کے تو تنہا وارث صالحین ہونا ظاہر ہے۔ دنیا کی پوری زمین کے وارث ہونا بھی ایک وقت میں مؤمنین صالحین کے لیے موعود ہے جس کی خبر قرآن کریم کی متعدد آیات میں دی گئی ہے۔ ایک آیت میں ہے، ان الارض للہ یورثھا من یّشآء من عبادہٖ والعاقبۃ للمتقین، ایک دوسری آیت میں ہے وعداللّٰہ الّذین اٰمنوا منکم وعملٰوالضّٰلحٰت لیستخلفنّھم فی الارض الآیۃ، تیسری ایک آیت میں انّا الننصر رسلنا والّذین اٰمنوا فی الحیٰوۃ الدّنیا و یوم یقوم الاشھاد، مؤمنین صالحین کا دنیا کے معظم معمورہ پر قابض اور وارث ہونا ایک مرتبہ دنیا پہلے مشاہدہ کرچکی ہے اور زمانہ دراز تک یہ صورت قائم رہی اور پھر حضرت مہدی (علیہ السلام) کے زمانے میں ہونے والی ہے۔ (روح المعانی و ابن کثیر) (ماخوذ از معارف القرآن) اس آیت میں زبور کا حوالہ ہے۔ زبور میں یہ بات یوں تو جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ زمین کے وارث خدا کے نیک بندے ہی ہوں گے لیکن باب 37 تو پورے کا پورا گویا صرف اسی ایک حقیقت کی وضاحت کے لیے مخصوص ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ پورا باب یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے حوالہ کی صحت و صداقت بھی واضح ہوجائے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ زمین کی وراثت سے یہاں کس زمین کی وراثت مراد ہے۔ نیز مِنْ م بَعْدِالذِّکْرِ کا صحیح مفہوم بھی متعین ہوسکے کہ ” ذکر “ سے یہاں کس چیز کی طرف اشارہ ہے۔ پہلے ہم زبور سے حضرت دائود ( علیہ السلام) کا مزمور نقل کرتے ہیں، اس کے بعد اس کی ان باتوں کی طرف اشارہ کریں گے جو آیت زیربحث کی وضاحت کے لیے خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ” تو بدکرداروں کے سبب سے بیزار نہ ہو۔ اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ کیونکہ وہ گھاس کی طرح جلد کاٹ ڈالے جائیں گے۔ اور سبزہ کی طرح مرجھا جائیں گے۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ ملک میں آباد رہ اور اس کی وفاداری سے پرورش پا۔ خداوند میں مسرور رہ۔ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا۔ اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے۔ اور اس پر توکل کر۔ وہی سب کچھ کرے گا۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح، اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ خداوند میں مطمئن رہ اور صبر سے اس کی آس رکھ۔ اس آدمی کے سبب سے جو اپنی راہ میں کامیاب ہوتا۔ اور برے منصوبوں کو انجام دیتا ہے بیزار نہ ہو۔ قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے۔ کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے۔ لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہوجائے گا۔ تو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا پر وہ نہ ہوگا۔ لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے۔ شریر راست باز کے خلاف بندش باندھتا ہے۔ اور اس پر دانت پیستا ہے۔ خداوند اس پر ہنسے گا۔ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کا دن آتا ہے۔ شریروں نے تلوار نکالی اور کمان کھینچی ہے۔ تاکہ غریب اور محتاج کو گرا دیں۔ اور راست رو کو قتل کریں۔ ان کی تلوار ان ہی کے دل کو چھیدے گی۔ اور ان کی کمانیں توڑی جائیں گی۔ صادق کا تھوڑا سا مال۔ بہت سے شریروں کی دولت سے بہتر ہے۔ کیونکہ شریروں کے بازو توڑے جائیں گے۔ لیکن خداوند صادقوں کو سنبھالتا ہے۔ کامل لوگوں کے ایام کو خدا جانتا ہے۔ ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہوگی۔ وہ آفت کے وقت شرمندہ نہ ہوں گے۔ اور کال کے دنوں میں آسودہ رہیں گے۔ لیکن شریر ہلاک ہوں گے۔ خداوند کے دشمن چراگاہوں کی سرسبزی کی مانند ہوں گے۔ وہ فنا ہوجائیں گے۔ وہ دھوئیں کی طرح جاتے رہیں گے۔ شریر قرض لیتا ہے اور ادا نہیں کرتا۔ لیکن صادق رحم کرتا ہے اور دیتا ہے۔ کیونکہ جن کو وہ برکت دیتا ہے وہ زمین کے وارث ہوں گے۔ اور جن پر وہ لعنت کرتا ہے وہ کاٹ ڈالے جائیں گے۔ انسان کی روشیں خداوند کریم کی طرف سے قائم ہیں۔ اور وہ اس کی راہ سے خوش ہے۔ اگر وہ گر بھی جائے تو پڑا نہ رہے گا۔ کیونکہ خداوند اسے اپنے ہاتھ سے سنبھالتا ہے۔ میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں۔ تو بھی میں نے صادق کو بےکس۔ اور اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔ وہ دن بھر رحم کرتا ہے اور قرض دیتا ہے۔ اور اس کی اولاد کو برکت ملتی ہے۔ بدی کو چھوڑ دے اور نیکی کر۔ اور ہمیشہ تک آباد رہ۔ کیونکہ خداوند انصاف کو پسند کرتا ہے، اور اپنے مقدسوں کو ترک نہیں کرتا۔ وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں۔ پر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ صادق کے منہ سے دانائی نکلتی ہے۔ اور اس کی زبان سے انصاف کی باتیں۔ اس کے خدا کی شریعت اس کے دل میں ہے۔ وہ اپنی روش میں پھسلے گا نہیں۔ شریر صادق کی تاک میں رہتا ہے۔ اور اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔ خداوند اسے اس کے ہاتھ میں نہیں چھوڑے گا۔ اور جب اس کی عدالت ہو تو اسے مجرم نہ ٹھہرائے گا۔ خداوند کی آس رکھ اور اسی کی راہ پر چلتا رہ۔ اور وہ تجھے سرفراز کرکے زمین کے وارث بنائے گا۔ ہمارے نزدیک زبور کے اسی مزمور کا قرآن نے یہاں حوالہ دیا ہے۔ اس مزمور پر غور کیجیے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ اس کی نوعیت ایک ترکیب بند کی ہے جس میں پہلے موعظت و نصیحت کی باتیں آتی ہیں پھر بار بار ایک ترجیع یا ٹیپ کے بند کی طرح یہ بات آتی ہے کہ زمین اور ملک کے وارث خدا کے نیک اور متقی بندے ہوں گے۔ یہ اسلوب کلام قرآن کی سورة رحمن کے اسلوب سے مشابہ ہے جس میں فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ، کی ترجیع ہے۔ خط کشیدہ فقروں پر نگاہ ڈالیے تو یہ بات بھی معلوم ہوگی کہ یہاں صالحین و متقین کے لیے زمین کی جس وراثت کا ذکر ہے اس کے ساتھ یہ بشارت بھی ہے کہ یہ وراثت ابدی ہوگی مثلاً فرمایا ہے ” ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہوگی۔ “ دوسری جگہ ہے ” اور ہمیشہ تک آباد رہ “ تیسری جگہ ہے ” وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں “ چوتھی جگہ نہایت واضح الفاظ میں ہے ” اور صادق زمین کے وارث ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ “ ظاہر ہے کہ یہ ابدی وراثت کی بشارت اس زمین سے متعلق نہیں ہے جس پر ہم اور آپ آباد ہیں۔ اس کی نہ تو کوئی چیز ابدی ہے اور نہ اس کی وراثت صالحین و متقین کے لیے مخصوص ہے بلکہ یہ زمین اور اس کی ہر چیز فانی ہے اور اس میں نیکوں اور بدوں دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک مدت تک کے لیے یکساں مہلت بخشی ہے جس کے بعد یہ آسمان و زمین دونوں فنا ہوجائیں گے اور نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ ایک جہانِ نو پیدا ہوگا جس کی ابدی وراثت صالحین و متقین کو حاصل ہوگی اور اہل باطل جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ بعینہٖ یہی بات قرآن سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ اوپر کی آیت 104 میں صاف تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دن اس آسمان کی بساط لپیٹ کر رکھ دے گا۔ سورة ابراہیم آیت 48 میں آسمان و زمین دونوں سے متعلق یہ تصریح ہے کہ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَالْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ (اس دن کو نگاہ میں رکھو جن دن زمین دوسری زمین سے اور آسمان دوسرے آسمان سے بدل دیئے جائیں گے) اس بدلے ہوئے آسمان و زمین کے اندر بلاشبہ یہ قانون ہوگا کہ ان کی ابدی وراثت و بادشاہی صرف صالحین کو حاصل ہوگی۔ نافرمانوں کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ یہ بات صرف زبور اور قرآن ہی سے نہیں بلکہ تمام آسمانی صحیفوں اور تمام نبیوں اور رسولوں کی تعلیم سے ثابت ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن نے آیت زیربحث میں زبور کے حوالہ سے واضح فرمایا ہے۔ زبور حضرت دائود (علیہ السلام) پر اترے ہوئے نغماتِ الٰہی کا مجموعہ ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) جیسا کہ اسی سورة میں بیان ہوا ہے، نبی بھی تھے اور اس زمین کے ایک جلیل القدر بادشاہ بھی۔ ایک بادشاہ کی زبان ہی سے یہ اعلان سب سے زیادہ موزوں ہوسکتا تھا کہ زمین کے حقیقی اور آخری وارث صرف اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہی ہوں گے جب ایک صاحب جبروت بادشاہ اسی حقیقت کی منادی کر گیا ہے تو کسی دوسرے کے لیے اس میں مجالِ سخن کہاں باقی رہی ! ! اس وضاحت کے بعد اب آیت زیربحث کے اجزاء پر غور کیجیے۔ وَلَقَدْکَتَبْنَا فِی الذَّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِالذِّکْرِ ۔ اور زبور کے باب 37 کے حوالہ سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قرآن نے یہاں زبور کی جس تعلیم کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس کے ایک مستقل باب میں نہایت تفصیل کے ساتھ، نہایت موثر انداز میں بیان ہوئی ہے اور یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ اسلوب بیان یہ اختیار فرمایا گیا ہے کہ اصل بات ترجیع و تکرار کے ساتھ اس طرح کہی گئی ہے کہ ہر بار اصل بات سے پہلے حکمت و موعظت کی نہایت اعلیٰ باتوں کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اسی چیز کی طرف قرآن نے من م بعدالذکر کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ اس اشارے کی اہمیت یہ ہے کہ درحقیقت یہی نصیحتیں ہیں جن پر عمل زمین کی ابدی بادشاہی کا ضامن ہے۔ اَنَّ الْاَرْضَ یَزِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ ۔ یہ وہ اصل بات ہے جس کے لیے قرآن نے زبور کا حوالہ دیا ہے۔ زبور کے حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ یہاں زمین سے مراد اس جہانِ نو کی زمین ہے جو قیامت کے بعد وجود میں آئے گی اور جس کے مالک و وارث بلاشرکت غیرے صرف اللہ کے نیکوکار بندے ہوں گے۔ (ماخوذ از تدبر قرآن)
Top