Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے۔
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزُّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِالذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ ۔ (الانبیاء : 105) ( علیہ السلام) ْ (ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے۔ ) اس آیت کریمہ میں پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے زبور میں اپنا یہ فیصلہ لکھ دیا اور اب پھر اس کا اعادہ کررہے ہیں کہ زمین کے وارث اللہ تعالیٰ نے نیک بندے ہوں گے۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زمین سے مراد وہ زمین ہے جس پر ہم رہ رہے ہیں اور اس زمین پر جو لوگ بھی حکومت قائم کرلیتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ جو بالعموم برسراقتدار رہتے ہیں انھیں کو حق ہے کہ وہ اس زمین کے وارث ہوں۔ اور وہ اپنی جن قوتوں سے بہرہ ور ہو کر زمین کی حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اسی صلاحیت کا حاصل کرنا صالحیت ہے جو صلاحیت کا ہم معنی ہے اور یہی لوگ صالحین کہلانے کے مستحق ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک دنیا میں جتنی حکومتیں گزری ہیں اور جن لوگوں نے زمین کے بڑے حصے پر کبھی بھی اقتدار حاصل کیا ہے یہی لوگ تھے جن کو صالح قرار دیا گیا ہے اور انھیں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کا وارث بنایا گیا تھا۔ اس مفہوم کو قبول کرلینے کے بعد پہلی جو بات تسلیم کرنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ فرعون اور نمرود، شداد اور ہامان، ہٹلر اور مسولینی، لینن اور سٹالن علی ہٰذا القیاس ہماری قریب یا بعید تاریخ میں جتنے بھی بڑے بڑے حکمران گزرے ہیں چاہے وہ پرلے درجے کے کافر اور مشرک ہوں، چاہے وہ چنگیز خاں جیسے ظالم ہوں یا جدید دنیا کے بش جیسے لوگ ہوں ان کا کفر اور شرک، ان کا ظلم اور نفاق، ان کی بداخلاقی اور بےحیائی، ان میں سے بعض حکمرانوں کا خدا سے انکار یہ سب بیکار باتیں ہیں، اصل بات دیکھنے کی صرف یہ ہے کہ ان میں دنیا کے کسی حصے پر اقتدار چھین لینے اور قبضہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کے وارث ہیں۔ دوسری بات یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہوگا کہ ماضی میں کتنے عظیم رسول گزرے ہیں جنھیں کسی نہ کسی حکمران کی اصلاح اور ہدایت کے لیے بھیجا گیا اور اگر وہ ہدایت قبول نہیں کرتے تو پھر ان سے اقتدار چھین کر اللہ تعالیٰ کی زمین کے اوپر رہنے والوں کو آزادی سے اللہ تعالیٰ کا دین قبول کرنے کا موقع دیا گیا۔ نہایت اختصار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے اقتدار سے ٹکرائے اور بالآخر فرعون کو تباہ کردیا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نمرود اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے اٹھے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے جالوت کو شکست دی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ یمن کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔ غرضیکہ دنیا میں آنے والا کوئی رسول بھی پہلے سے تخت اقتدار پر متمکن حکمرانوں کی حکمرانی کو پختہ کرنے اور سند جواز دینے کے لیے نہیں آیا بلکہ ان کا تختہ الٹ کر اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین کو نافذ کرنے کے لیے مبعوث ہوا۔ اگر آج کے دانشوروں کا متذکرہ بالا تصور قبول کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبروں کی دعوت غلط تھی اور ظالم حکمرانوں سے ان کا تصادم سراسر فساد پیدا کرنے کی کوشش تھی۔ ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان بھی اس بےہودہ تصور کو قبول نہیں کرسکتا۔ رہی یہ بات کہ اس آیت کریمہ کا صحیح مفہوم کیا ہے اس کے لیے ہم نے معارف القرآن کا ایک نوٹ اور پھر تدبر قرآن کا ایک نوٹ نقل کیا ہے تاکہ ان سے استفادہ کیا جاسکے۔ ذکر اور زبور کی وضاحت لفظ زبور، زُبُرْ کی جمع ہے جس کے معنی کتاب کے ہیں اور زبور اس خاص کتاب کا نام بھی ہے جو حضرت دائود (علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔ اس جگہ زبور سے کیا مراد ہے اس میں اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ( رض) کی ایک روایت میں یہ ہے کہ ذکر سے مراد آیت میں تورات ہے اور زبور سے مراد وہ سب کتابیں ہیں جو تورات کے بعد نازل ہوئیں۔ انجیل، زبور، دائود اور قرآن (اخرجہ ابن جریر) یہی تفسیر ضحاک سے بھی منقول ہے اور ابن زید نے فرمایا کہ ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے اور زبور سے مراد تمام کتابیں جو انبیائے پر نازل ہوئی ہیں۔ زجاج نے اسی کو اختیار کیا۔ (روح المعانی) الارض سے کیا مراد ہے ؟ الارض… اس جگہ ارض سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک ارض جنت ہے۔ ابن جریر نے ابن عباس ( رض) سے یہ تفسیر نقل کی ہے اور یہی تفسیر مجاہد، ابن جبیر، عکرمہ، سدی اور ابوالعالیہ سے بھی منقول ہے۔ امام رازی ( رح) نے فرمایا کہ قرآن کی دوسری آیت میں جو یہ فرمایا کہ اس ارض کے وارث صالحین ہوں گے یہ بھی اسی کا قرینہ ہے کہ ارض سے جنت مراد ہو۔ دنیا کی زمین کے وارث تو مؤمنین کافر سبھی ہوجاتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہاں صالحین کا وارث ارض ہونا ذکر قیامت کے بعد آیا ہے اور قیامت کے بعد جنت کی زمین کے سوا کوئی دوسری زمین نہیں اور حضرت ابن عباس ( رض) کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس ارض سے مراد عام ارض ہے۔ دنیا کی زمین بھی اور جنت کی زمین بھی۔ جنت کی زمین کے تو تنہا وارث صالحین ہونا ظاہر ہے۔ دنیا کی پوری زمین کے وارث ہونا بھی ایک وقت میں مؤمنین صالحین کے لیے موعود ہے جس کی خبر قرآن کریم کی متعدد آیات میں دی گئی ہے۔ ایک آیت میں ہے، ان الارض للہ یورثھا من یّشآء من عبادہٖ والعاقبۃ للمتقین، ایک دوسری آیت میں ہے وعداللّٰہ الّذین اٰمنوا منکم وعملٰوالضّٰلحٰت لیستخلفنّھم فی الارض الآیۃ، تیسری ایک آیت میں انّا الننصر رسلنا والّذین اٰمنوا فی الحیٰوۃ الدّنیا و یوم یقوم الاشھاد، مؤمنین صالحین کا دنیا کے معظم معمورہ پر قابض اور وارث ہونا ایک مرتبہ دنیا پہلے مشاہدہ کرچکی ہے اور زمانہ دراز تک یہ صورت قائم رہی اور پھر حضرت مہدی (علیہ السلام) کے زمانے میں ہونے والی ہے۔ (روح المعانی و ابن کثیر) (ماخوذ از معارف القرآن) اس آیت میں زبور کا حوالہ ہے۔ زبور میں یہ بات یوں تو جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ زمین کے وارث خدا کے نیک بندے ہی ہوں گے لیکن باب 37 تو پورے کا پورا گویا صرف اسی ایک حقیقت کی وضاحت کے لیے مخصوص ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ پورا باب یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے حوالہ کی صحت و صداقت بھی واضح ہوجائے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ زمین کی وراثت سے یہاں کس زمین کی وراثت مراد ہے۔ نیز مِنْ م بَعْدِالذِّکْرِ کا صحیح مفہوم بھی متعین ہوسکے کہ ” ذکر “ سے یہاں کس چیز کی طرف اشارہ ہے۔ پہلے ہم زبور سے حضرت دائود ( علیہ السلام) کا مزمور نقل کرتے ہیں، اس کے بعد اس کی ان باتوں کی طرف اشارہ کریں گے جو آیت زیربحث کی وضاحت کے لیے خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ” تو بدکرداروں کے سبب سے بیزار نہ ہو۔ اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ کیونکہ وہ گھاس کی طرح جلد کاٹ ڈالے جائیں گے۔ اور سبزہ کی طرح مرجھا جائیں گے۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ ملک میں آباد رہ اور اس کی وفاداری سے پرورش پا۔ خداوند میں مسرور رہ۔ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا۔ اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے۔ اور اس پر توکل کر۔ وہی سب کچھ کرے گا۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح، اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ خداوند میں مطمئن رہ اور صبر سے اس کی آس رکھ۔ اس آدمی کے سبب سے جو اپنی راہ میں کامیاب ہوتا۔ اور برے منصوبوں کو انجام دیتا ہے بیزار نہ ہو۔ قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے۔ کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے۔ لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہوجائے گا۔ تو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا پر وہ نہ ہوگا۔ لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے۔ شریر راست باز کے خلاف بندش باندھتا ہے۔ اور اس پر دانت پیستا ہے۔ خداوند اس پر ہنسے گا۔ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کا دن آتا ہے۔ شریروں نے تلوار نکالی اور کمان کھینچی ہے۔ تاکہ غریب اور محتاج کو گرا دیں۔ اور راست رو کو قتل کریں۔ ان کی تلوار ان ہی کے دل کو چھیدے گی۔ اور ان کی کمانیں توڑی جائیں گی۔ صادق کا تھوڑا سا مال۔ بہت سے شریروں کی دولت سے بہتر ہے۔ کیونکہ شریروں کے بازو توڑے جائیں گے۔ لیکن خداوند صادقوں کو سنبھالتا ہے۔ کامل لوگوں کے ایام کو خدا جانتا ہے۔ ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہوگی۔ وہ آفت کے وقت شرمندہ نہ ہوں گے۔ اور کال کے دنوں میں آسودہ رہیں گے۔ لیکن شریر ہلاک ہوں گے۔ خداوند کے دشمن چراگاہوں کی سرسبزی کی مانند ہوں گے۔ وہ فنا ہوجائیں گے۔ وہ دھوئیں کی طرح جاتے رہیں گے۔ شریر قرض لیتا ہے اور ادا نہیں کرتا۔ لیکن صادق رحم کرتا ہے اور دیتا ہے۔ کیونکہ جن کو وہ برکت دیتا ہے وہ زمین کے وارث ہوں گے۔ اور جن پر وہ لعنت کرتا ہے وہ کاٹ ڈالے جائیں گے۔ انسان کی روشیں خداوند کریم کی طرف سے قائم ہیں۔ اور وہ اس کی راہ سے خوش ہے۔ اگر وہ گر بھی جائے تو پڑا نہ رہے گا۔ کیونکہ خداوند اسے اپنے ہاتھ سے سنبھالتا ہے۔ میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں۔ تو بھی میں نے صادق کو بےکس۔ اور اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔ وہ دن بھر رحم کرتا ہے اور قرض دیتا ہے۔ اور اس کی اولاد کو برکت ملتی ہے۔ بدی کو چھوڑ دے اور نیکی کر۔ اور ہمیشہ تک آباد رہ۔ کیونکہ خداوند انصاف کو پسند کرتا ہے، اور اپنے مقدسوں کو ترک نہیں کرتا۔ وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں۔ پر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ صادق کے منہ سے دانائی نکلتی ہے۔ اور اس کی زبان سے انصاف کی باتیں۔ اس کے خدا کی شریعت اس کے دل میں ہے۔ وہ اپنی روش میں پھسلے گا نہیں۔ شریر صادق کی تاک میں رہتا ہے۔ اور اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔ خداوند اسے اس کے ہاتھ میں نہیں چھوڑے گا۔ اور جب اس کی عدالت ہو تو اسے مجرم نہ ٹھہرائے گا۔ خداوند کی آس رکھ اور اسی کی راہ پر چلتا رہ۔ اور وہ تجھے سرفراز کرکے زمین کے وارث بنائے گا۔ ہمارے نزدیک زبور کے اسی مزمور کا قرآن نے یہاں حوالہ دیا ہے۔ اس مزمور پر غور کیجیے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ اس کی نوعیت ایک ترکیب بند کی ہے جس میں پہلے موعظت و نصیحت کی باتیں آتی ہیں پھر بار بار ایک ترجیع یا ٹیپ کے بند کی طرح یہ بات آتی ہے کہ زمین اور ملک کے وارث خدا کے نیک اور متقی بندے ہوں گے۔ یہ اسلوب کلام قرآن کی سورة رحمن کے اسلوب سے مشابہ ہے جس میں فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ، کی ترجیع ہے۔ خط کشیدہ فقروں پر نگاہ ڈالیے تو یہ بات بھی معلوم ہوگی کہ یہاں صالحین و متقین کے لیے زمین کی جس وراثت کا ذکر ہے اس کے ساتھ یہ بشارت بھی ہے کہ یہ وراثت ابدی ہوگی مثلاً فرمایا ہے ” ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہوگی۔ “ دوسری جگہ ہے ” اور ہمیشہ تک آباد رہ “ تیسری جگہ ہے ” وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں “ چوتھی جگہ نہایت واضح الفاظ میں ہے ” اور صادق زمین کے وارث ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ “ ظاہر ہے کہ یہ ابدی وراثت کی بشارت اس زمین سے متعلق نہیں ہے جس پر ہم اور آپ آباد ہیں۔ اس کی نہ تو کوئی چیز ابدی ہے اور نہ اس کی وراثت صالحین و متقین کے لیے مخصوص ہے بلکہ یہ زمین اور اس کی ہر چیز فانی ہے اور اس میں نیکوں اور بدوں دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک مدت تک کے لیے یکساں مہلت بخشی ہے جس کے بعد یہ آسمان و زمین دونوں فنا ہوجائیں گے اور نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ ایک جہانِ نو پیدا ہوگا جس کی ابدی وراثت صالحین و متقین کو حاصل ہوگی اور اہل باطل جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ بعینہٖ یہی بات قرآن سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ اوپر کی آیت 104 میں صاف تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دن اس آسمان کی بساط لپیٹ کر رکھ دے گا۔ سورة ابراہیم آیت 48 میں آسمان و زمین دونوں سے متعلق یہ تصریح ہے کہ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَالْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ (اس دن کو نگاہ میں رکھو جن دن زمین دوسری زمین سے اور آسمان دوسرے آسمان سے بدل دیئے جائیں گے) اس بدلے ہوئے آسمان و زمین کے اندر بلاشبہ یہ قانون ہوگا کہ ان کی ابدی وراثت و بادشاہی صرف صالحین کو حاصل ہوگی۔ نافرمانوں کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ یہ بات صرف زبور اور قرآن ہی سے نہیں بلکہ تمام آسمانی صحیفوں اور تمام نبیوں اور رسولوں کی تعلیم سے ثابت ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن نے آیت زیربحث میں زبور کے حوالہ سے واضح فرمایا ہے۔ زبور حضرت دائود (علیہ السلام) پر اترے ہوئے نغماتِ الٰہی کا مجموعہ ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) جیسا کہ اسی سورة میں بیان ہوا ہے، نبی بھی تھے اور اس زمین کے ایک جلیل القدر بادشاہ بھی۔ ایک بادشاہ کی زبان ہی سے یہ اعلان سب سے زیادہ موزوں ہوسکتا تھا کہ زمین کے حقیقی اور آخری وارث صرف اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ہی ہوں گے جب ایک صاحب جبروت بادشاہ اسی حقیقت کی منادی کر گیا ہے تو کسی دوسرے کے لیے اس میں مجالِ سخن کہاں باقی رہی ! ! اس وضاحت کے بعد اب آیت زیربحث کے اجزاء پر غور کیجیے۔ وَلَقَدْکَتَبْنَا فِی الذَّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِالذِّکْرِ ۔ اور زبور کے باب 37 کے حوالہ سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قرآن نے یہاں زبور کی جس تعلیم کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس کے ایک مستقل باب میں نہایت تفصیل کے ساتھ، نہایت موثر انداز میں بیان ہوئی ہے اور یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ اسلوب بیان یہ اختیار فرمایا گیا ہے کہ اصل بات ترجیع و تکرار کے ساتھ اس طرح کہی گئی ہے کہ ہر بار اصل بات سے پہلے حکمت و موعظت کی نہایت اعلیٰ باتوں کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اسی چیز کی طرف قرآن نے من م بعدالذکر کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ اس اشارے کی اہمیت یہ ہے کہ درحقیقت یہی نصیحتیں ہیں جن پر عمل زمین کی ابدی بادشاہی کا ضامن ہے۔ اَنَّ الْاَرْضَ یَزِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ ۔ یہ وہ اصل بات ہے جس کے لیے قرآن نے زبور کا حوالہ دیا ہے۔ زبور کے حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ یہاں زمین سے مراد اس جہانِ نو کی زمین ہے جو قیامت کے بعد وجود میں آئے گی اور جس کے مالک و وارث بلاشرکت غیرے صرف اللہ کے نیکوکار بندے ہوں گے۔ (ماخوذ از تدبر قرآن)
Top