Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 40
اِ۟لَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًا١ؕ وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ
الَّذِيْنَ : جو لوگ اُخْرِجُوْا : نکالے گئے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھر (جمع) شہروں بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق اِلَّآ : مگر (صرف) اَنْ : یہ کہ يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں رَبُّنَا اللّٰهُ : ہمارا رب اللہ وَلَوْ : اور اگر لَا دَفْعُ : دفع نہ کرتا اللّٰهِ : اللہ النَّاسَ : لوگ بَعْضَهُمْ : ان کے بعض (ایک کو) بِبَعْضٍ : بعض سے (دوسرے) لَّهُدِّمَتْ : تو ڈھا دئیے جاتے صَوَامِعُ : صومعے وَبِيَعٌ : اور گرجے وَّصَلَوٰتٌ : اور عبادت خانے وَّمَسٰجِدُ : اور مسجدیں يُذْكَرُ : ذکر کیا جاتا (لیا جاتا ہے) فِيْهَا : ان میں اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام كَثِيْرًا : بہت۔ بکثرت وَلَيَنْصُرَنَّ : اور البتہ ضرور مدد کرے گا اللّٰهُ : اللہ مَنْ : جو يَّنْصُرُهٗ : اس کی مدد کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَقَوِيٌّ : طاقت والا (توانا) عَزِيْزٌ : غالب
جو اپنے گھروں سے بےوجہ نکالے گئے محض اس بات پر کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے،73۔ اور اگر اللہ لوگوں کا زور ایک دوسرے سے نہ گھٹاتا رہتا تو نصاری کی خانقاہیں اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے (سب) منہدم ہوگئے ہوتے،74۔ اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے،75۔ بیشک اللہ قوت والا ہے غلبہ والا ہے،76۔
73۔ ذکر مسلماناں مکہ کا ہے ان سے مشرکوں کو کوئی یہ شکایت تھوڑے ہی تھی کہ یہ لوگ شورش پسند ہیں یا چوریاں کرتے ہیں یا ڈاکے ڈالتے ہیں۔ الزام تھا تو صرف یہی کہ یہ ہمارے آبائی دھرم اور باپ دادا کے وقت کے دیویوں دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک خدا کے ہو رہے ہیں ! بس اسی قصور پر بیچاروں کو وطن چھوڑنا پڑا۔ اور ہجرت پہلے حبشہ کی جانب اور پھر مدینہ کو کرنی پڑی۔ 74۔ یعنی اگر یہ سنت اللہ ہمیشہ سے نہ چلی آئی ہوتی کہ ظالموں، سرکشوں، زبردستوں کا زور انسانوں ہی کے بعض گروہوں کے ہاتھ سے تڑوایا جاتا رہتا تو اب تک جو جو عمارتیں توحید کی مرکز رہی ہیں۔ مثلا مسجدیں جواب بھی اسی غرض کے لیے ہیں، اور اہل کتاب کی مذہبی عمارتیں جو اپنے اپنے زمانہ میں یہ کام انجام دے چکی ہیں، سب ختم ہوگئی ہوتیں۔ گویا جہاد کی مشروعیت ومطلوبیت اقامت توحید ہی کی خاطر ہے۔ خوب خیال رہے کہ پرانی عبادتگاہوں کے سلسلہ میں بھی ذکر مندروں، شوالوں، ٹھاکردواروں کا نہیں بلکہ صرف انہیں مذاہب کا آنے پایا ہے ہے جو بعد کو عملا جیسے کچھ بھی ہوگئے ہیں، لیکن اصلا بہرحال توحیدی ہی مذہب تھے۔ ” کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ گاہ گاہ اہل حق بھی تو مغلوب ہوتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اتنا غلبہ جس میں حق محونہ ہوجائے، مقصود بالحکمت ہے۔ سو یہ حاصل رہا ہے “۔ (تھانوی (رح ) 75۔ یعنی بہ شرط ثبات انجام میں غلبہ اہل حق ہی کو ہوتا ہے۔” اور اعتبار ہر کام میں انجام ہی کا ہوتا ہے۔ جیسا دوران علاج میں مریض کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں مگر انجام اگر صحت ہے تو علاج کو نافع کہیں گے “۔ (تھانوی (رح) (آیت) ” ینصرہ “ میں اللہ کی مدد سے مراد، اللہ کے دین کی مدد ہے۔ ینصرہ اے ینصردینہ (بیضاوی) انما المراد من نصرۃ اللہ نصرۃ دینہ (کبیر) 76۔ قوت و غلبہ کی آخری باگ اسی کے ہاتھ میں ہے اور اس کا ارادہ ہر مادی سامان اور ہر ظاہری تدبیر سے بالاتر ہے۔
Top