Tafseer-e-Majidi - Al-Ankaboot : 46
وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ۖۗ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
وَلَا تُجَادِلُوْٓا : اور تم نہ جھگڑو اَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے جو ھِىَ اَحْسَنُ ڰ : وہ بہتر اِلَّا : بجز الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا مِنْهُمْ : ان (میں) سے وَقُوْلُوْٓا : اور تم کہو اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ : ہم ایمان لائے اس پر جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَاُنْزِلَ : اور نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف وَاِلٰهُنَا : اور ہمارا معبود وَاِلٰهُكُمْ : اور تمہارا معبود وَاحِدٌ : ایک وَّنَحْنُ : اور ہم لَهٗ : اس کے مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار (جمع)
اور تم اہل کتاب سے مباحثہ مت کرو بجز مہذب طریقہ کے سوا ان میں سے ان لوگوں کے جو زیادتی کریں،55۔ اور کہہ دو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اس (کتاب) پر بھی جو ہم پر نازل ہوئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو تم پر نازل ہوئیں، اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود تو ایک ہی ہے اور ہم تو اسی کے فرمانبردار ہیں،56۔
55۔ (تو انہیں البتہ جواب ترکی بہ ترکی دینے میں مضائقہ نہیں) مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تبلیغ کے سلسلہ میں موقعے مباحثہ ومناظرہ کے بھی آئیں گے۔ کتابی مذہب والوں یعنی جو توحید وسلسلہ نبوت کے قائل ہیں ان سے مباحثہ کے وقت ہمیشہ نرمی، تہذیب اور ان کی دلجوئی سے کام لیتے رہو کہ اس سے انہیں ترغیب اسلام میں داخل ہونے کی ہوتی رہے گی۔ ہاں البتہ ان میں جو بدزبان ہوں انہیں حسب مصلحت ان کے رنگ میں بھی جو اب دیا جاسکتا ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا، اس میں دلالت ہے کہ مخالف کے ساتھ اول نرمی برتے اور جب عناد ظاہر ہو تو خشونت کی اجازت ہے۔ چناچہ یہی طریقہ ہے اہل اللہ کا مخالفین کے ساتھ۔ البتہ طالبین کے ساتھ طرز دوسرا ہے۔ یعنی ان کے ساتھ نرمی کی جائے جب تک عذر جہل باقی ہے۔ اور جب یہ عذر نہ رہے تو پھر سختی کی جائے۔ اور یہی معاملہ تھا رسول اللہ ﷺ کا صحابہ کے ساتھ۔ 56۔ یعنی اہل کتاب کو سمجھاؤ کہ جب ہم تم میں اتنا اشتراک ہے کہ ہماری طرح تم بھی توحید کے قائل ہو، اور بجائے ملکی یا قومی یا قبائلی خدا کے، ایک خدائے پروردگار عالم کے قائل ہو، ہماری طرح سلسلہ وحی ونبوت کو مانتے ہو اور ہم تمہاری الہامی کتابوں کو مانتے ہیں، تو اب بات ہی کیا رہ جاتی ہے، جو تم ہمارے صحفیہ آسمانی سے انکار کیے جاتے ہو ؟ (آیت) ” امنا ...... الیکم “۔ مسلمان اپنے رسول کریم ﷺ کی وحی ونبوت کو دنیا سے بالکل الگ ومنفرد نہیں مانتا۔ وہ تو تسلسل وحی کا قائل ہے، وہ تو اس کا معتقد ہے کہ ہمارے نبی کے پاس وہی وحی آخر میں بطور خاتم الانبیاء و اعظم والانبیاء ہونے کے آئی ہے، جو اب سے قبل ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور بیسیوں دوسرے پیغمبران جلیل القدر پر آچکی تھی۔ (آیت) ” والھنا والھکم واحد “۔ اور تم فلاں فلاں دیوتا کے پجاری۔ پروردگار عالم کی توحید اور اس کی عبادت تو ہم تم میں مشترک ہے۔ اسلام کا یہ ایک امتیازی نشان تمام غیر کتابی مذہبوں کے مقابلہ میں خوب سمجھے رہنا چاہیے کہ اسلام ہی نے پروردگار عالم کا، الہ الکائنات کا تخیل دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ورنہ دنیا میں اب تک تو ہر ہر علاقہ، یا ہر ہر قوم کے الگ الگ دیوتا ہوتے تھے۔
Top