Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور ضرور ہے کہ تم میں ایک ایسی جماعت رہے جو نیکی کی طرف بلایا کرے اور بھلائی کا حکم دیا کرے اور بدی سے روکا کرو اور پورے کامیاب یہی تو ہیں۔220 ۔
220 ۔ کسی درجہ میں اور ایک چھوٹے پیمانہ پر تو یہ فرض ہر فرد امت کا ہے۔ لیکن یہاں مقصود یہ ہے کہ ایک مستقل جماعت خاص اسی کام کے لیے ہو۔ اس کا کام ہی یہی ہو کہ خلق کو دعوت خیر دے۔ معروف (بھلے کاموں) کی طرف بلائے منگر (برے کاموں) سے روکے۔ (آیت) ” امۃ “۔ یہ بھی کمال رحمت اور ضعف بشری کی انتہائی رعایت ہے کہ ساری امت کے بجائے اس فریضہ پر ایک مخصوص جماعت ہی کو مامور کیا گیا، ورنہ اس فریضہ کی ادائی کے لیے جن اوصاف اور شرائط کی ضرورت ہے کیا عجب کہ بہتوں کو وہ سخت دشوار معلوم ہوتے۔
Top