Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 12
وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا
وَاِذْ : اور جب يَقُوْلُ : کہنے لگے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جن کے فِيْ قُلُوْبِهِمْ : دلوں میں مَّرَضٌ : روگ مَّا وَعَدَنَا : جو ہم سے وعدہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اِلَّا : مگر (صرف) غُرُوْرًا : دھوکہ دینا
اور جب کہ منافقوں اور ان لوگوں نے جن کے دلوں میں مرض ہے یوں کہنا شروع کیا تھا کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے تو محض دھوکے ہی کا وعدہ کر رکھا ہے،26۔
26۔ اہل ایمان کی پختگی و استقامت کی یہ پوری اور سخت آزمائش تھی، شدید سردی کا موسم تھا، غلہ کی گرانی وکمیابی تھی۔ صحابہ بلکہ خود رسول اللہ ﷺ تک بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے، اس پر بھی ہمت و استقلال کا یہ عالم تھا کہ سنگلاخ زمین کی کھدائی بغیر کسی ” سفر مینا “ کی پلٹن کے، بغیر (Sappers And Miner) کے کسی دستے کے، اپنے ہاتھ سے جاری تھی، ظاہری مغلوبیت وبیچارگی کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے دست مبارک میں پھاؤ ڑا لے کر ایک پتھر پر جو ضرب لگائی تو آگ کے شرارے پیدا ہوئے اور ایسا تین بار ہر ہر ضرب پر ہوا۔ اس روشنی میں آپ ﷺ کی نگاہ کشفی کو ایران اور شام اور یمن کے محل دکھائے گئے۔ اور آپ نے اپنے رفیقوں کو بشارت دی کہ یہ سب ملک میری امت کودے دیئے گئے ہیں۔ کچے اور کمزور ایمان والے تو دو دلے ہو ہی رہے تھے۔ اور اپنی جان کی خیر منا رہے تھے۔ منافقین نے طنز و استہزاء سے کہنا شروع کیا کہ ” یہ لیجئے حالت تو یہ ہورہی ہے، اور خواب دیکھ رہے ہیں ایران اور روم کے شاہی محلوں کے۔ (آیت) ” ھنالک ابتلی “۔ الخ۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ بلاؤں کا پیش آنا، اور انہیں میں قبض وغیرہ مکروہات باطنی بھی داخل ہیں، کبھی امتحان صدق کے لئے بھی ہوتا ہے۔ پس سالک کو چاہئے کہ ان حالات میں صبر سے کام لے اور طاعت پر جما رہے۔
Top