Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
مَا كَانَ : نہیں ہیں مُحَمَّدٌ : محمد اَبَآ : باپ اَحَدٍ : کسی کے مِّنْ رِّجَالِكُمْ : تمہارے مردوں میں سے وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کے رسول وَخَاتَمَ : اور مہر النَّبِيّٖنَ ۭ : نبیوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمًا : جاننے والا
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،89۔ البتہ اللہ کے رسول ہیں،90۔ اور (سب) نبیوں کے ختم پر ہیں،91۔ اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے،92۔
89۔ (اور جب ان کے کوئی بیٹا ہی نہیں تو بہو کے ساتھ نکاح کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا) اسم پاک محمد پر حاشیہ سورة آل عمران (پ 4) میں گزر چکا۔ (آیت) ” وما محمد الا رسول “۔ کے تحت میں۔ 90۔ (اور اسی طرح ساری امت کے روحانی مربی) اس میں یہ بھی اشارہ نکل آیا کہ آپ ﷺ کو امت کے ایک ایک فرد کے ساتھ جو تعلق شفقت و رحمت ہے وہ طبعی نہیں ماتحت رضاء الہی ہے۔ 91۔ (اس لیے آپ ﷺ کی تربیت روحانی بھی غیر موقوف وغیر منقطع ہے) ختم نبوت کی یہ تصریح نہ ہوتی جب بھی دوسری آیات۔ مثلا (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی “ وغیرہ اس عقیدہ کی بنیاد بننے کے لیے کافی تھیں۔ جب کوئی درجہ مزید تعلیم واصلاح کا باقی ہی نہ رہا تو اب کسی نئے نبی کی ضرورت ہی کیا رہی ؟ لیکن اس غرض سے کہ آئندہ کی جھوٹے مدعی نبوت کے لیے اتنی گنجائش بھی باقی نہ رہے، یہاں بتصریح یہ وارد کردی گئی۔ (آیت) ” خاتم۔۔۔ خاتم “۔ اور خاتم دونوں کے معنی لغت میں آخر کے ہٰں۔ خاتمھم وخاتمھم اے اخرھم (لسان) خاتم النبیین اے اخرھم (تاج) اور آپ ﷺ کا لقب خاتم النبیین ہے ہی اسی لیے کہ نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوگئی۔ اور نبوت کی تکمیل آپ کی آمد سے ہوگئی۔ وخاتم النبیین لانہ ختم اے تممھا بمجیۂ (راغب) ھوالذی ختم النبوۃ بمجۂ (تاج) خاتم النبیین اے اخرالانبیاء (کشاف) والمعنی انہ لانبی احد بعدہ (بحر) خاتم بفتح التاء اے اخرھم (معالم) ختم اللہ بہ النبوۃ (معالم) ھذہ الایۃ نص فی انہ لانبی بعدہ وبذالک وردت الاحادثا لمتواترہ عن رسول اللہ عن جماعۃ من الصحابہ (ابن کثیر) خود قرآن مجید ہی میں دوسری قرأت خاتم النبیین فھوخاتمھم (معالم) ختم نبوت یعنی ذات محمدی پر ہر قسم کی نبوت کا ختم ہوجانا امت کا اجماعی عقیدہ ہیں اور جو اجر اء نبوت کا اب بھی قائل ہے اہل تحقیق نے تصریح کردی ہے کہ وہ اجماع امت سے زندیق بلکہ حکومت اسلامی میں واجب یجب قتلہ (بحر) واجمعت علیہ الامۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر (روح) یہ ختم نبوت کا دعوی بھی اسلام کے امتیازی خصوصیات میں سے ہے، پیغمبر اور ہادیان مذہب قرآن سے قبل بیشمار آچکے تھے۔ کتابیں بھی نازل ہوچکی تھیں۔ مگر یہ دعوی کسی نے بھی نہیں کیا تھا کہ میں آخری پیغمبر ہوں اور میرے بعد اب کوئی پیغمبر نہ آئے گا، اور اس دعوے کی بولتی ہوئی سچائی دیکھئے کہ اس تیرہ چودہ سو برس کی مدت میں کوئی سنجیدگی کے ساتھ دعویدار نبوت ہوا ہی نہیں۔ مسیلمہ متنبی وغیرہ کا جو حشر ہو اوہ ظاہر ہی ہے۔ لے دے کے نام ساری تاریخ میں صرف دو شخصوں کے اس سلسلہ میں لیے جاسکتے ہیں۔ ایک بہاء اللہ (بانی مذہب بہائی) دوسرے مرزا غلام احمد (بانی سلسلہ قادیانی) تو ان میں مرزا تو اپنے کو کھلم کھلا محمدی اور متبع کامل دین احمدی کہتے ہیں۔ چناچہ ان کی نبوت تو ان کے زعم واصطلاح میں تمامتر اتباع رسول ہی ہے۔ رہا مذہب بہائی تو وہ بھی بڑی حد تک دین محمدی ہی کی تحریف شدہ شکل کا نام ہے۔ 92۔ (سو اس نے کسی مصلحت ہی سے رسول کو اس نکاح کا حکم دیا)
Top