Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 124
وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا
وَمَنْ : اور جو يَّعْمَلْ : کرے گا مِنَ : سے الصّٰلِحٰتِ : اچھے کام مِنْ : سے ذَكَرٍ : مرد اَوْ اُنْثٰى : یا عورت وَھُوَ : بشرطیکہ وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَاُولٰٓئِكَ : تو ایسے لوگ يَدْخُلُوْنَ : داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت وَلَا : اور نہ يُظْلَمُوْنَ : ان پر ظلم ہوگا نَقِيْرًا : تل برابر
اور جو کوئی نیکیوں پر عمل کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان ہو تو ایسے (سب) لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا،325 ۔
325 ۔ (کہ ان کی کوئی نیکی لکھنے سے جزئا یا کلا، رہ جائے) (آیت) ” وھو مومن “۔ ایمان کی قید بہت ضروری ہے۔ ہر عمل کے واقعۃ صالح ہونے کے لئے لازم ہے کہ محرک عمل بھی صحیح ہو۔ ریا، نمایش یا وہم پرستی مقصود نہ ہو۔ اسی اخلاص نیت کا نام اصطلاح شریعت میں ایمان ہے۔ اور بغیر اخلاص نیت کے کوئی مقبول نہیں اسکے بغیر عمل صالح صرف صورۃ ہی صالح ہوگا۔ حقیقت صالحیت سے خالی۔ یہیں سے اس بحث کا بھی خاتمہ ہوا جاتا ہے جو بعض سطحی دماغ والوں نے آج کل پیدا کر رکھی ہے یعنی آیا کافروں کے اعمال صالحہ قبول ہوں گے ؟ جواب یہ ہے کہ بغیر اخلاص نیت یا ایمان کے کسی عمل پر عمل صالح کا اطلاق ہی درست نہیں، تو اس کے اجر کا کیا سوال ہے (آیت) ” یعمل من الصلحت۔۔ کے بعد ھو مومن “۔ کے اضافہ نے اس مسئلہ کو صاف کردیا کہ ایمان اور عمل صالح دو الگ الگ چیزیں ہیں، باہم مرادف نہیں۔ فیہ اشارۃ الی ان الاعمال لیست من الایمان (مدارک) (آیت) ” من ذکر اوانثی “۔ اس میں تردید آگئی ان تمام جاہلی مذہبوں کی جو حسن عمل کے باوجود عورت کو محض اس کے عورت ہونے کی بنا پر ثمرۂ حسن عمل سے محروم ٹھہرائے ہوئے ہیں، اسلام میں عورت کو اس کی جنس کی بنا پر ہرگز اجر سے محروم نہیں کیا ہے۔ ” نقیر “۔ پر حاشیہ اوپر گزر چکا ہے۔
Top