Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 125
وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا
وَمَنْ : اور کون۔ کس اَحْسَنُ : زیادہ بہتر دِيْنًا : دین مِّمَّنْ : سے۔ جس اَسْلَمَ : جھکا دیا وَجْهَهٗ : اپنا منہ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَھُوَ : اور وہ مُحْسِنٌ : نیکو کار وَّاتَّبَعَ : اور اس نے پیروی کی مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَاتَّخَذَ : اور بنایا اللّٰهُ : اللہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم خَلِيْلًا : دوست
اور دین میں اس سے بہتر کون ہے جو اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دے اور وہ مخلص بھی ہو،326 ۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) راست رو کے مذہب کی پیروی کرے،327 ۔ اور اللہ نے تو ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست بنالیا،328 ۔
326 ۔ یعنی فرمانبرداری دل سے ہو، منافقانہ نہ ہو۔ موحد محسن بالقول والفعل (ابن عباس ؓ متابعاللشریعۃ فیصح ظاہرہ بالمتابعۃ و باطنہ بالاخلاص (ابن کثیر) (آیت) ” اسلم وجھہ “۔ یعنی فرمانبرداری اختیار کرے عقائد میں بھی، اعمال میں بھی، ای اخلص دینہ وعملہ للہ (ابن عباس ؓ 327 ۔ (کہ اس ملت ابراہیمی کا دوسرا نام دین اسلام ہے) 328 ۔ توریت میں بھی ابراہیم (علیہ السلام) کا لقب خدا کا ” دوست “ آیا ہے :۔ ”’ کیا تو ہمارا خدا نہیں، جس نے اس سرزمین کے باشندوں کو اپنی گروہ اسرائیل کے آگے سے خارج کیا اور اسے اپنے دوست ابرہام کی نسل کو ہمیشہ کے لئے دیا۔ “ (2 ۔ تواریخ 20:7) ” اے اسرائیل میرے بندے، اے یعقوب جسے میں نے پسند کیا، جو میرے دوست ابرہام کی نسل سے ہے “ (یسعیاہ 4 1:8) (آیت) ” خلیلا “۔ خلۃ کہتے ہیں محبت خالص کو اور خلیل دوست خالص کو۔ الخلۃ ھی المودۃ التی لیس فیھا خلل (بحر) محبۃ تامۃ لاخلل فیھا (تاج) قال الزجاج الخلیل ھو المحب الذی لاخلل فی محبتہ (تاج) سمی خلیلا لان اللہ احبہ واصطفا (معالم) قال ثعلب انما سمی الخلیل خلیلا لان محبتہ تتخلل القلب فلا تدع فیہ خللا الاملاتہ (قرطبی) خلت الہی سے مراد ہے تقرب ومقبولیت کا اعلی مقام، قرآن مجید نے ایک طرف تو ملت ابراہیمی کی پیروی ضروری قرار دی اور دوسری طرف ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل بنایا۔ اس میں صاف اشارہ یہ نکل آیا کہ اسی ملت کی پیروی سے آج بھی کوئی نہ کوئی درجہ خلت کا حاصل ہوسکتا ہے۔
Top