Kashf-ur-Rahman - Adh-Dhaariyat : 50
فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ١ؕ اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
فَفِرُّوْٓا اِلَى : پس دوڑو طرف اللّٰهِ ۭ : اللہ کی اِنِّىْ لَكُمْ : بیشک میں تمہارے لیے مِّنْهُ : اس کی طرف سے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا ہوں مُّبِيْنٌ : کھلم کھلا
بس تم اللہ ہی کی طرف دوڑو میں تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کھلا ڈرانے والا ہوں،29۔
29۔ (اور میری ساری تنبیہوں کا خلاصہ بس یہی ہے کہ شرک والحاد چھوڑ کر توحید کی راہ پر قائم ہوجاؤ) (آیت) ” ففروا “۔تعقیب کے لئے ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اتنی مشرک گمراہ قوموں کے تذکرے اور اللہ کی قدرت کاملہ کا بیان سن لینے کے بعد اب سارے عالم سے بھاگ کر اللہ کے ہوجاؤ۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ لفظ فرار سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ توجہ الی اللہ خوب شوق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پہلا موقع توحید کے ایجابی واثباتی پہلو پر زور دینے کا ہے اور دوسرا سلبی ومنفی پہلو کی اہمیت کا اظہار کا۔
Top