Tafseer-e-Majidi - An-Najm : 32
اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ١ؕ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ١ۚ فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ يَجْتَنِبُوْنَ : جو اجتناب برتتے ہیں كَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ : بڑے گناہوں سے وَالْفَوَاحِشَ : اور بےحیائی کی باتوں سے اِلَّا اللَّمَمَ ۭ : مگر چھوٹے گناہ اِنَّ رَبَّكَ : بیشک رب تیرا وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۭ : وسیع مغفرت والا ہے هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ : وہ زیادہ جانتا ہے تم کو اِذْ اَنْشَاَكُمْ : جب اس نے پیدا کیا تم کو مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے وَاِذْ اَنْتُمْ : اور جب تم اَجِنَّةٌ : ناپختہ بچے تھے۔ جنین فِيْ بُطُوْنِ : پیٹوں میں اُمَّهٰتِكُمْ ۚ : اپنی ماؤں کے فَلَا تُزَكُّوْٓا : پس نہ تم پاک ٹھہراؤ اَنْفُسَكُمْ ۭ : اپنے نفسوں کو هُوَ اَعْلَمُ : وہ زیادہ جانتا ہے بِمَنِ اتَّقٰى : اس کو جو تقوی اختیار کرے
وہ لوگ ایسے ہیں جو کبیر گناہوں اور بےحیائیوں سے بچے رہتے ہیں، مگر ہاں یہ کہ ہلکے ہلکے گناہ ہوجائیں،27۔ بیشک آپ کا پروردگار بڑی وسیع مغفرت والا ہے،28۔ وہ تم کو خوب جانتا ہے جب کہ تم کو زمین سے پیدا کیا تھا اور جب تم ماؤں کے پیٹ میں بطور جنین کے تھے تو تم اپنے آپ کو مقدس نہ سمجھو، بس وہی خوب جانتا ہے تقوی والوں کو،29۔
27۔ (کبھی کبھار۔ تو وہ درجہ محسنیت اور محبوبیت کے منافی نہیں) ” جو محبوبیت یہاں بقرینہ مقام مدح مذکور ہے اس کا مصداق بننے کے لئے کبائر سے بچنا تو شرط ہے لیکن صغائر کا احیانا صدور اس کے لئے موقوف علیہ نہیں البتہ عدم اصرار شرط ہے۔ “ (تھانوی (رح)) (آیت) ” الااللم “۔ لمم اور الالمام وہ معصیت ہے جو کبھی کبھی اور اتفاقا سرزد ہوجائے۔ یقال فلان یفعل کذالمما اے حینا بعد حین (راغب) واصل اللمم والالمام مایعملہ الانسان الحین بعد الحین ولایکون لہ عادۃ ولا اقامۃ علیہ (روح) اے مایاتی بہ المومن ویندم فی الحال وھو من اللمم الذی ھو مس من الجنون (کبیر) مقصود کلام یہ ہے کہ انسان گناہ پر جما نہ رہے۔ گناہ اس سے سرزد ہوتے رہیں اور وہ ان پر توبہ و استغفار کرتا رہے مذہب اہل سنت میں مقبولین ومحبوبین کے لئے ضروری شرط گناہوں سے محفوطیت ہرگز نہیں بلکہ یہی گناہوں پر توبہ، ندامت، انفعال و استغفار ہے۔ صحابیوں اور تابعین سب سے یہی مذہب منقول ہے۔ ومعنی الایۃ الا ان یلم بالفاحشۃ مرۃ ثم یتوب ویقع الواقعۃ ثم ینتھی وھو قول ابن ہریرہ ؓ و مجاھد والحسن وروایۃ عطاء عن ابن عباس (معالم) عن ابی ہریرہ وقال اللمۃ من الزنا چم یتوب ولا یعود واللمۃ من السرقۃ ثم یتوب ولا یعود واللمۃ من شرب الخمر ثم یتوب ولا یعود قال کذالک الالمام (ابن کثیر) بعض اقوال اس مضمون کے بھی نقل ہوئے ہیں۔ کہ لمم کے تحت میں بڑے چھوٹے سارے ہی گناہ آجاتے ہیں۔ بجز شرک کے۔ قال عبداللہ بن عمر وبن العاص ؓ واللمم مادون الشرک (معالم) غرض یہ کہ آیت سے یہ بالکل ظاہر ہوجاتا ہے کہ گناہوں کا کبھی کبھی سرزد ہوتے رہنا جب درجہ محسنیت کے منافی نہیں تو عامہ مومینن کے مقام سے تو اسے اور بھی تنانی حاصل نہیں۔ 28۔ (تو سب بندوں کو چاہئے کہ تھوڑا ساصرف ہمت کرکے اور اپنے بدکرداریوں کا تدارک کرکے اس کی مغفرت وسیع میں داخل ہوجائیں) 29۔ (کہ کون متقی ہے اور کون نہیں، گو افعال تقوی صورۃ دونوں سے صادر ہوتے ہیں) آیت میں اہل طاعت کو تنبیہ ہے کہ اپنے متعلق عجب وپندار میں نہ مبتلا ہوجائیں۔ (آیت) ” مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں دعوی تقدس سے صریح ممانعت ہے۔ (آیت) ” اذا انشاکم من الارض “۔ یعنی جب تم سب کو تمہارے جدا علی آدم (علیہ السلام) کے واسطہ سے پیدا کیا تھا۔ یہ ذکر انسان کی خلقت نوعی کا ہوا۔ (آیت) ” واذ .... امھتکم “ یہ بیان انسان کی خلقت شخصی کا ہوا۔ (آیت) ” من الارض “۔ یعنی زمین کی خاک سے، مطلب یہ ہوا کہ انسان سے متعلق علم کامل تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ باقی انسان پر تو ایسی حالتیں گزرتی ہیں کہ اسے خود اپنی حالت کا شعور واحساس نہیں ہوتا۔
Top