Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 140
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْۤا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِ١ؕ قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ۠   ۧ
قَدْ خَسِرَ : البتہ گھاٹے میں پڑے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے قَتَلُوْٓا : انہوں نے قتل کیا اَوْلَادَهُمْ : اپنی اولاد سَفَهًۢا : بیوقوفی سے بِغَيْرِ عِلْمٍ : بیخبر ی (نادانی سے) وَّحَرَّمُوْا : اور حرام ٹھہرا لیا مَا : جو رَزَقَهُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ افْتِرَآءً : جھوٹ باندھتے ہوئے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَدْ ضَلُّوْا : یقیناً وہ گمراہ ہوئے وَمَا كَانُوْا : اور وہ نہ تھے مُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والے
بڑے ہی گھاٹے میں وہ لوگ آگئے جنہوں نے اپنی اولاد کو قتل کردیا از راہ حماقت بغیر کسی بنیاد کے،210 ۔ اور جو کچھ انہیں اللہ نے نصیب کر رکھا تھا اسے (اپنے اوپر) حرام کرلیا اللہ پر افتراء کرتے ہوئے (یہ لوگ) خوب ہی بھٹکے اور (کسی طرح) راہ یاب نہ ہوئے،211 ۔
210 ۔ اولاد کشی کی رسم کسی ایک قوم یا ملک تک محدود نہ تھی۔ عرب، ہندوستان، یونان، رومہ، سب اس بلا میں مبتلا رہے ہیں۔ اسلام نے آکر اور اس دستورکو مٹا کر محض قومی یا ملکی نہیں۔ بلکہ ایک عالمی اور کائناتی اصلاح انجام دی۔ (ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن) (آیت) ” سفھا بغیر علم “۔ یہ لاکر صاف بتلادیا ہے کہ اس جاہلی گو ” مہذب “ دستور کی بنیاد ہرگز نہ کسی وحی الہی پر ہے نہ کسی دلیل عقلی وتجربی پر بلکہ یہ تمامتر جہل ونادانی کا ثمرہ ہے۔ اردو محاورہ کی رعایت سے (آیت) ” قد خسر “۔ کا ترجمہ ” بڑے ہی گھاٹے میں آگئے “ سے کیا گیا ہے۔ 211 ۔ (آیت) ” ما رزقھم اللہ “۔ عام طور پر مفسریننی اس فقرہ سے مراد کھانے پینے کی چیزیں لی ہیں۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد مقتول اولاد ہی ہو۔ جن کا ذکر چل رہا تھا۔ یعنی ملتی ہوئی اولاد سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آج ” منع حمل “ کے نام سے جو ملعون تحریک دجل وتزویر کی انتہائی خوشنمائی اور رنگ آمیزیوں کیساتھ شائع ہورہی ہے۔ وہ پوری طرح اس کے تحت میں آجاتی ہے۔ (آیت) ” افترآء علی اللہ “۔ احکام شریعت میں حک واضافہ کھلا ہوا (آیت) ” افترآء علی اللہ “۔ ہے اسی طرح اللہ کے قوانین تکوینی میں بھی ” ایجادہ بندہ “ کو دخل دینا اور لمبے لمبے دعوے ہانکتے رہنا کہ ہمارے اس مجوزہ نظام میں فلاں فلاں اجتماعی مصالح ہیں یہ بھی ایک قسم افتراء علی اللہ ہی کی ہے۔ (آیت) ” قد ضلوا وما کانوا مھتدین “۔ تاکید اور تصریح کے لیے ہے کہ یہ لوگ خوب جی بھر کر گمراہ ہوئے ہیں اور انہیں صحیح فلسفہ کی ہوا ہی نہیں لگی ہے۔
Top