Tafseer-e-Majidi - Al-Haaqqa : 17
وَّ الْمَلَكُ عَلٰۤى اَرْجَآئِهَا١ؕ وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ
وَّالْمَلَكُ : اور فرشتے عَلٰٓي اَرْجَآئِهَا : اس کے کناروں پر ہوں گے وَيَحْمِلُ : اور اٹھائے ہوئے ہوں گے عَرْشَ رَبِّكَ : تیرے رب کا عرش فَوْقَهُمْ : اپنے اوپر يَوْمَئِذٍ : اس دن ثَمٰنِيَةٌ : آٹھ (فرشتے)
اور فرشتے اسکے کنارے پر ہوں گے،6۔ اور آپ کے پروردگار کے عرش کو اپنے اوپر اس روز آٹھ (فرشتے) اٹھائے ہوں گے،7۔
6۔ (جس وقت آسمان پھٹنا شروع ہوگا) ذکر ان فرشتوں کا ہے جو آسمان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ (آیت) ” وحملت الارض واجبال “۔ یعنی اپنے اپنے مقام وحیز سے یہ چیزیں ہٹادی جائیں گی، ذکر قیامت کے نفخہ اول کا چل رہا ہے۔ (آیت) ” والملک “۔ ملک۔ یہاں بطور اسم جنس آیا ہے۔ سورة مفرد ومعنی جمع۔ للجنس بمعنی الجمع (مدارک) لم یردبہ ملکا واحد بل ارادالجنس والجمع (کبیر) 7۔ (جیسا کہ اس وقت چار اٹھائے ہوئے ہیں) عرش الہی کی کیفیت یا ماہیت اور اس کی تفصیلات سب علم و شعور انسانی کی موجودہ سطح سے بالاتر ہیں اس لئے بجز اجمالی بیان سن لینے اور اس کی اجمالی تصدیق کردینے کے بندوں کے لئے کوئی چارہ نہیں۔ البتہ محققین نے لکھا ہے کہ عرش الہی کو اس وقت جو چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں، یہ محض سطوت وجبروت شہنشاہی کے اظہار کے لئے ہے ورنہ عرش تو ثقل مادی سرے سے رکھتا ہی نہیں۔ البتہ نورانیت وہیبت الہی کا بار رکھتا ہے۔ سو آخرت میں شان جبروتی کا ظہور کامل ہوگا اس لیے چار حامل اور بڑھ جائیں گے یہ کہنا کہ فرشتوں کا حامل عرش ہونا حق تعالیٰ کی شان قیومیت کے منافی ہے محض اپنی سطحیت کا اظہار کرنا ہے۔ اگر قیومیت کے یہ معنی لے لئے جائیں تو ایک اسی مسئلہ پر کیا موقوف ہے، ملائکہ کو واسطہ بنا کر ان سے کام لیتے رہنے کا سارا نظام ہی باطل ہوا جاتا ہے۔ (آیت) ” یومئذ “۔ سے مراد مجموعی وقت قیامت ہے اس کے نصف اول (جب نفخہ اولی ہوگا) کا بیان پہلے ہوچکا، اب ذکر نصف ثانی کا ہورہا ہے۔ جب نفخہ ثانی ہوگا۔
Top