Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 17
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ١۪ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى١ۚ وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ : سو تم نے نہیں قتل کیا انہیں وَلٰكِنَّ : بلکہ اللّٰهَ : اللہ قَتَلَهُمْ : انہیں قتل کیا وَ : اور مَا رَمَيْتَ : آپ نے نہ پھینکی تھی اِذْ : جب رَمَيْتَ : آپ نے پھینکی وَلٰكِنَّ : اور بلکہ اللّٰهَ : اللہ رَمٰى : پھینکی وَلِيُبْلِيَ : اور تاکہ وہ آزمائے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مِنْهُ : اپنی طرف سے بَلَآءً : آزمائش حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
سو ان (کافروں) کو تم نے قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور آپ نے (ان پر) خاک کی مٹھی نہیں پھینکی جب کہ آپ نے وہ پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی،26 ۔ تاکہ آزمائش کرے ایمان والوں کی اپنی طرف سے اچھی آزمائش بیشک اللہ خوب سننے والا ہے خوب جاننے والا ہے،27 ۔
26 ۔ (تاثیر حقیقی کے مرتبہ میں۔ کہ مؤثر حقیقی صرف اس کی قدرت ہے) سپہ داراعظم رسول اللہ ﷺ نے حالت جہاد میں ایک مٹھی بھر کنکریاں یا مٹھی اٹھا کر مشرکوں کے لشکر کی طرف پھینکیں، ریزے ان کی آنکھوں میں جاکر گھس گئے اور انہیں شکست ہوئی، حدیث میں روایت غزوۂ بدر وغزوۂ حنین دونوں کے سلسلہ میں آئی ہے۔ سیاق قرآن صاف غزوۂ بدر کے سلسلہ میں ہے۔ (آیت) ” فلم تقتلوھم “۔سے غرض یہ ہے کہ جب تم تائید غیبی کے ایسے ایسے عجائب وخوارق وخود مشاہدہ کرچکے ہو تو اب یہ بھی سمجھ لو۔ آیت اس مضمون کو صاف کررہی ہے کہ فاعل حقیقی ومؤثر اصلی صرف حق تعالیٰ ہے گوعالم اسباب میں وہ کام آلات ووسائط ہی سے لیتا رہتا ہے۔ فنزلت الایۃ اعلاما بان اللہ تعالیٰ ھو الممیت والمقدر لجمیع الاشیاء وان العبد انما یشارک بتکسبہ وقصدہ (قرطبی) اے لیس بحولکم وقوتکم قتلتم اعداء کم مع کثرۃ عددھم وقلۃ عددکم ای بل ھو الذی اظفرکم علیہم (ابن کثیر) (آیت) ” وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی “۔ یعنی یہ آپ ﷺ کے یا کسی مخلوق کے بھی بس میں نہ تھا کہ خاک کے وہ ذرے ہر ہر کافر کی آنکھ تک پہنچا دیں رمی کا یہ معجزانہ عمل تمام تر قدرت الہی کا کرشمہ تھا۔ عنی بذالک ان اللہ بلغ بذالک التراب وجوھھم وعیونھم اؔ ذلم یکن فی وسع احد من المخلوقین ان یبلغ ذالک التراب عیونھم من الموضع الذی کان فیہ النبی ﷺ (جصاص) وما رمیت یا محمد رمیا توصلہ الی اعینھم ولم تقدر علیہ اذ رمیت اے اذ رمیت بصورۃ الرمی ولکن اللہ رمی اے اتی بما ھو غایۃ الرمی فاوصلھا الی اعینھم جمیعا حتی انھزموا (بیضاوی) 27 ۔ اس پر بندوں کے الفاظ واقوال بھی اور احوال و اعمال بھی سب یکساں روشن ہیں۔ (آیت) ” ولیبلی ال مومنین منہ بلآء حسنا “۔ مومنین کی اس آزمائیش سے مقصد یہ کہ انہیں ان کے قصد سے اختیار کئے ہوئے اعمال پر خوب اجر وصلہ دے۔
Top