Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا انہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے (کچھ) بھلے اور کچھ،188۔ برے، توقع ہے کہ اللہ ان پر توجہ کرے بیشک اللہ بڑا مغفرت والا ہے، بڑا رحمت والا ہے،189۔
188۔ غزوۂ تبوک میں ساتھ نہ جانے والوں میں علاوہ منافقین کے کچھ مومنین بھی تے جو محض کاہلی کی بنا پر پیچھے رہ گئے تھے۔ اب یہاں سے بیان ان کا شروع ہورہا ہے۔ ان میں بھی کچھ ایسے تھے جنہیں ندامت اس درجہ قوی تھی کہ انہوں نے جب آپ ﷺ کی واپسی کی خبر سنی تو اپنے کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا کہ آپ ﷺ کھولیں تو خیر ورنہ یوں ہی ختم ہوجائیں گے، پہلے ذکر اسی قسم کے نادمین تائبین کا شروع ہوتا ہے، یہ وہ لوگ تھے جن میں گناہ کا ملکہ راسخ نہ تھا بلکہ نوراستعداد پوری طرح باقی تھا۔ (آیت) ” عملا صالحا “۔ مثلا سابق کے غزوات میں شرکت یا خود اسی موقع پر یہ احساس ندامت۔ (آیت) ” اخر سیئا “۔ جیسے بلاعذر معقول اسی غزوہ میں پیچھے رہ جانا۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جہاد عام حالت میں صرف فرض کفایہ ہے اس لئے اگر کچھ لوگ نہ شریک ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن جب امام المسلمین (چہ جائیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم عام دے دیں تو اب فرض عین ہوجائے گا اور یہی صورت یہاں تھی۔ (آیت) ” واخر “۔ میں و علاوہ عطف وجمع کے بائے الصاق کے معنی میں بھی لیا گیا ہے۔ قالوا وبمعنی الباء لان الواو للجمع والباء للالصاق (مدارک) مرشد تھانوی (رح) نے کہا ہے یہ لوگ تھے جو نفس لوامہ کے مرتبہ میں تھے۔ جو کبھی نفس مطمئنہ کا منقاد ہو کر اعمال صالح کرنے لگتا اور کبھی اس سے بھاگنے لگتا ہے۔ 189۔ چناچہ اسی شان غفر و رحمت کے تقاضہ سے ان لوگوں کا قصور معاف ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ نے خود آکر ان کے ہاتھ ستونوں سے کھول دیئے (آیت) ” عسی اللہ ان یتوب علیھم “۔ یعنی توجہ رحمت کے ساتھ کرے اور ان کی توبہ قبول کرے، عسی جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے جب اللہ کی طرف سے آتا ہے تو شک کیلئے نہیں بلکہ یقین دلانے کے لئے آتا ہے۔ قال الحسن عسی من اللہ واجب (جصاص) آیت سے محققین نے یہ نکالا ہے کہ گنگار کیلئے توبہ سے یاس جائز ہی نہیں۔ اور امید قبول وعفو کی برابر اس وقت تک قائم ہے جب تک بندہ بدی کے ساتھ نیکی کی آمیزش بھی کچھ کئے جاتا ہے۔ فی ھذہ الایۃ دلالۃ علی ان المذنب لایجوز لہ الیاس من التوبۃ وانما یعرض ما دام یعمل مع الشر خیر (جصاص)
Top