Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 101
وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ١ۛؕ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ١ؔۛ۫ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ١۫ لَا تَعْلَمُهُمْ١ؕ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ١ؕ سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍۚ
وَمِمَّنْ : اور ان میں جو حَوْلَكُمْ : تمہارے ارد گرد مِّنَ : سے۔ بعض الْاَعْرَابِ : دیہاتی مُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَمِنْ : اور سے۔ بعض اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ : مدینہ والے مَرَدُوْا : اڑے ہوئے ہیں عَلَي : پر النِّفَاقِ : نفاق لَا تَعْلَمُھُمْ : تم نہیں جانتے ان کو نَحْنُ : ہم نَعْلَمُھُمْ : جانتے ہیں انہیں سَنُعَذِّبُھُمْ : جلد ہم انہیں عذاب دینگے مَّرَّتَيْنِ : دو بار ثُمَّ : پھر يُرَدُّوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے اِلٰى : طرف عَذَابٍ : عذاب عَظِيْمٍ : عظیم
اور کچھ تمہارے گردوپیش والے دیہاتیوں میں سے اور کچھ مدینہ والوں میں سے (ایسے) منافق ہیں (کہ) نفاق میں اڑ گئے ہیں،186۔ آپ (بھی) انہیں نہیں جانتے ہیں ہم انہیں دہری سزا دیں گے پھر وہ عذاب عظیم کی طرف بھیجے جائیں گے،187۔
186۔ ( اور اے حدکمال تک پہنچا دیا ہے) اے اقاموا علیہ ولم یتوبوا (ابن جریر۔ عن ابن زید) اے ثبتوا واستمروا فیہ ولم یتوبوا عنہ (کبیر) اے تمھروافیہ (کشاف) (آیت) ” ممن حولکم “۔ تمہارے گردو پیش “ یعنی تمہارے شہر کے گردو پیش، یعنی حول بلدتکم وھی المدینۃ (کشاف۔ مدارک) 187۔ (آیت) ” لا تعلمھم “ یعنی ان کا نفاق اس حد کمال کو پہنچا ہوا ہے، اس قدر خفی ہے کہ آپ ﷺ کو بھی، بایں فطانت وذکاوت و کمال باخبری، ان کے منافق ہونے کا علم نہیں، اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کی صریح نفی موجود ہے۔ جس کا دعوی ہمارے زمانہ کے بعض عالم نما جاہلوں نے کیا ہے۔ ووردت الایۃ فی نفی علم الغیب عن رسول اللہ ﷺ صریحا (تھانوی) کشف کے مدعیوں کو بھی آیت سے سبق لینا چاہیے۔ لاینبغی الاقدام علی دعوی الامور الخفیۃ من اعمال القلب ونحوھا (روح) یہ اور اسی قسم کی متعدد آیات قرآنی اس شخص کے خیال کی تردید میں ہیں جو صفائے قلب واشراقیت وغیرہ کی بنا پر کشف صدور واطلاع غیوب کا دعوی کرنے لگتا ہے اور یہ مرض علامہ محمود آلوسی تیرھویں صدی میں لکھتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں سفہاء کے اندر شدت سے پھیلا ہوا ہے۔ وھذہ الایات ونحوھا اقوی دلیل فی الرد علی من بزعم الکشف والاطلاع علی المغیات بمجرد صفاء القلب وتجرد النفس عن الشواغل وبعضھم یتساھلون فی ھذا الباب جدا (روح) امام ابن جریر نے آیت کے ذیل میں قتادہ تابعی (61 ھ ؁ تا 116 ھ۔ ) کا طویل قول نقل کہ ہمارے زمانہ میں بعض لوگوں کی جسارتیں کیسی بڑھ گئی ہیں کہ فلاں کے جنتی اور فلاں کے جہنمی ہونے کا حکم لگادیتے ہیں حالانکہ غیب کی خبر انبیاء (علیہ السلام) بھی نہیں دے سکتے تھے۔ اور پھر کئی آیات قرآنی نقل کی ہیں۔ قتادہ بھی پہلی صدی کے آخر اور دوسری صدی کے اول کے آدمی تھے، علامہ ابن حیان غرناطی (654 ؁ تا 754 ؁ھ) ان کا یہ قول نقل کرکے کہتے ہیں کہ یہ حال اس زمانہ کا ہے جو عہد صحابہ سے اس قدر متصل تھا اور کثرت خیر کے لئے ممتاز تھا لیکن شیاطین انس کے وجو دے وہ بھی خالی نہ رہا تو اب ہماری آٹھویں صدی ہجری کا کیا حال بیان کیا جائے جب بہت سے مدعیان تصوف کی زبان ایسے ہی دعو وں پر کھل گئی ہے، یہ لوگ نہ کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور نہ سنت رسول ﷺ کی طرف اور غیب دانی کے خرافات پر اتنے دلیر ہیں ! (بحر) یہ حال جب آٹھویں صدی کا تھا تو چودھویں صدی ہجری کا غیر رہنے والا اپنے وقت کا حال بیان کرنے کے لئے الفاظ کہاں سے لائے اور یہیں سے اکابر علماء سنت نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ کسی پر قطعی طور پر جنتی یا دوزخی ہونے کا حکم لگا دینا درست نہیں۔ ھذا یمنع ان یحکم علی احد بجنۃ اونار (قرطبی) (آیت) ” نحن نعلمھم “۔ یہیں سے ظاہر ہے کہ کسی انسان پر جنتی یا جہنمی ہونے کا قطعی حکم کوئی انسان نہیں لگا سکتا یہ صرف علم خداوندی ہونے کا خاصا ہے۔ وھذا یمنع ان یحکم علی احد بجنۃ اونار (قرطبی) (آیت) ” سنعذبھم مرتین “۔ (یہ دوہری سزا قبل آخرت ہوگی، ایک سزا نفاق کی، دوسری سزا کمال نفاق کی) لعل تکریر عذابھم لما فیہ من الکفر المشفوع بالنفاق اوالنفاق الموکد بالتمرد فیہ (روح) (آیت) ” ثم یردون الی عذاب عظیم “۔ یہ عذاب عظیم ظاہر ہے کہ عذاب آخرت ہے۔ دو عذاب اس کے قبل کے جس پر لفظ (آیت) ” ثم “۔ دلالت کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک سزا اسی دنیا کی ہو، اور دوسرا عذاب قبر ہو، قبل آخرت کے عموم میں، دنیا اور برزخ دونوں داخل ہیں۔ احدھما فی الدنیا والاخری فی القبر (ابن جریر) اے عذاب الدنیا و عذاب القبر (قرطبی، عن الحسن، قتادہ) اکثر الناس علی ان عذاب الثانی ھو عذاب القبر (بحر) ھما القتل و عذاب القبر او الفضیحۃ و عذاب القبر (مدارک)
Top