Tafseer-e-Mazhari - Al-Humaza : 7
الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْئِدَةِؕ
الَّتِيْ : جو کہ تَطَّلِعُ : جا پہنچے عَلَي : پر الْاَفْئِدَةِ : دلوں
جو دلوں پر جا لپٹے گی
التی تطلع علی الافئدۃ . یعنی وہ آگ دلوں تک پہنچے گی۔ اطلاع اور بلوغ (پہنچنا) ہم معنی ہیں۔ عرب کا محاورہ ہے : اِطَّلَعْتَ اَرْضَنَا تو ہماری زمین تک پہنچ گیا۔ ابن مبارک نے اپنی سند سے خالد بن عمران کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آگ دوزخ والوں کو کھالے گی یہاں تک کہ جب دل تک پہنچ جائے گی تو رک جائے گی پھر وہ آدمی دوبارہ ویسا ہی ہوجائے گا جیسا پہلے تھا۔ پھر آگ اس کو لے گی اور دل تک پہنچے گی۔ یہی حالت اس کی ہوتی رہے گی۔ نار اللہ الموقدۃ التی تطلع علی الافئدۃ کا یہی مطلب ہے۔ قرطبی اور کلبی کا بھی یہی قول ہے۔ میں کہتا ہوں ‘ دل کا اس جگہ تذکرہ (چند وجوہ کے تحت کیا گیا ہے): 1) اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ عذاب کا دوام معلوم ہوجائے کیونکہ دنیوی آگ جس کسی کو جلاتی ہے تو دل تک پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک کردیتی ہے۔ بخلاف آتش جہنم کے (کہ وہ دل تک پہنچنے کے بعد بھی ہلاک نہیں کرے گی اور سوزش کا عذاب ہمیشہ ہوتا رہے گا) ۔ 2) یا دل کو ذکر کرنے کی یہ وجہ ہے کہ سارے بدن میں دل سب سے زیادہ لطیف اور الم پذیر ہے۔ 3) یا یہ وجہ ہے کہ غلط عقائد کا محل اور برے اعمال کا سرچشمہ قلب ہی ہے گویا یہی آتش جہنم کی پیدائش گاہ ہے۔
Top