Tafseer-e-Mazhari - Ar-Ra'd : 24
سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِؕ
سَلٰمٌ : سلامتی عَلَيْكُمْ : تم پر بِمَا : اس لیے کہ صَبَرْتُمْ : تم نے صبر کیا فَنِعْمَ : پس خوب عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
(اور کہیں گے) تم پر رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب (گھر) ہے
سلم علیکم (اور کہیں گے :) تم پر سلامتی ہو۔ یعنی جن تکالیف کا تم کو ڈر رہتا تھا ‘ اب اللہ نے ان سے تم کو بچا لیا اور لازوال نعمتیں عطا فرما دیں۔ بما صبرتم تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے۔ یعنی گناہوں سے بچ کر ‘ نفسانی خواہشات کو روک کر ‘ طاعت پر قائم رہنے اور مصائب کو برداشت کرنے کی وجہ سے تم کو یہ ثواب ملا ہے۔ فنعم عقبے الدار سو اس جہان میں تمہارا انجام بہت اچھا ہے۔ حضرت ابو امامہ کا بیان ہے کہ جنت کے اندر اپنی مسند (مسہری) پر مؤمن راحت اندوز ہوں گا ‘ خادموں کی دو قطاریں اس کے سامنے ہوں گی ‘ دونوں قطاروں کے سرے پر ایک بند دروازہ ہوگا ‘ دروازے پر فرشتہ اندر آنے کا طلبگار ہوگا۔ مؤمن اپنے قریبی خادم سے اور وہ خادم اپنے برابر والے خادم سے اور یونہی سلسلہ وار ہر خادم اپنے متصل خادم سے کہے گا کہ فرشتہ دروازہ پر خواستگار اجازت ہے۔ یہاں تک کہ آخری خادم جو دروازہ سے متصل ہوگا ‘ وہ دروازہ کھول دے گا۔ فرشتہ اندر آکر سلام کرے گا اور واپس چلا جائے گا۔ رواہ البغوی حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنت کے اندر سب سے پہلے وہ فقراء و مہاجرین داخل ہوں گے جن کے ذریعہ سے سرحدوں کی بندش ہوتی ہے اور مصائب سے بچاؤ ہوتا ہے۔ غریب دل کی خواہش دل ہی میں لے کر مرجاتے ہیں ‘ ان کی حاجت پوری نہیں ہوتی۔ اللہ اپنی مشیّت کے مطابق فرشتوں سے فرمائے گا : ان کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو۔ فرشتے عرض کریں گے : اے ہمارے مالک ! ہم تیرے آسمان کے رہنے والے اور تیری مخلوق میں سب سے برگزیدہ ہیں ‘ کیا تو ہم کو حکم دے رہا ہے کہ ان کو جا کر سلام کریں ؟ اللہ فرمائے گا : یہ میرے بندے میری عبادت کرتے تھے ‘ کسی چیز کو میرا شریک نہیں قرار دیتے تھے ‘ انہی کے ذریعہ سے اسلامی سرحدوں کی بندش ہوتی تھی اور انہی کے سبب مصائب سے بچاؤ ہوتا تھا۔ یہ ایسی حالت میں مرے کہ ان کی تمنا ان کے دلوں میں ہی رہی (دنیا میں) ان کی حاجت پوری نہیں ہوئی۔ حسب الحکم ملائکہ ان کے پاس آئیں گے (ا اللہ نے فرمایا ہے) یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ۔
Top