Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 15
وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠   ۧ
وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلَيْهِ : اس پر يَوْمَ : جس دن وُلِدَ : وہ پیدا ہوا وَيَوْمَ : اور جس دن يَمُوْتُ : وہ فوت ہوگا وَيَوْمَ : اور جس دن يُبْعَثُ : اٹھایا جائے گا حَيًّا : زندہ ہو کر
اور جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وفات پائیں گے اور جس دن زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ ان پر سلام اور رحمت (ہے)
وسلم علیہ یوم ولد ویوم یموت ویوم یبعث حیا۔ سَلٰمٌ عَلَیْہِہر دکھ اور اذیت سے اللہ کی طرف سے اس کے لئے سلامتی ہے ‘ یہ جملۂ معترضہ ہے۔ یَوْمَ وُلِدَیعنی پیدائش کے وقت یحییٰ کو شیطان کی دسترس سے محفوظ رکھا گیا ‘ شیطان پیدائش کے وقت جو اثر بچے پر ڈالتا ہے (کچوکا دیتا ہے) یحییٰ کو اس سے بچا لیا گیا یَوْمَ یَمُوْتُاور مرنے کے دن ‘ یعنی عذاب قبر سے بھی اسے محفوظ رکھا گیا ‘ وَیَوْمَ یبعث حیًّا اور قیامت کے دن دوزخ کے عذاب سے اس کو محفوظ کردیا گیا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا انسان کے یہ ہی تین عجیب احوال ہوتے ہیں (1) ماں کے پیٹ کو چھوڑ کر باہر اس دنیا میں آتا ہے۔ (2) دنیا سے نکل کر دوسرے عالم میں پہنچتا ہے جہاں اس کو وہ اشخاص ملتے ہیں جو اس دنیا میں اس کو کبھی نظر نہیں آئے۔ (3) زندہ ہو کر میدان حشر میں پہنچے گا اور ایسا میدان اور اجتماع اس نے کبھی نہ دیکھا ہوگا (نہ دنیا میں نہ عالم برزخ میں) ان تینوں حالات و مقامات میں محفوظ رہنے کی خصوصیت اللہ نے یحییٰ کو عطا فرمائی۔ یَوْمَ وُلِدَ اور یَوْمَ یَمُوْت اور یَوْمَ یبعث کا تعلق ظرف مستقر محذوف سے ہے جس سے لفظ عَلَیْہ متعلق ہے۔ ایک شبہ ا ہل کوفہ کہتے ہیں کہ ظرف مستقر کا تعلق صفت کے صیغہ سے ہوتا ہے اور صفت کا صیغہ محذوف ہوتا ہے ‘ یعنی مستقر علیہ یا حاصل علیہ۔ اہل بصرہ کہتے ہیں کہ ظرف مستقر کا تعلق فعل محذوف سے ہوتا ہے یعنی اِسْتَقَرَّ عَلَیْہِ یا حصل علیہ۔ ماضی کے صیغہ سے اگر یوم کا تعلق مانا جائے تو بیشک یَوْمُ وُلِدَکا مطلب ٹھیک ہوجائے گا ‘ یحییٰ پر سلامتی نے قرار پکڑا جس روز وہ پیدا ہوئے۔ لیکن یموت اور یُبْعَثُتو مضارع کے صیغے ہیں جن کا زمانہ ابھی نہیں آیا پھر یہ کہنا کس طرح صحیح ہوگا کہ یحییٰ پر سلامتی نے قرار پکڑا۔ جس روز وہ مریں گے اور جس روز وہ اٹھائے جائیں گے اور کو فیوں کے مسلک پر صفت کا صیغہ محذوف ہوگا جو حال کے معنی میں ہوگا اس صورت میں مستقر علیہ یَوْمَ یَمُوْت اور یوم یبعث کہنا تو صحیح ہوجائے گا لیکن یَوْمَ وُلِدَ کہنا صحیح نہ ہوگا ولد ماضی کا صیغہ ہے اور مستقر بمعنی حال ہے۔ جواب محققین نحو کہتے ہیں کہ ظرف پر عامل معنوی عمل کرتا ہے یعنی صرف مصدری معنی عامل ہوتا ہے کسی زمانہ کا لحاظ نہیں کیا جاتا اسی لئے ہٰذَا زَیْدٌ قَاءِمًا میں حال (یعنی قائما کا عامل معنوی مانا جاتا ہے ‘ کسی خاص زمانہ پر دلالت بالکل نہیں ہوتی اِسْتَقَرَّ (برقول اہل بصہ) اور مُسْتَقَرٌّ (بر قول اہل کوفہ) کو عامل مجازاً قرار دیا جاتا ہے (کیونکہ عامل معنوی کے لئے کوئی لفظ نہیں بنایا گیا) اور بالفرض اگر حقیقت میں حَصَلَفعل یا حاصِلٌ (صیغۂ صفت) کے متعلق ہم مان بھی لیں ‘ تب بھی علیہ کی ظرفیت ‘ زمانیت سے خالی ہوجائے گی ‘ کیونکہ یہ ظرف فعل (حَصَلَ ) یا صیغۂ صفت (حَاصِلٌ) کے قائم مقام ہوگیا ہے اور ہر فعل کی بو اس کے اندر آگئی ہے (لیکن کسی زمانہ کے ساتھ خصوصی اقتران نہیں ہے) ۔
Top