Tafseer-e-Mazhari - Maryam : 38
اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ١ۙ یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَسْمِعْ : سنیں گے بِهِمْ : کیا کچھ وَاَبْصِرْ : اور دیکھیں گے يَوْمَ : جس دن يَاْتُوْنَنَا : وہ ہمارے سامنے آئیں گے لٰكِنِ : لیکن الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) الْيَوْمَ : آج کے دن فِيْ : میں ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی
وہ جس دن ہمارے سامنے آئیں گے۔ کیسے سننے والے اور کیسے دیکھنے والے ہوں گے مگر ظالم آج صریح گمراہی میں ہیں
اسمع بہم وابصر یوم یاتوننا جس روز یہ لوگ ہمارے پاس (حساب و جزا کے لئے) آئیں گے ‘ کیسے کچھ شنوا اور بینا ہوں گے۔ اَسْمِعْ بِہِمْاور اَبْصَردونوں فعل تعجب ہیں اور اللہ ہر تعجب سے پاک ہے (وہ کسی بات پر تعجب نہیں کرتا اس لئے کوئی بات عجیب نہیں) اس لئے جمہور اہل تفسیر کے نزدیک آیت میں جس تعجب کا اظہار کیا گیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ ان کی حالت قابل تعجب ہوگی ‘ دنیا میں تو اندھے بہرے بنے رہے نہ حق کی بات سنی نہ صورت حق آنکھوں سے دیکھی اگر وہاں کلمۂ حق گوش قبول سے سنتے اور تصویر حق نظر قبول سے دیکھتے تو ان کو فائدہ ہوتا لیکن قیامت کے دن جب حق کی صورت سامنے آئی اور آواز حق سنی تو ایسے وقت کہ کوئی فائدہ نہ تھا ‘ یا فعل تعجب سے مراد اظہار تعجب نہیں بلکہ تہدید اور ڈرانا مقصود ہے کہ قیامت کے دین یقیناً وہ اس عذاب کو دیکھیں گے اور وہ مایوس انگیز جھڑکیاں سنیں گے جن کا ان سے وعدہ کرلیا گیا ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ اسمع و ابصر (اس جگہ) فعل تعجب نہیں ہیں امر کے صیغے ہیں رسول اللہ ﷺ سے خطاب ہے کہ مواعبد قیامت ان کافروں کو سناؤ اور دکھاؤ۔ لکن الظلمون الیوم فی ضلل مبین۔ لیکن یہ ظالم آج (دنیا میں) کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ لفظ الظالمون ذکر کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں انہوں نے اپنی آنکھوں اور کانوں کا صحیح استعمال نہیں کیا اور حق کی طرف سے اپنے کو غافل بنائے رکھا۔ یہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔
Top