Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 73
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِ١ۚ وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَۚۙ
وَجَعَلْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں بنایا اَئِمَّةً : (جمع) امام (پیشوا) يَّهْدُوْنَ : وہ ہدایت دیتے تھے بِاَمْرِنَا : ہمارے حکم سے وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فِعْلَ الْخَيْرٰتِ : نیک کام کرنا وَ : اور اِقَامَ : قائم کرنا الصَّلٰوةِ : نماز وَاِيْتَآءَ : اور ادا کرنا الزَّكٰوةِ : زکوۃ وَكَانُوْا : اور وہ تھے لَنَا : ہمارے ہی عٰبِدِيْنَ : عبادت کرنے والے
اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ اور ہم نے اُنہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰة دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ 66
سورة الْاَنْبِیَآء 66 حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کے اس اہم واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پاسکا ہے۔ نمرود سے ان کی مڈ بھیڑ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش، بت پرستی کے خلاف ان کی جد و جہد، آگ میں ڈالے جانے کا قصہ، اور بالآخر ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا، ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب " پیدائش " کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے، مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیم ؑ کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں، پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا (باب 11۔ آیات 27 تا 32)۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کر بس جا اور " میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا، سو تو باعث برکت ہو، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے " (باب 12۔ آیت 1۔ 3)۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہوگئی۔ تَلْمود میں البتہ سیرت ابراہیمی کے عراقی دور کی وہ بیشتر تفصیلات ملتی ہیں جو قرآن کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔ مگر دونوں کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ قصے کے اہم اجزاء میں بین تفاوت نظر آتا ہے، بلکہ ایک شخص صریح طور پر یہ محسوس کرسکتا ہے کہ تلمود کا بیان بکثرت بےجوڑ اور خلاف قیاس باتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس کے برعکس قرآن بالکل منقح صورت میں حضرت ابراہیم ؑ کے اہم واقعات زندگی کو پیش کرتا ہے جن میں کوئی لغو بات آنے نہیں پائی ہے، توضیح مدعا کے لیے ہم یہاں تلمود کی داستان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جائے جو قرآن کو بائیبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں۔ تلمود کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت دیکھ کر نمرود کو مشورہ دیا تھا کہ تارح کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے قتل کر دے۔ چناچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارح نے اپنے ایک غلام کا بچہ ان کے بدلے میں دے کر انہیں بچا لیا۔ اس کے بعد تارح نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں لے جا کر چھپا دیا جہاں 10 سال تک وہ رہے۔ گیا رھویں سال حضرت ابراہیم کو تارح نے حضرت نوح ؑ کے پاس پہنچا دیا اور 39 سال تک وہ حضرت نوح ؑ اور ان کے بیٹے سام کی تربیت میں رہے۔ اسی زمانے میں حضرت ابراہیم ؑ کی بھتیجی تھیں۔ نیز وہ دونوں کے درمیان عمر کا فرق بھی صرف 10 سال بتاتی ہے۔ پیدائش۔ باب 11۔ آیت 29۔ اور باب 17۔ آیت 17)۔ پھر تلمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم پچاس سال کی عمر میں حضرت نوح کا گھر چھوڑ کر اپنے باپ کے ہاں آگئے۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ باپ بت پرست ہے اور گھر میں سال کے بارہ مہینوں کے حساب سے 12 بت رکھے ہیں۔ انہوں نے پہلے تو باپ کو سمجھانے کی کوشش کی، اور جب اس کی سمجھ میں بات نہ آئی تو ایک روز موقع پاکر اس گھریلو بت خانے کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ تارح نے آ کر اپنے خداؤں کا یہ حال جو دیکھا تو سیدھا نمرود نے بلا کر حضرت ابراہیم سے باز پرس کی۔ انہوں نے سخت جوابات دیے۔ نمرود نے ان کو تو فوراً جیل بھیج دیا اور پھر معاملہ اپنی کونسل میں پیش کیا تاکہ صلاح مشورے سے اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے۔ کونسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے۔ چناچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کرایا گیا اور حضرت ابراہیم ؑ اس میں پھینک دیے گئے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ ان کے بھائی اور خسر، حاران کو بھی پھینکا گیا، کیونکہ نمرود نے تارح سے جب پوچھا کہ تیرے اس بیٹے کو تو میں پیدائش ہی کے روز قتل کرنا چاہتا تھا، تو نے اس وقت اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں اس کے بدلے قتل کرایا، تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے سے یہ حرکت کی تھی۔ اس لیے خود اس فعل کے مرتکب کو تو چھوڑ دیا گیا اور مشورہ دینے والے کو حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ آگ میں پھینکا گیا۔ آگ میں گرتے ہی حاران فوراً جل بھن کر کوئلہ ہوگیا مگر حضرت ابراہیم ؑ کو لوگوں نے دیکھا کہ اندر اطمینان سے ٹہل رہے ہیں، نمرود کو اس معاملے کی الطاع دی گئی۔ اس نے آکر جب خود اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھ لیا تو پکار کر کہا کہ " آسمانی خدا کے بندے، آگ سے نکل آ اور میرے سامنے کھڑا ہوجا "۔ حضرت ابراہیم باہر آگئے۔ نمرود ان کا معتقد ہوگیا اور اس نے بہت سے قیمتی نذرانے ان کو دے کر رخصت کردیا۔ اس کے بعد تلمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ دو سال تک وہاں رہے۔ پھر نمرود نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا اور اس کے نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ابراہیم تیری سلطنت کی تباہی کا موجب بنے گا، اسے قتل کرا دے۔ اس نے ان کے قتل کے لیے آدمی بھیجے، مگر حضرت ابراہیم ؑ کو خود نمرود ہی کے عطا کیے ہوئے ایک غلام، الیعزر نے قبل از وقت اس منصوبے کی اطلاع دے دی اور حضرت ابراہیم ؑ نے بھاگ کر حضرت نوح کے ہاں پناہ لی۔ وہاں تارح آکر ان سے خفیہ طور پر ملتا رہا اور آخر باپ بیٹوں کی یہ صلاح ہوئی کہ ملک چھوڑ دیا جائے۔ حضرت نوح اور سام نے بھی اس تجویز کو پسند کیا۔ چناچہ تارح اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط اور پوتی اور بہو سارا کو لے کر ار سے حارن چلا گیا۔ (منتخبات تلمود از ایچ پولونو، لندن۔ صفحہ 30 تا 42۔)۔ کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ یہ قرآن کا ماخذ ہو سکتی ہے ؟
Top