Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت وخون نہ کرنا اور اپنے کو ان کے وطن سے نہ نکالنا تو تم نے اقرار کر لیا، اور تم (اس بات کے) گواہ ہو
وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَاۗءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ( اور وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے اقرار لیا کہ آپس میں خونریزی نہ کرنا اور نہ اپنے شہروں سے اپنے لوگوں کو جلا وطن کرنا) لا تسفکون کی وہی تفسیر ہوگی جو لا تعبدون کی تھی جو شروع رکوع میں گزر چکی۔ اس کے لفظی معنی تو یہ ہیں کہ نہ تو اپنے خون بہائیں اور نہ اپنے شہروں سے اپنی جانوں کو نکالیں۔ مطلب یہ کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کریں اور ایک دوسرے کے قتل کرنے اور نکالنے کو اپنے قتل کرنے اور نکالنے سے اس لیے تعبیر کیا کہ بنی اسرائیل سب آپس میں باعتبار نسب اور دین کے ایک تھے۔ نیز محاورہ بھی اسی طرح ہے۔ بعض مفسرین نے کہا مطلب یہ ہے ایسے کام نہ کرو جو تمہارے خون بہانے اور جلا وطن کرنے کو مباح کردیں۔ بعض نے فرمایا : لا تخرجوا۔۔ کے یہ معنی کہ تم اپنے ہمسایوں سے برا برتاؤ نہ کرو جس سے نا چار ہو کر وہ نکل جائیں۔ ثُمَّ اَقْــرَرْتُمْ (پھر تم نے ( اس عہد کا) اقرار کیا۔ وَاَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ ( اور تم گواہ ہو) یا تو یہ معنی کہ تم اس بات کے گواہ ہو کہ یہ عہد ہوا تھا اس تقدیر پر و انتم تشہدون ما قبل کی تاکید ہوگی یا یہ مطلب کہ اے موجودہ بنی اسرائیل کے گروہ تم گواہ ہو کہ تمہارے بزرگوں نے ایسا اقرار کیا تھا۔ اس صورت میں ثم اقررتم میں اقرار کی اسناد موجودین کی طرف مجازاً ہوگی۔
Top