Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 41
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَآءً١ۚ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
فَاَخَذَتْهُمُ : پس انہیں آپکڑا الصَّيْحَةُ : چنگھاڑ بِالْحَقِّ : (وعدہ) حق کے مطابق فَجَعَلْنٰهُمْ : سو ہم نے انہیں کردیا غُثَآءً : خس و خاشاک فَبُعْدًا : دوری (مار) لِّلْقَوْمِ : قوم کے لیے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
تو ان کو (وعدہٴ برحق کے مطابق) زور کی آواز نے آپکڑا، تو ہم نے ان کو کوڑا کرڈالا۔ پس ظالم لوگوں پر لعنت ہے
فاخذتہم الصیحۃ بالحق فجلعنہم غثآء چناچہ ان کو ایک سخت چیخ (یعنی عذاب) نے موافق (وعدۂ ) حق کے آپکڑا اور پھر ہم نے خس و خاشاک ( کی طرح پامال) کردیا۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ صیحۃ سے مراد ہے ہلاکت۔ قاموس میں ہے صیحۃ اور صیاح سخت چیخ۔ صِیْحَ بِہِمْان کو گھبرا دیا گیا۔ صِیْحَ فِیْہِمْوہ ہلاک ہوگئے اور صیحۃ عذاب کو بھی کہتے ہیں۔ اگر قَرْنًا اٰخَرِیْنَسے قوم عاد مراد ہو تو صیحۃ سے مراد ہوگا عذاب اور اگر یہ قصہ ثمود کا ہے تو صیحۃ سے مراد ہوگی چیخ۔ سورة اعراف کی تفسیر میں ہم نے بیان کردیا ہے کہ آسمان سے ایک چیخ سنائی دی اور ہر چیز سے ایک چیخ نکلی اور بادل کا کڑکا بھی ہوا جس سے سب کے دل پھٹ گئے (قوم عاد پر چیخ کا عذاب نہیں آیا تھا بلکہ طوفان ہوائی آیا تھا جس کے جھکڑ سات دن تک مسلسل جاری رہے اور سب ہلاک ہوگئے اس لئے اگر آیت مذکورہ میں عاد کا قصہ بیان کیا گیا ہے تو صیحۃ سے مراد چیخ نہ ہوگی عذاب مراد ہوگا) ۔ ” ہم نے ان کو خس و خاشاک بنا دیا۔ “ یعنی ہلاک کردیا جیسے سیلاب کے اوپر کوڑا کرکٹ بہ کر آجاتا ہے۔ ہم نے اس کوڑے کی طرح ان کو کردیا۔ جو شخص ہلاک ہوجائے ‘ عرب اس کے متعلق کہتے ہیں سال بہ الوادی۔ نالہ کا سیلاب اس کو بہا لے گیا۔ فبعدا للقوم الظلمین۔ سو خدا کی مار کافر لوگوں پر۔ بَعُدَوہ ہلاک ہوگیا۔ بُعْدًامصدر ہے۔ جملہ یا خبریہ ہے ‘ ہلاکت ہوگئی ان کافروں کی۔ یا انشائیہ دعائیہ۔ ہلاکت ہو ان کافروں کی۔ لِلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَقائم مقام فاعل کے ہے اور بعدًا مصدر ہے۔ فعل کے قائم مقام اور لام زائد ہے یا مصدری معنی کو قوت پہنچانے کے لئے لایا گیا ہے۔
Top