Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 2
اِ۟لَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا
الَّذِيْ لَهٗ : وہ جس کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَمْ يَتَّخِذْ : اور اس نے نہیں بنایا وَلَدًا : کوئی بیٹا وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهُ : اس کا شَرِيْكٌ : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کیا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے فَقَدَّرَهٗ : پھر اس کا اندازہ ٹھہرایا تَقْدِيْرًا : ایک اندازہ
وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا
الذی لہ ملک السموت والارض وہ اللہ کہ اسی کا اقتدار آسمانوں اور زمین میں ہے۔ ولم یتخذ ولدا اور اس نے (اپنے لئے) کوئی بیٹا نہیں اختیار کیا (جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے کہ مسیح ( علیہ السلام) خدا کا بیٹا تھا) ۔ ولم یکن لہ شریک فی الملک اور نہ حکومت میں کوئی اس کا ساجھی ہے۔ جیسا کہ مجوسی اور ثنویہ فرقہ والے کہتے ہیں (مجوسی اور ثنویہ فرقہ والے دو خالق مانتے ہیں۔ ایک خیر اور بھلائی کا خالق ‘ دوسرا شر اور برائی کا خالق۔ مجوسی اوّل خالق کو یزداں اور دوسرے کو اہرمن کہتے ہیں) ۔ اس آیت میں اللہ نے اپنے لئے اقتدار ‘ مطلق ہونے کا اظہار فرمایا اور اس کی دلیل پر آئندہ آیت میں تنبیہ فرمائی۔ وخلق کل شی اور اسی نے ہر چیز پیدا کی۔ یعنی ایک خاص اندازے کے ماتحت ہر چیز کو نیستی سے ہستی میں لایا۔ مثلاً انسان کو خاص مادہ سے مخصوص معین شکل دے کر پیدا کیا۔ فقدرہ تقدیرا۔ پھر سب کا الگ الگ اندازہ رکھا۔ یعنی اس کو ٹھیک بنایا ‘ جو خواص و افعال اس میں پیدا کرنا مقصود تھا اس کے مطابق اس چیز میں تخلیقی صلاحیت پیدا کردی۔ جیسے انسان میں فہم ‘ ادراک ‘ غور و فکر ‘ تدبیر ‘ نوع در نوع صنعتوں کے اختراع اور گونا گوں افعال و اعمال پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کردی۔ یا یہ مطلب ہے کہ معین و مقرر وقت تک باقی رکھنا اس کے لئے مقدر کردیا۔ کبھی لفظ خلق کے مفہوم اشتقاقی سے قطع نظر کر کے صرف ایجاد کے معنی میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے ‘ اس وقت یہ مطلب ہوگا کہ اللہ ہر چیز کو عدم سے وجود میں لایا پھر اس کی ایجاد میں ایک قدر خاص کا لحاظ رکھا تاکہ تفاوت نہ ہونے پائے۔ بعض علماء نے قَدّرَ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اللہ نے ہر چیز کے لئے مدت زندگی ‘ عمل اور رزق پہلے سے ہی مقدر کردیا۔ اب (اس دنیا میں آ کر) یہ تینوں چیزیں تخلیق کے مطابق ہوتی ہیں۔ (اللہ کے اندازۂ تخلیقی کے خلاف نہیں ہوسکتیں) ۔ چونکہ توحید و نبوت کے اثبات کا مفہوم (زیر ذکر) کلام کے اندر تھا ‘ اس لئے جو لوگ ان دونوں کے منکر تھے ان کے عقائد و اقوال کی ذیل کی آیت میں تردید فرمایا (اوّل) باطل معبودوں کا نقص ظاہر فرمایا (پھر نبوت پر ان کو جو بےہودہ اعتراض اور شبہ تھا اس کا ازالہ کیا) ۔
Top