Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 21
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاۡاَذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
لَاُعَذِّبَنَّهٗ : البتہ میں ضرور اسے سزا دوں گا عَذَابًا : سزا شَدِيْدًا : سخت اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ : یا اسے ذبح کر ڈالوں گا اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ : یا اسے ضرور لانی چاہیے بِسُلْطٰنٍ : سند (کوئی وجہ) مُّبِيْنٍ : واضح (معقول)
میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کر ڈالوں گا یا میرے سامنے (اپنی بےقصوری کی) دلیل صریح پیش کرے
لا عذبنہ عذابا شدید اولاد اذبحنہ اولیاتینی بسلطن مبین . میں اس کو سخت عذاب (کی سزا) دوں گا یا اس کو ذبح کر ڈالوں گا یا وہ (اپنی غیرحاضری کی) کوئی واضح وجہ پیش کرے گا۔ لَاُعَذِّبَنَّہٗ شَدِیْدًا یعنی میں اس کو سخت عذاب دوں گا تاکہ دوسرے ہدہدوں کو عبرت ہو۔ عذاب شدید دینے سے کیا مراد تھی ‘ اس کے تعین کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے کہا : مراد یہ تھی کہ میں اس کے سارے پر و بال اور دم نوچ کر لوتھڑا بنا کر دھوپ میں ڈالو دوں گا کہ کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں اس کو کھا لیں۔ مقاتل نے کہا : میں لوتھڑا بنا کر تارکول ملوا کر دھوپ میں پھنکوا دوں گا۔ بعض نے کہا : پنجرہ میں بند کردینا مراد تھا۔ کسی نے کہا : مادہ سے ہمیشہ کے لئے جدا کرنا مقصد تھا یا یہ مطلب تھا کہ میں اس کے مخالف کے ساتھ اس کو قید کر دوں گا۔ یا یہ معنی تھا کہ میں اس کو ساتھیوں کا خدمت گار بنا دوں گا کہ وہ اپنے ساتھ والوں کی خدمت کرتا رہے۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے لئے (ہدہد کو) عذاب دینا جائز تھا۔ اَوْلَیَاتِیَنِّیْ میں اَوْ بمعنی الاَّ کے بھی ہوسکتا ہے مگر یہ کہ وہ غیرحاضری کی کوئی کھلی ہوئی وجہ بیان کرے (تو سزا نہیں دوں گا) عرب کہتے ہیں : لَاَلْزِمَنَّکَ اَوْتُعْطِیَنِیْ حَقِّیْ میں تیرا پیچھا نہیں چھوڑوں گا مگر یہ کہ تو مجھے میرا حق ادا کر دے۔
Top