Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 21
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاۡاَذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
لَاُعَذِّبَنَّهٗ : البتہ میں ضرور اسے سزا دوں گا عَذَابًا : سزا شَدِيْدًا : سخت اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ : یا اسے ذبح کر ڈالوں گا اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ : یا اسے ضرور لانی چاہیے بِسُلْطٰنٍ : سند (کوئی وجہ) مُّبِيْنٍ : واضح (معقول)
میں اسے سخت سزا دوں گا، یا ذبح کر دوں گا، ورنہ اسے میرے سامنے معقول وجہ پیش کرنی ہوگی۔28
سورة النمل 28 موجودہ زمانے کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہدہد سے مراد وہ پرندہ نہیں ہے جو عربی اور اردو زبان میں اس نام سے معروف ہے بلکہ یہ ایک آدمی کا نام ہے جو حضرت سلیمان کی فوج میں ایک افسر تھا، اس دعوے کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں کہیں ہدہد نام کا کوئی شخص ان حضرات کو سلیمان ؑ کی حکومت کے افسروں کی فہرست میں مل گیا ہے، بلکہ یہ عمارت صرف اس استدلال پر کھڑی کی گئی ہے کہ جانوروں کے ناموں پر انسانوں کے نام رکھنے کا رواج تمام زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی پایا جاتا ہے اور عبرانی میں بھی تھا، نیز یہ کہ آگے اس ہدہد کا جو جام بیان کیا گیا ہے اور حضرت سلیمان سے اس کی گفتگو کا جو ذکر ہے وہ ان کے نزدیک صرف ایک انسان ہی کرسکتا ہے، لیکن قرآن مجید کے سیاق کلام کو آدمی دیکھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی تفسیر نہیں بلکہ اس کی تحریف اور اس سے بھی کچھ بڑھ کر اس کی تغلیط ہے۔ آخر قرآن کو انسان کی عقل و خرد سے کیا دشمنی ہے کہ وہ کہنا تو یہ چاہتا ہو کہ حضرت سلیمان کے رسالے یا پلٹن یا محکمہ خبر رسانی کا ایک آدمی تھا جسے انہوں نے تلاش کیا اور اس نے حاضر ہو کر یہ خبر دی اور اسے حضرت موصوف نے اس خدمت پر بھیجا، لیکن اسے وہ مسلسل ایسی چیتان کی زبان میں بیان کرے کہ پڑھنے والا اول سے لیکر آخر تک اسے پرندہ ہی سمجھنے پر مجبور ہو، اس سلسلہ میں ذرا قرآن مجید کے بیان کی ترتیب ملاحظہ فرمایئے۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان نے اللہ کے اس فضل پر اظہار امتنان کیا کہ " ہمیں منطق الطیر کا علم دیا گیا ہے " اس فقرے میں اول تو طیر کا لفظ مطلق ہے جسے ہر عرب اور عربی دان پرندے ہی کے معنی میں لے گا، کیونکہ کوئی قرینہ اس کے استعارہ و مجاز ہونے پر دلالت نہیں کر رہا ہے۔ دوسرے اگر طیر سے مراد پرند نہیں بلکہ انسانوں کا کوئی گروہ ہو تو اس کے لیے منطق (بولی) کے بجائے لغت یا لسان (یعنی زبان) کا لفظ زیادہ صحیح ہوتا، اور پھر کسی شخص کا کسی دوسرے انسانی گروہ کی زبان جاننا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے کہ وہ خاص طور پر اس کا ذکر کرے۔ آج ہمارے درمیان ہزارہا آدمی بہت سی غیر زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں، یہ آخر کونسا بڑا کمال ہے جسے اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی عطیہ قرار دیا جاسکے۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ " سلیمان کے لیے جن اور انس اور طیر کے لشکر جمع کیے گئے تھے "۔ اس فقرے میں اول تو جن اور انس اور طیر، تین معروف اسمائے جنس استعمال ہوئے ہیں جو تین مختلف اور معلوم اجناس کے لیے عربی زبان میں مستعمل ہیں، پھر انہیں مطلق استعمال کیا گیا ہے اور کوئی قرینہ ان میں سے کسی کے استعارہ و مجاز یا تشبیہ ہونے کا موجود نہیں آیا ہے جو یہ معنی لینے میں صریحا مانع ہے کہ جن اور طیر دراصل انس ہی کی جنس کے دو گروہ تھے، یہ معنی مراد ہوتے تو الجن والطیر من الانس کہا جاتا نہ کہ من الجن والانس والطیر۔ آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان طیر کا جائزہ لے رہے تھے اور ہدہد کو غائب دیکھ کر انہوں نے یہ بات فرمائی۔ اگر یہ طیر انسان تھے اور ہدہد بھی کسی آدمی کا نام ہی تھا تو کم از کم کوئی لفظ تو ایسا کہہ دیا جاتا کہ بےچارہ پڑھنے والا اس کو جانور نہ سمجھ بیٹھتا۔ گروہ کا نام پرندہ اور اس کے ایک فرد کا نام ہدہد پھر بھی ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم آپ سے آپ اسے انسان سمجھ لیں گے۔ پھر حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ ہدہد یا تو اپنے غائب ہونے کی کوئی معقول وجہ بیان کرے ورنہ میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کردوں گا، انسان کو قتل کیا جاتا ہے، پھانسی دی جاتی ہے، سزائے موت دی جاتی ہے، ذبح کون کرتا ہے ؟ کوئی بڑا ہی سنگدل اور بےدرد آدمی جوش انتقام میں اندھا ہوچکا ہو تو شاید کسی آدمی کو ذبح بھی کردے، مگر کیا پیغمبر سے ہم یہ توقع کریں کہ وہ اپنی فوج کے ایک آدمی کو محض غیر حاضر (Deserter) ہونے کے جرم میں ذبح کردینے کا اعلان کرے گا، اور اللہ میاں سے یہ حسن ظن رکھیں کہ وہ ایسی سنگین بات کا ذکر کر کے اس پر مذمت کا ایک لفظ بھی نہ فرمائیں گے ؟ کچھ دور آگے چل کر ابھی آپ دیکھیں گے کہ حضرت سلیمان اسی ہدہد کو ملکہ سبا کے نام خط دے کر بھیجتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اسے ان کی طرف ڈال دے یا پھینک دے، (القہ الیھم) ظاہر ہے کہ یہ ہدایت پرندے کو تو دی جاسکتی ہے لیکن کسی آدمی کو سفیر یا ایلچی کا قاصد بنا کر بھیجنے کی صورت میں یہ انتہائی غیر موزوں ہے، کسی کی عقل ہی خبط ہوگئی ہو تو وہ مان لے گا کہ ایک ملک کا بادشاہ دوسرے ملک کی ملکہ کے نام خط دے کر اپنے سفیر کو اس ہدایت کے ساتھ بھیج سکتا ہے کہ اسے لے جاکر اس کے آگے ڈال دے یا اس کی طرف پھینک دے، کیا تہذیب و شائستگی کے اس ابتدائی مرتبے سے بھی حضرت سلیمان کو گرا ہوا فرض کرلیا جائے جس کا لحاظ ہم جیسے معمولی لوگ بھی اپنے کسی ہمسائے کے پاس اپنے ملازم کو بھیجتے ہوئے ملحوظ رکھتے ہیں ؟ کیا کوئی شریف آدمی اپنے ملازم سے یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا یہ خط لے جاکر فلاں صاحب کے آگے پھینک آ ؟ یہ تمام قرائن صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں ہدہد کا مفہوم وہی ہے جو ازروئے لغت اس لفظ کا مفہوم ہے، یعنی یہ کہ وہ انسان نہیں بلکہ ایک پرندہ تھا، اب اگر کوئی شخص یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ایک ہدہد باتیں کرسکتا ہے جو قرآن اس کی طرف منسوب کررہا ہے تو اسے صاف صاف کہنا چاہیے کہ میں قرآن کی اس بات کو نہیں مانتا، اپنے عدم ایمان کو اس پردے میں چھپانا کہ قرآن کے صاف اور صریح الفاظ میں اپنے من مانے معنی بھرے جائیں، گھٹیا درجے کی منافقت ہے۔
Top