Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 93
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِیْلُ عَلٰى نَفْسِهٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ١ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
كُلُّ : تمام الطَّعَامِ : کھانے كَانَ : تھے حِلًّا : حلال لِّبَنِىْٓ اِ سْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل کے لیے اِلَّا : مگر مَا حَرَّمَ : جو حرام کرلیا اِسْرَآءِيْلُ : اسرائیل (یعقوب) عَلٰي : پر نَفْسِھٖ : اپنی جان مِنْ : سے قَبْلِ : قبل اَنْ : کہ تُنَزَّلَ : نازل کی جائے (اترے) التَّوْرٰىةُ : توریت قُلْ : آپ کہ دیں فَاْتُوْا : سو تم لاؤ بِالتَّوْرٰىةِ : توریت فَاتْلُوْھَآ : پھر پڑھو اس کو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
بنی اسرائیل کے لیے (تورات کے نازل ہونے سے) پہلے کھانے کی تمام چیزیں حلال تھیں بجز ان کے جو یعقوب نے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تورات لاؤ اور اسے پڑھو (یعنی دلیل پیش کرو)
و ما تنفقوا من شی فان اللہ بہ علیم تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے خواہ وہ محبوب و مرغوب ہو یا غیر محبوب اللہ اس سے یقینی طور پر بخوبی واقف ہے یعنی عمل اور نیت کے مطابق جزا دے گا علم سبب ہے اور جزا وثواب اس کا نتیجہ سبب کو بجائے نتیجہ کے ذکر کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ کریم کا اپنے بندہ کی نیکی کو جاننا ہی ثواب و جزاء کے لیے کافی ہے پھر ماضی (انفقتم) کی جگہ مستقبل کا صیغہ (تنفقوا) ذکر کرنے سے یہ معلوم ہوگیا کہ انفاق (راہ خدا میں صرف) سے اللہ واقف ہے خواہ تھوڑا انفاق ہو یا زیادہ اور خواہ (ماضی میں ہوگیا ہو یا حال میں ہو رہا ہو یا) آئندہ ہونے والا ہو۔ اس سے اشارۃً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اللہ کے علم کے لیے علی الاعلان انفاق ضروری نہیں (چھپ کر بھی اگر خیرات کی جائے تو اللہ اس سے واقف ہوتا ہے بلکہ) پوشیدہ خیرات کرنے کی اس سے ترغیب مستفاد ہو رہی ہے۔ (آئندہ آیت کے شان نزول کے سلسلے میں) بغوی نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ آپ کو ملت ابرہیمی پر ہونے کا تو دعویٰ ہے مگر آپ اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں باوجود یکہ ابراہیم نہ اونٹ کا گوشت کھاتے تھے نہ انکا دودھ پیتے تھے رسول اللہ نے فرمایا : ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے تو یہ چیزیں حلال تھیں کہنے لگے ہم آج جن چیزوں کو حرام کہتے ہیں یہ نوح کے لیے بھی حرام تھی اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بھی اسی زمانہ سے آج تک ان کی حرمت چلی آئی ہے۔ اس قول کی وجہ یہ تھی کہ یہودی نسخ احکام کے قائل نہیں تھے۔ یہودیوں کی تکذیب کے لیے اللہ نے مندرجہ ذیل آیت نازل فرمائی۔ کل الطعام کان حلا لبنی اسرائیل طعام مصدر ہے غذا کھانا۔ یہاں مفعول کے معنی مراد ہیں یعنی غذا۔ الف لام عہدی ہے یعنی وہ پاکیزہ غذائیں جو (توریت سے پہلے) حلال تھیں لیکن یہودیوں کی حرکات بےجا کی وجہ سے توریت میں ان کو حرام کردیا گیا چونکہ الطعام میں معہود طعام مراد ہے اس لیے یہ لفظ مردار، خون، گوشت، خنزیر اور دوسرے درندوں کے گوشت کو شامل ہی نہیں ہے۔ حلٌّ اصل میں مصدر ہے لیکن اس سے مراد صیعہ صفت ہے مذکر مونث، جمع، واحد سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ایک اور آیت میں آیا ہے۔ لَا ھُنَّ حِلٌّ لَّھُم وہ عورتیں ان مردوں کے لیے حلال نہیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تورات میں جو کھانے حرام کردیئے گئے ہیں وہ پہلے اولادِیعقوب اور یعقوب کے باپ، دادا اسحاق و ابراہیم کے لیے حلال تھے۔ الا ما حرم اسرائیل علی نفسہ سوائے اس قسم کے کھانے کے جو یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے لیے خود حرام کرلیے تھے یعنی اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ۔ بات یہ ہوئی کہ اونٹ کا گوشت اور دودھ حضرت یعقوب کی مرغوب ترین غذا تھی لیکن آپ کو عرق النساء (ایڑی کا درد ‘ 12) کی بیماری تھی اس لیے آپ نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ آپ کی بیماری دور کردے گا تو آپ اس محبوب غذا کو کبھی نہیں کھائیں گے۔ احمد اور حاکم وغیرہ نے یہ حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بسند صحیح بیان کی ہے اور بغوی نے ابو العالیہ، عطاء، مقاتل اور کلبی کی روایت سے اس کو لکھا ہے لیکن جویبر کی روایت سے حضرت ابن عباس کا قول اس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت یعقوب عرق النساء میں مبتلا تھے طبیبوں نے تجویز کی کہ آپ اونٹ کے گوشت سے پرہیز رکھیں اس لیے آپ نے اونٹ کا گوشت اپنے لیے ممنوع قرار دے لیا۔ یہ بھی بغوی نے لکھا ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ حضرت یعقوب نے اونٹ کا گوشت خدا پرستی کے جذبہ کے تحت اپنے لیے حرام کرلیا تھا اور اللہ سے دعا کی تھی کہ اللہ اس حرمت کو نافذ فرما دے حسب دعا اللہ نے آپ کی اولاد کے لیے اونٹ کا گوشت حرام کردیا۔ عطیہ کا بیان ہے کہ اولاد اسرائیل کے لیے اللہ کی طرف سے اونٹ کے گوشت کی حرمت نہیں ہوئی بلکہ حضرت یعقوب نے اپنی اولاد کے لیے خود حرام کر رکھا تھا کیونکہ (بطور منت) کہا تھا کہ اگر اللہ مجھے شفا عطا فرما دے گا تو میری اولاد اونٹ کا گوشت نہیں کھائے گی۔ من قبل ان تنزل التوراۃ تورات نازل کئے جانے سے پہلے۔ اس فقرہ کا تعلق حرَّم اسرائیل سے تو یقیناً نہیں ہے کیونکہ حضرت اسرائیل کا بعض اشیاء کو اپنے لیے حرام کرلینا یقیناً نزول تورات سے پہلے ہی تھا (اس میں شبہ کی گنجائش نہیں ہے) پھر اس فقرہ کو ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور کان حلاًّ سے بھی اس کا تعلق نہیں ہے ورنہ اِلَّا مَا حَرَّمَ اسرائیل کو درمیان میں لانا خلاف ضابطہ ہے جب تک پوری صفت ذکر نہ کردی جائے۔ حصر صفت کا معنی کیا ہوسکتا ہے لا محالہ اس کا تعلق فعل محذوف سے ہے۔ کلام کا مطلب اس طرح ہوگا کہ نزول تورات سے پہلے تمام پاکیزہ چیزیں بنی اسرائیل کے لیے حلال تھیں مگر یہودیوں کی بیجا حرکتوں کی وجہ سے نزول توریت کے بعد بعض چیزیں حرام کردی گئیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : فبظلم من الذین ھادوا حرّمنا علیہم طیبات احلت لھم دوسری آیت ہے : و علی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفرو من البقر والغنم حرمنا علیہم شحومھما الا ما حملت ظہورھما اولحوایا او ما اختلط بعظم ذٰلک جزاینٰم ینٰھَم . کلبی کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل نے جب بھی (بحیثیت اجتماع) کسی بڑے گناہ کا ارتکاب کیا اللہ نے (سزا میں) ان کے لیے یا کسی پاکیزہ حلال غذا کو حرام کردیا یا ہلاکت کی بارش کردی۔ ضحاک نے کہا بنی اسرائیل کے لیے کوئی غذا حرام نہیں تھی نہ توریت میں اللہ نے حرام قرار دی تھی بلکہ اپنے باپ (حضرت اسرائیل) کے اتباع میں انہوں نے خود اپنے لیے (بعض چیزوں کو) حرام کرلیا اور حکم حرمت کی نسبت اللہ کی طرف کردیا مگر اللہ نے ان کے جھوٹ کو ظاہر کردیا مگر ضحاک کا یہ قول غلط ہے کیونکہ اللہ نے خود فرمایا ہے : حرمنا علیہم طیبات احلت لھم دوسری جگہ فرمایا : حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُوْمَھَمَا صحیح بخاری و مسلم میں ایک حدیث آئی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا : یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو چربیاں ان پر حرام کردی گئیں تو انہوں نے ان کو پگھلا کر فروخت کیا اور قیمت کھائی (گویا چربی نہ کھائی چربی بیچ کر قیمت کھائی) ۔ قل فاتوا بالتوراۃ فاتلوھا ان کنتم صادقین آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو تورات لاؤ اور پڑھو (تمہارا جھوٹ خود تورات سے ظاہر ہوجائے گا) تورات میں مذکور ہے کہ جو چیزیں یہودیوں کے لیے نزول توریت سے پہلے حرام نہ تھیں ان کی بیجا حرکات کی وجہ سے توریت میں حرام کردی گئیں اللہ نے یہودیوں کو لا جواب بنانے کے لیے رسول اللہ کو حکم دیا کہ یہودیوں سے کہو کہ توریت لا کر پڑھو یہودی توریت نہیں لائے اور لا جواب ہوگئے۔ اس آیت میں رسول اللہ کی نبوت اور آپ ﷺ کے ملت ابراہیمی پر ہونے کا ثبوت ہے اور نسخ احکام کی ممانعت کے جو یہودی قائل تھے ان کے قول کی تردید بھی ہے۔
Top