Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 50
اُنْظُرْ كَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ كَفٰى بِهٖۤ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسا يَفْتَرُوْنَ : باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹ وَكَفٰى : اور کافی ہے بِهٖٓ : یہی اِثْمًا : گناہ مُّبِيْنًا : صریح
دیکھو یہ خدا پر کیسا جھوٹ (طوفان) باندھتے ہیں اور یہی گناہ صریح کافی ہے
انظر کیف یفترون علی اللہ الکذب .(اے محمد ﷺ دیکھو (یہودی) اللہ پر کیسی دروغ بندی کرتے ہیں کہ اپنے کو اللہ کا بیٹا اور چہیتا قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے دن کے گناہ رات کو اور رات کے گناہ دن کو معاف کردیئے جاتے ہیں۔ وکفی بہ اثما مبینا . اور یہ افتراء بس گناہ کی انتہا ہے جس کا غلط ہونا ظاہر ہے اس کو غلط قرار دینے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہے اس کا گناہ ہونا بالکل بدیہی ہے کفی سے پہلے قدمحذوف ہے اور پورا جملہ یفترونکے فاعل سے حال ہے۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ واقعۂ احد کے بعد کعب بن اشرف ستر یہودیوں کو لے کر قریش کے پاس مکہ کو گیا تاکہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف قریش سے امداد و حمایت کا عہد و پیمان کرے اور جو معاہدہ رسول اللہ ﷺ سے یہودیوں نے کر رکھا تھا اس کو توڑ دے مکہ پہنچ کر کعب ابوسفیان کے پاس جا کر ٹھہرا اور دوسرے یہودی قریش کے مختلف اشخاص کے پاس اترے ‘ اہل مکہ نے کہا محمد ﷺ بھی اہل کتاب ہیں اور تم بھی اہل کتاب ہو ہم کو اعتبار نہیں اندیشہ یہ ہے کہ کہیں یہ تمہاری چال نہ ہو۔ اگر تم ہم کو اپنے ساتھ ملا کر جنگ کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں بتوں کو سجدہ کرو ان کو مانو۔ کعب نے سجدہ کرلیا۔ پھر بولا تدبیر یہ ہے کہ تیس آدمی ہمارے اور تیس آدمی تمہارے کعبہ سے چمٹ کر معاہدہ کرلیں کہ محمد ﷺ کے خلاف جنگ کرنے کی ہم مل کر کوشش کریں گے اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top