Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 18
اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ وَ هُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ
اَوَمَنْ : کیا بھلا جو يُّنَشَّؤُا : پالا جاتا ہے فِي : میں الْحِلْيَةِ : زیورات (میں) وَهُوَ فِي الْخِصَامِ : اور وہ جھگڑے میں غَيْرُ مُبِيْنٍ : غیر واضح ہو
کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات نہ کرسکے (خدا کی) بیٹی ہوسکتی ہے؟
او من ینشؤ فی الحیلۃ وھو فی الخصام غیر مبین کیا جو (عادۃً ) آرائش میں نشو و نما پائے اور مباحثہ میں قوت بیانہ بھی نہ رکھے (اس کو خدا کی اولاد قرار دینا درست ہوسکتا ہے ؟ ) یُنَشَّؤُ (باب تفعیل) یعنی پرورش پاتا ہے ‘ اس سے عورتیں مراد ہیں۔ حسن صورت ‘ عورت کا طرۂ امتیاز ہے ‘ اسی لئے عورت زیور کی ضرورت مند ہے تاکہ اس کے حسن ظاہری میں اضافہ ہو۔ مردوں کا امتیاز اوصاف باطنی اور کمالات ذاتی پر موقوف ہے اور یہ زیور سے حاصل نہیں ہوتا ‘ اسلئے مردوں کو زیور کی ضرورت نہیں۔ آیت میں درپردہ ایماء ہے اس طرف کہ ظاہری ٹیپ ٹاپ اور زیور سے آراستگی عیب ہے ‘ مردوں کو اس سے پرہیز رکھنا چاہئے اور لباس تقویٰ سے آراستہ ہونا چاہئے۔ الْخِصَام مقابلہ خواہ زبان سے ہو یا اسلحہ سے ‘ عورت بہرحال دونوں میں کمزور ہے۔ اس کی سمجھ ناقص ‘ بدنی طاقت کمزور اور دل ضعیف ہے۔ قتادہ نے کہا : عورت جب اپنے مدعیٰ کو ثابت کرنے کیلئے کوئی دلیل بیان کرتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ دلیل اسکے مدعیٰ کے خلاف پڑتی ہے۔ اَوَمَنْ میں ہمزہ انکار کو پختہ کرنے ‘ زجر کرنے اور تعجب کو ظاہر کرنے کیلئے ہے اور معطوف کو معطوف علیہ سے مغایرت صفاتی ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے لڑکیوں کو اپنی اولاد بنایا ہے ‘ جو ان لوگوں کیلئے قابل نفرت ہیں اور جن کی پیدائش کی خبر سن کر ان کے چہرے کالے پڑجاتے ہیں اور جو زیور اور سجاوٹ میں پرورش پاتی ہیں ‘ جن کے دل کمزور اور بدنی ساخت ضعیف اور سمجھ بوجھ ناقص ہوتی ہے۔
Top