Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 73
لَكُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ كَثِیْرَةٌ مِّنْهَا تَاْكُلُوْنَ
لَكُمْ فِيْهَا : تمہارے لیے اس میں فَاكِهَةٌ كَثِيْرَةٌ : پھل ہوں گے بہت سے مِّنْهَا : ان میں سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاؤ گے
وہاں تمہارے لئے بہت سے میوے ہیں جن کو تم کھاؤ گے
لکم فیھا فاکھۃ کثیرۃ منھا تاکلون اور تمہارے لئے اس میں بہت سے میوے ہیں جن میں سے تم کھا رہے ہو۔ یُطَافُ عَلَیْھِمْ یعنی غلمان جو ہمیشہ ہی امرد رہیں گے ‘ اہل جنت کیلئے بڑے بڑے پیالوں اور کو زوں کا دور کریں گے۔ صِحَاف۔ صحفۃ کی جمع ہے ‘ صحفۃ بڑے پیالے کو کہتے ہیں۔ اکواب ‘ اکوب کی جمع ہے ‘ کو ب کوزہ یعنی ایسا گول برتن جس کا گلاس بھی مدور ہو اور قبضہ نہ ہو۔ یعنی ہر شخص کو جنت میں وہ چیز ملے گی جس کا وہ خواستگار ہوگا۔ صوفی طلبگار ہے ‘ ایسے وصل کا جس کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی اور ایسے دیدار کا جو کبھی غائب نہ ہو ‘ چناچہ یہ نعمت حاصل ہوگی۔ صوفیہ کے علاوہ دوسرے لوگ جو جنت کی نعمتوں کے خواستگار ہوں گے ‘ ان کو وہ نعمتیں ملیں گی۔ بغوی نے حضرت عبدالرحمن بن سابط کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے گھوڑے بہت پسند ہیں ‘ کیا جنت میں گھوڑے ملیں گے ؟ فرمایا : اگر اللہ تم کو جنت میں داخل کر دے ‘ پھر تم چاہو کہ سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار ہو کر اڑ کر جنت کے اندر جہاں جانا چاہو ‘ پہنچ جاؤ تو ایسا کرسکو گے۔ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں اونٹ کو پسند کرتا ہوں ‘ کیا جنت میں اونٹ ملیں گے ؟ فرمایا : اے اعرابی ! اگر اللہ تجھے جنت میں داخل کر دے تو تجھے وہاں ہر وہ چیز ملے گی جس کو تیرا دل چاہے گا اور آنکھوں کو جس سے فرحت حاصل ہوگی۔ ترمذی اور بیہقی نے حضرت ابو بردہ کی روایت سے بھی اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے۔ طبرانی اور بیہقی نے صحیح سند سے حضرت عبدالرحمن بن ساعدہ کی وساطت سے اور ترمذی نے حضرت ابو ایوب کے حوالہ سے یہ حدیث نقل کی ہے ‘ لیکن اس روایت میں صرف گھوڑوں کا (سوال میں) تذکرہ ہے (اونٹوں کا نہیں ہے) ۔ وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلْآ اَنْ ھَدَانَا اللہ ُ ۔ یہ بھی حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر شخص کا ایک گھر جنت میں اور ایک گھر دوزخ میں ہے۔ کافر کے جنت والے مکان کا مؤمن وارث ہوگا۔ یہی مطلب ہے (آیت) وَتَِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْٓ اُوْرِشْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ کا۔ لَکُمْ فِیْھَا فَاکِھَۃٌ کَثِیْرَۃٌ بزار اور طبرانی نے بیان کیا کہ حضرت ثوبان نے فرمایا : میں نے خود حضور اقدس ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جنتی جس پھل کو توڑے گا ‘ اس کی جگہ ویسا ہی دوسرا پھل دوبارہ پیدا کردیا جائے گا۔ بزار نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے جب آدم کو جنت سے نکالا تو ان کو بطور توشہ کچھ جنت کے پھل بھی دے دئیے اور ہر ایک کے اوصاف بھی بتا دئیے۔ تو یہ تمہارے پھل جنت کے پھلوں سے ہیں ‘ فرق یہ ہے کہ یہ خراب ہوجاتے ہیں اور وہ تغیر پذیر نہیں ہیں۔ ابن ابی الدنیا کا بیان ہے کہ حضرت ابن مسعود شام میں تھے۔ لوگوں نے جنت کا تذکرہ کیا ‘ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : جنت کا ایک خوشہ (اتنا بڑا ہوگا جتنی مسافت) یہاں سے صنعاء (یمن) تک ہے۔ ابن ابی الدنیا نے کہا : حضرت ابن عباس نے فرمایا : جنت کے پھلوں میں سے ایک ایک پھل کی لمبائی بارہ ہاتھ ہوگی اور ان کے اندر گٹھلی نہیں ہوگی۔
Top