Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 42
وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰىۙ
وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ : اور بیشک تیرے رب کی طرف الْمُنْتَهٰى : پہنچنا ہے۔ انتہا ہے
اور یہ کہ تمہارے پروردگار ہی کے پاس پہنچنا ہے
وان الی ربک المنتھی . اور یہ کہ (سب کو) آپ کے رب کے پاس پہنچنا ہے۔ اَلْمُنْتَھٰی : مصدر ہے ‘ بمعنی انتہاء۔ یہ جملے تمام سابق جملوں کے صحف ابراہیم و صحف موسیٰ میں مندرج تھے۔ بغوی نے حضرت ابی بن کعب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت : وَاِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰیکی تشریح میں فرمایا : رب (کی ذات وصفات) میں کوئی غور نہیں ‘ یعنی ہر سوچ اور غور کی انتہاء رب پر ہے ‘ وہاں تک پہنچ کر ہر غور و فکر کی رفتار ختم ہوجاتی ہے۔ بغوی کی اس حدیث کا مضمون اس حدیث کے مفہوم کی طرح ہے جو حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آئی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : مخلوق میں غور کرو ‘ خالق (کی ذات وصفات) میں غور مت کرو کیونکہ خالق کا احاطہ کوئی عقل نہیں کرسکتی۔ ابو الشیخ نے العظمۃ میں اور بغوی نے بروایت حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے ‘ ہر چیز میں غور کرو مگر اللہ کی ذات میں غور نہ کرو کیونکہ ساتویں آسمان سے اوپر اللہ کی کرسی تک سات ہزار نور (کے طبقات) ہیں اور اللہ سب سے بالا ہے۔ میں کہتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی فکر اللہ کی کرسی تک نہیں پہنچ سکتی۔ اللہ کی ذات تک رسائی پانے کا تو ذکر ہی کیا ہے وہ تو سب سے اعلیٰ وبالا ہے۔ ایک اور روایت میں آیا ہے : مخلوق میں غور کرو ‘ خالق میں غور نہ کرو تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ ابو نعیم نے الحلیہ میں حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے اللہ کی مخلوق میں غور کرو اللہ (کی ذات وصفات) میں غور مت کرو۔ ابو الشیخ نے حضرت ابوذر ؓ کی روایت سے لکھا ہے ‘ اللہ کی مخلوق پر غور کرو مگر اللہ پر غور نہ کرو۔ میں کہتا ہوں فکر و غور کے معنی ہیں کسی نامعلوم نتیجہ کو معلوم کرنے کے لیے مقدمات (اور مبادی) کو مرتب کرنا اور ظاہر ہے کہ صرف اللہ کی آیات ‘ نشانات اور آثار صنعت و حکمت میں ترتیب کا تصوّر ممکن ہے اور مطلوب اللہ کی ذات ہے ‘ یہاں پہنچ کر ہر غور و فکر ختم ہوجاتا ہے۔ (آثار و آیات کی ترتیب سے فکر آگے نہیں بڑھتی) کیونکہ اللہ وہ حقیقت صمدیہ ہے جس کی گہرائی تک غور و خوض کی رسائی نہیں۔ خوض فی ذات اللہ کی ممانعت سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ ذات الٰہیہ تک بےکیف رسائی بھی ناممکن ہے۔ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی کے الفاظ تو دلالت کر رہے ہیں کہ انتہاء سیر ذات تک ہے۔ صوفیہ کی اصطلاح میں سیر فی اللہ کا معنی ہے صفات شیون اور اعتبارات کی سیر۔ ذات محض جس کو لا تعین سے تعبیر کیا جاتا ہے مراد نہیں ہوتی۔ اکثر اہل تفسیر نے آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ مخلوق کی انتہاء اور آخری باز گشت اللہ ہی کی طرف ہے۔ بعض نے کہا : ابتداء احسان بھی اللہ ہی کی جانب سے ہے (اسی نے ابتدائی تخلیق کی) اور اسی سے آخری امید ہے (آخری امید گاہ خلائق وہی ہے) ۔
Top