Mafhoom-ul-Quran - Nooh : 47
لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَ١ۚ وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
لَوْ : اگر خَرَجُوْا : وہ نکلتے فِيْكُمْ : تم میں مَّا : نہ زَادُوْكُمْ : تمہیں بڑھاتے اِلَّا : مگر (سوائے) خَبَالًا : خرابی وَّ : اور لَا۟اَوْضَعُوْا : دوڑے پھرتے خِلٰلَكُمْ : تمہارے درمیان يَبْغُوْنَكُمُ : تمہارے لیے چاہتے ہیں الْفِتْنَةَ : بگاڑ وَفِيْكُمْ : اور تم میں سَمّٰعُوْنَ : سننے والے (جاسوس) لَهُمْ : ان کے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو
اگر وہ تم میں شامل ہو کر نکل بھی کھڑے ہوتے تو تمہارے حق میں شرارت کرتے اور تم میں پھوٹ ڈلوانے کے لیے دوڑے دوڑے پھرتے اور تم میں ان کے جاسوس بھی ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
منافقوں کے فتنوں سے بچنے کی تدابیر تشریح : ان آیات میں پہلے تو ان منافقین کا غزوہ تبوک میں شامل نہ ہونا باعث رحمت بتایا گیا ہے کیونکہ یہ لوگ اگر ساتھ چلے جاتے تو ان کا مقصد نہ تو جہاد کرنا ہوتا اور نہ ہی یہ مخلص ہوتے، اس لیے اگر یہ چلے جاتے تو صرف غلط سلط افواہوں سے مجاہدین میں بددلی، نااتفاقی اور کمزوری ہی پیدا کرنے کا کام انہوں نے کرنا تھا اور اس طرح فوج کو کمزور کرنے کا مقصد حاصل کرتے کیونکہ اگرچہ مسلمان ہوتے تو انسان ہی ہیں بعض ان کی باتوں میں آکر گھبرا بھی سکتے تھے اور ان کو اپنے خفیہ راز لاعلمی میں بتا دیتے اس لیے اچھا ہوا یہ جہاد میں ساتھ نہ گئے۔ یہ لوگ پہلے بھی اس قسم کا فساد پھیلا چکے ہیں۔ جیسا کہ غزوہ احد میں تین سو آدمی عبداللہ بن ابی کی معیت میں میدان جنگ سے واپس آگئے تھے۔ یہ کام، یعنی فساد پھیلانا اور مجاہدین کو پریشان کرنا شیطانی حرکات کھلبلی مچانا یہ سب ان کی پرانی عادات ہیں۔ انہوں نے تو ہمیشہ اپنی پوری کوشش کی کہ تم مسلمانوں کو تکلیف پہنچائیں مگر اللہ کے حکم، تدبیر اور ارادہ کے آگے ان کی ایک نہ چلی اور وہ بےبس ہوگئے اور پھر مجبوراً مسلمان تو ہوگئے مگر صرف نام کے مسلمان، دل ان کے مسلمانوں کی ترقی، کامیابی اور فتح پر کڑھتے رہتے اور ہر وقت شرارت اور بدامنی پھیلانے کی کوشش کرتے۔ یہ تھی منافقوں کی فطرت یہ بھلا اس دور دراز کے سفر میں کیسے شامل ہوسکتے تھے۔ ہر کوئی نہ جانے کا بہانہ بنا رہا تھا اسی طرح جد بن قیس نے یہ بہانہ بنایا کہ ” مجھے خطرہ ہے کہ میں کہیں خوبصورت عورتوں کے فتنہ میں نہ پڑجاؤں کیونکہ سنا ہے رومی عورتیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں ہاں ! اگر آپ چاہیں تو مالی امداد میں کردیتا ہوں۔ “ یہ اس لیے کہ نفاق ظاہر نہ ہوجائے۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے اس کے مال کی امداد سے بھی انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اور اس کے ساتھی پہلے ہی کافی آفتوں میں پھنس چکے ہیں ان کی فطرت ہی بد ہے اسی لیے یہ سب دوزخ کی بڑھکتی ہوئی آگ میں ضرور ڈالے جائیں گے۔ یہ لوگ ہمیشہ مسلمانوں کی فتح پر کڑھتے ہیں اور شکست پر اندر ہی اندر خوشیاں مناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ان منافقین کو صاف صاف بتا دیں کہ جو تکلیف ہمارے نصیب میں لکھی گئی ہے وہ ضرور آئے گی ہم اس سے ہرگز گھبراتے نہیں اور نہ ہی پریشان ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اللہ کی رفاقت، رحم و کرم اور مدد پر اس قدر بھروسہ ہے کہ ہم اس کو اللہ کی طرف سے بھیجی گئی رحمت ہی سمجھتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ اللہ جو بھی ہمارے لیے مقرر کرتا ہے اس میں ضرور کوئی نہ کوئی بہتری ہوتی ہے اس صبر اور شکر سے ہم ہر تکلیف، پریشانی اور مصیبت کا مقابلہ بڑی بہادری سے کرتے ہیں اور یوں وہ پریشانی ہمارے سکون اور راحت کا سبب بن جاتی ہے۔ “ اسی طرح حکم ہوا کہ ان کو بتا دو کہ تم لوگ تو ہمارے لیے فتح یا شکست کا سوچتے ہو جبکہ ہمارے لیے فتح و شکست برابر ہے وہ اس طرح کہ اگر جنگ میں مارے گئے تو شہید کا بہترین رتبہ مل جائے گا اگر جنگ سے زندہ واپس آگئے تو غازی ہونے کا بہترین اعزاز دنیا میں اور آخرت میں بھی انعام ملے گا دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ مال غنیمت بھی ملے گا۔ مگر تم اپنی منافقت سے دھوکہ دینا چاہتے ہو تمہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ تم اس منافقت کی وجہ سے ضرور سخت مصیبت اور عذاب میں گرفتار ہو گے یا اللہ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا اور یا پھر ہمارے ذریعہ سے تمہیں ذلت و رسوائی اور پریشانی اٹھانی پڑے گی۔ تم بھی عذاب کا انتظار کرو اور ہم بھی دیکھتے ہیں۔ اس طرح کے بیشمار واقعات دنیا دیکھ چکی ہے۔ حق و باطل کی لڑائی کئی دفعہ ہوچکی حق جیتا اور باطل کو شکست ہوئی۔ کیونکہ حق کی مدد حق (اللہ تعالیٰ ) کرتا ہے اور باطل کی مدد شیطان کرتا ہے۔ شیطان کو کہاں اتنی توفیق کہ حق کے سامنے ٹھہر سکے۔ مسلمانوں کو چاہیے اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں اور اللہ پر ہر وقت بھروسہ کریں کیونکہ وہی قادر مطلق ہے بادشاہوں کا بادشاہ اور وحدہٗ لاشریک صرف اسی کی ذات ہے اور اپنے بندوں پر ہر وقت مہربان ہے رحیم و کریم ہے۔ غفور ورحیم ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ جو کام کرے اللہ کی رضا کے لیے کرے پورے خلوص محنت اور کوشش سے کرے پھر انجام اللہ پر چھوڑ دے۔ یہی مسلمان کی شان ہے۔ جب وہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو پھر اسے نہ کوئی غم ہوتا ہے نہ فکر اور نہ ہی وہ کسی بات پر پریشان ہوتا ہے۔ ہر حال میں خوش و خرم اور پرسکون رہتا ہے۔ پھر اللہ منافقوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم لوگ صرف اپنی منافقت کو چھپانے کے لیے مجبوراً مال دیتے ہو مگر اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہاری منافقت ظاہر ہوچکی ہے کیونکہ جب تم نماز کے لیے آتے ہو تو مقصد صرف دکھاوا ہوتا ہے مال دیتے ہو تو وہ بھی منافقت کو چھپانے کے لیے تم لوگ اللہ اور رسول کے نافرمان ہو تم سے صدقات و خیرات ہرگز قبول نہ کیے جائیں گے کیونکہ بنیادی طور پر تم دھوکہ باز اور خبیث لوگ ہو۔ بھلا تمہارا صدقہ خیرات اللہ تعالیٰ کس طرح قبول کرسکتا ہے۔ اللہ کو تمہارے مال کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اسی نے تو تمہیں یہ مال و متاع دیا ہے۔ اس کو تو خلوص دل کی عبادت چاہیے کیونکہ انسان کی کامیابی نیک نیتی اور خلوص پر ہے۔ پھر فرمایا کہ منافقین کو جو مال کی فراوانی اور اولاد کی زیادتی دی گئی ہے تو یہ بھی ان کے عذاب کا ایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ مال اور اولاد فتنہ ہیں۔ انہی دو فتنوں میں پھنس کر انسان غافل ہوجاتا ہے یہ دونوں انسان کے لیے بہت بڑی آزمائش ہیں۔ کیونکہ جو ان دونوں کے چکر میں پھنس جاتا ہے نہ اس کو دنیا میں سکون ملتا ہے نہ آخرت میں نجات ملتی ہے۔ مال کی محبت میں یہ لوگ اتنے ڈوبے ہوئے ہیں کہ نہ ان کو حلال کی تمیز ہے نہ حرام کی، نہ جائز کی پرواہ ہے نہ ناجائز کی پرواہ ہے اور پھر حرام کے مال سے پلی ہوئی اولاد بذات خود ان کے لیے بہت بڑا عذاب ثابت ہوتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ حرام کا مال پورا پورا اولاد کے دکھ دیکھنے میں نکلتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑا عذاب اولاد کا دکھ ہوتا ہے۔ اللہ اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ مگر جس کو اللہ رب العزت اس مصیبت میں ڈال دیتا ہے وہ ساری زندگی اس سے نجات نہیں پاتا اور ایسے ہی دکھ و تکلیف میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک صفت ان منافق لوگوں کی اللہ تعالیٰ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کیونکہ ان کو تمہارے سوا کوئی ٹھکانا دکھائی نہیں دیتا اس لیے یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں ورنہ اگر ان کو کوئی ذرا سا سہارا بھی مل جائے تو یہ فورا تمہاری دوستی اور ایمان کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ یہ لوگ صرف ٹھکانے کی مجبوری میں مسلمان بنے ہوئے ہیں۔ پھر ان کا کام صرف یہ ہے کہ مسلمانوں پر تنقید کریں جیسا کہ صدقات و خیرات پر اعتراضات کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ جب ان کو کچھ دے دیں تو خوش ورنہ بہت ناراض ہوتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جو بھی ان کو مل جاتا اس پر خوش ہوجاتے مگر یہ تو ان کی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ یہ مسلمان کی ہی صفت ہے کہ وہ راضی برضا الٰہی ہوتا ہے۔ جو رسول اللہ ﷺ نے ان کو دے دیاوہ کم ہو یا زیادہ اس پر خوش رہتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ نماز پڑھیں تو خوش دلی، شوق اور پورے دھیان سے۔ زکوٰۃ دیں تو پورے خلوص اور محبت سے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو خوش دلی سے۔ ان تمام کاموں میں سستی کاہلی اور مجبوری کا ہونا منافقت کی نشانی ہے۔ جو بھی کرو اللہ اور رسول کی محبت میں ڈوب کر شوق سے کرو یہی سچے مومن کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” مومن صرف وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر (اس ایمان پر) انہیں کوئی شک نہ رہا اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کیا صرف وہی صادق لوگ ہیں۔ “ (الحجرات آیت : 15) یہ سب کچھ جب ہم پڑھ چکے تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ مومن کی زندگی اور منافق کی زندگی میں کتنا واضح فرق ہے اہل عرب کا ذکر تو محض سمجھانے کے لیے ہوتا ہے اصل میں تو یہ رہنما اصول تمام دنیا کے ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ہوتے ہیں۔ امیر اور صاحب اولاد تو مومنین میں بھی بڑے ہوتے ہیں مگر مومنین کے لیے مال اولاد فضل و کرم ثابت ہوتے ہیں جبکہ منافق کے لیے مال و اولاد زحمت اور آزمائش ہوتے ہیں وہ اس طرح کہ مومن اپنے مال اور وقت کو اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق خرچ کرتا ہے، یعنی اپنے اوپر ماں باپ، بیوی بچے، بہن بھائی، رشتہ دار، دوست احباب، رفاہی کام، غریب محتاج اور ضرورت مند سب کے لیے درجہ بدرجہ خرچ کرتا ہے جیسا کہ سیدنا عثمان ؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے بڑے امیر آدمی تھے مگر غزوئہ تبوک میں کھانے کی اشیاء سے لدے ہوئے تین سو اونٹ ایک ہزار سونے کے دینار اسلامی لشکر کے اخراجات کے لیے پیش کردیے۔ جبکہ منافقین صرف اپنے لیے مال کماتا ہے پھر اس میں اضافہ کے لیے سرتوڑ کوشش کرتا ہے پھر اس جمع شدہ مال کی حفاظت میں سرگرداں اور پریشان رہتا ہے ہر وقت چوری اور ڈکیتی کا خطرہ اس کو بےسکون کیے رہتا ہے۔ تو یوں اس کا مال اس کے لیے وبال بن جاتا ہے۔ اسی طرح نیک آدمی کی اولاد نیک لائق اور شریف ہوگی کیونکہ اس کی پرورش اسلام کے بہترین اصولوں پر کی جاتی ہے وہ معاشرے کے لیے ایک بہترین شہری بن جاتا ہے جبکہ منافق کی اولاد کی تربیت اسلام سے دور خباثت، شرارت، حسد، بغض اور منافقت کے ماحول میں کی جاتی ہے اور وہ والدین اور پورے معاشرے کے لیے ایک بدکردار منافق ہی ثابت ہوتا ہے اور یوں وہ وبال جان بن کر والدین کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ قرآن پاک ہمیں راہ نما اصول دیتا ہے، یہ قصہ اور کہانیوں کی کتاب نہیں، اس کو پڑھنا، غور کرنا، عمل کرنا اور دوسروں کو بتانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین۔
Top