Tafseer-e-Mazhari - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ : البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور اخلاق تمہارے بہت (عالی) ہیں
وانک لعلی خلق عظیم . بلاشبہ آپ بڑے اخلاق کے مالک ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ ایسی (ایذا رساں ‘ توہین آگیں) باتیں برداشت کرلیتے ہیں جو دوسرے لوگ نہیں برداشت کرسکتے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ کے راستہ میں جو دکھ مجھے دیا گیا ہے وہ کسی کو نہیں دیا گیا۔ (ابو نعیم فی الحلیۃ بروایت حضرت انس ؓ ابن عساکر نے حضرت جابر ؓ کی روایت بھی اسی طرح نقل کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ مشرکوں کے لیے بددعا کردیجئے۔ فرمایا : مجھے لعنت گر بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ محض رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (مسلم) کافروں نے رسول اللہ ﷺ پر دیوانہ ہونے کی تہمت لگائی اور دیوانہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہوتا ‘ بہرحال ان دونوں جملوں سے نفی جنون کی تاکید اور کافروں کے قول کی بہترین طریقہ سے تردید ہوگئی۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد کا قول ہے کہ خلق عظیم سے مراد ہے دین عظیم یعنی دین اسلام۔ اس سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ مجھے کوئی مذہب نہیں۔ حسن بصری (رح) کا قول ہے کہ خلق عظیم آداب قرآنی ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے جب رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن تھا کیا تم قرآن (میں) نہیں پڑھتے : ” قد افلح المؤمنون……“ (مسلم فی الصحیح والبخاری فی الادب المفرد) قتادہ ؓ نے فرمایا : خلق عظیم ہے اوامر الٰہیہ کا امتثال اور ممنوعات سے اجتناب یعنی آپ ﷺ ان اخلاق پر ہیں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے۔ یہ بھی قتادہ کا قول ہے کہ خلق عظیم کا مجموعہ یہ ہے کہ پیش نظر اور اصل مقصد سوائے (مرضی) خدا کے اور کچھ نہ ہو۔ فصل : رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کا بیان حضرت براء راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ خوبصورت اور جسمانی لحاظ سے حسین ترین تھے۔ نہ بےت کے دراز قامت تھے ‘ نہ کوتاہ قد۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا : میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی لیکن حضور ﷺ نے کبھی مجھے ہوں بھی نہیں فرمایا ‘ اگر میں نے کوئی کام کرلیا تو یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا اور نہیں کیا تو یہ نہیں فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ بڑے ہی خوش خلق تھے ‘ کوئی ریشم ( سلک) بلکہ کوئی چیز رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم میں نے نہیں چھوئی ‘ نہ حضور ﷺ کے پسینہ سے زیادہ خوشبو دار کسی مشک اور عطر کو پایا۔ (مسلم و بخاری) حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایک عورت کی عقل میں کچھ فتور تھا ‘ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ مجھے آپ ﷺ سے کچھکام ہے۔ ارشاد فرمایا : اے عورت ! مدینہ کی جس گلی میں چاہے بیٹھ جا ‘ میں بھی تیرے پاس بیٹھ جاؤں گا۔ چناچہ حضور ﷺ اس کے پاس (زمین پر) بیٹھ گئے اور اس نے اپنا کام پورا کرلیا۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ مدینہ کی باندی بھی حضور اقدس ﷺ کا دست مبارک پکڑ کر جہاں چاہتی لے جاتی تھی۔ (بخاری) حضرت انس ؓ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اگر کوئی مصافحہ کرتا تو حضور ﷺ دست مبارک اس کے ہاتھ سے اس وقت تک الگ نہ کرتے جب تک وہ خود ہی اپنا ہاتھ الگ نہ کرلیتا ‘ نہ اپنا رخ اس کی طرف سے پھیرتے ‘ نہ حضور ﷺ کو کسی ہمنشین کے سامنے زانو آگے بڑھائے دیکھا گیا۔ (ترمذی) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے راہ خدا میں جہاد کے بغیر کبھی اپنے ہاتھ سے (کسی کے) کوئی چیز نہیں ماری ‘ نہ کسی خادم کو مارا ‘ نہ عورت کو ‘ نہ کسی حق تلفی کرنے والے سے انتقام لیتے تھے ‘ ہاں ! اگر کوئی ضوابط الٰہیہ کی خلاف ورزی کرتا تھا تو اس کو اللہ کے واسطے حضور ﷺ سزا دیتے تھے۔ (مسلم) حضرت انس ؓ نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پیدل جا رہا تھا۔ حضور ﷺ اس وقت نجرانی چادر ‘ موٹی کناری کے پہنے تھے۔ ایک دیہاتی آپہنچا اور چادر پکڑ کر اتنی زور سے کھینچی کہ حضور ﷺ کی گردن کے ایک طرف چادر کی کناری کا نشان پڑگیا ‘ اس کے بعد کہنے لگا : محمد ﷺ جو خدا کا مال تیرے پاس ہے ‘ اس میں سے مجھے بھی کچھ دینے کا حکم دیدے ‘ حضور والانے اً س کی طرف رخ پھیرا اور ہنس دیئے ‘ پھر کچھ عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (مسلم و بخاری) حضرت انس ؓ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسین ‘ سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ (مسلم و بخاری) حضرت جابر کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی سوال کے جواب میں نہیں ‘ کبھی نہیں فرمایا۔ (مسلم و بخاری) حضرت جبیر بن مطعم ؓ نے بیان کیا کہ حنین سے واپسی میں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا (اثناء راہ میں) کچھ دیہاتی مانگنے کے لیے حضور ﷺ سے چمٹ گئے ‘ یہاں تک کہ آپ ﷺ ایک کیکر کے درخت کی پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ دیہاتیوں نے حضور ﷺ کی چادر جھپٹ لی۔ آپ ﷺ کھڑے فرما رہے تھے ‘ مجھے میری چادر دے دو اگر میرے پاس ان سنگریزوں کے برابر بھی اونٹ ہوں گے تو میں تم کو بانٹ دوں گا ‘ تم مجھے بخیل نہ پاؤں گے ‘ نہ جھوٹا ‘ نہ کم حوصلہ (یا بزول) ۔ (بخاری) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نہ فحش گوئی کے عادی تھے ‘ نہ بناوٹی فحش الفاظ زبان سے نکالتے تھے ‘ نہ بازاروں میں چیختے چلاتے تھے ‘ نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ معاف کردیتے تھے اور درگزر فرماتے تھے۔ حسن خلق کی فضیلت میں اس مبحث کی ناقابل احاطہ احادیث آئی ہی۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مجھے حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ (احمد) مؤطا میں ہے کہ مجھے حسن خلق کی تکمیل و تبلیغ کے لیے بھیجا گیا ہے۔ حضرت ابودرداء ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن مؤمن کی میزان میں سب سے وزنی چیز حسن اخلاق ہوگی اور فحش گو گالیاں بکنے والے سے اللہ نفرت کرتا ہے۔ (ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ابوداؤد نے یہ حدیث نقل کی ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابیوں سے فرمایا : کیا تم کو معلوم ہے کہ جنت کے اندر لوگوں کو سب سے زیادہ تعداد میں کیا چیز لے جائے گی ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا : اللہ اور رسول ﷺ ہی جانتا ہے۔ فرمایا : جنت کے اندر سب سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو لے جانے والی چیز تقویٰ اور حسن اخلاق ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : میں نے خود سنا ‘ حضور ﷺ فرما رہے تھے کہ مؤمن حسن اخلاق کی وجہ سے قائم اللیل (رات کو ہمیشہ عبادت کرنے والے) اور صائم النہار (دن کو ہمیشہ روزہ رکھنے و الے) کا درجہ پا لیتا ہے۔ (ابوداؤد) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے نزدیک سب سے زیادہ پیارا لوگوں میں سے وہ شخص ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔ (بخاری) صحیحین کی ایک دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے ‘ برگزیدہ لوگوں میں سے میرے نزدیک وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ بیہقی نے شعب الایمان میں ایک مزنی شخص کی روایت سے اور شرح السنۃ میں حضرت اسامہ بن شریک کے حو الہ سے نقل کیا ہے کہ صحابہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! سب سے اچھی چیز آدمی کو کیا دی گئی ہے ؟ فرمایا : اچھا خلق۔ حضرت معاذ ؓ نے فرمایا : جب میں نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو رسول اللہ ﷺ نے سب سے آخر میں مجھے یہ نصیحت فرمائی کہ معاذ ؓ اپنے اخلاق لوگوں سے اچھے رکھنا۔ (رواہ مالک)
Top