Tafseer-e-Mazhari - Al-Haaqqa : 20
اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْۚ
اِنِّىْ : بیشک میں ظَنَنْتُ : میں یقین رکھتا تھا اَنِّىْ : کہ بیشک میں مُلٰقٍ : ملاقات کرنے والا ہوں حِسَابِيَهْ : اپنے حساب سے
مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا
انی ظننت انی ملاق حسابیہ . یعنی بیشک میں تو جانتا تھا مجھے تو یقین تھا کہ مجھے میرے اعمال کا حساب پیش آئے گا۔ حساب کا یقین رکھنے کے بعد نیک اعمال کرنا لازم ہیں اس لیے حساب پر یقین ظاہر کرنے سے درپردہ اس کی مراد ہے نیک اعمال کرنا۔ یعنی وہ کہے گا اسی لیے تو میں نے اچھے عمل کیے تھے مگر اظہار عجز کے طور پر صراحۃً وہ یہ بات نہیں کرے گا یہی اعتراف فروتنی اس کا باعث ہوگا کہ وہ یقین کو ظن سے تعبیر کرے گا۔ اللہ علام الغیوب کے سامنے یقین کا دعویٰ کرنے سے اس کو اپنی ذات کا استحقار روکے گا۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ چونکہ علوم نظریہ وسوسوں سے خالی نہیں ہوتے اس لیے یقین کی تعبیر بلفظ ظن (غالب خیال) کرنے سے شاید اس امر کا اظہار مقصود ہے کہ اعتقاد میں نفسانی وسوسوں سے خرابی نہیں ہوسکتی (عقیدہ نظری علم ہوتا ہے اور علم نظری میں وسوسہ پیدا ہونا لازم ہے لیکن یہ وسوسہ مخل نہیں ہوسکتا) ۔ ابن مبارک نے بروایت ابو عثمان نہدی بیان کیا کہ مؤمن کو اللہ کی طرف سے دوسروں سے چھپا کر اعمالنامہ دیا جائے گا ‘ اپنی بد اعمالیوں کو پڑھ کر اس کا رنگ بدل جائے گا پھر نیکیوں کو پڑھے گا تو رنگ لوٹ آئے گا پھر جو اس کی نظر پڑے گی تو دیکھے گا کہ اس کی بد اعمالیوں کو نیکیوں سے بدل دیا گیا ہے (برائیوں کی جگہ بھلائیاں لکھ دی گئیں) اس وقت وہ کہے گا لو میرا اعمالنامہ پڑھو۔
Top