Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 100
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے
والسبقون الاولون من المھجرین والانصار اور جو مہاجرین و انصار (ایمان لانے میں) سب سے آگے اور مقدم ہیں۔ المہاجرین یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے قبیلہ اور قوم کو چھوڑا ‘ وطن اور مال کو چھوڑا اور مکہ سے نکل گئے۔ مہاجرین سے مراد ہیں قریش مکہ۔ الانصار یعنی وہ مدینہ والے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو اس وقت جبکہ قوم والوں نے آپ کو نکلنے پر مجبور کردیا تھا ‘ اپنے پاس جگہ دی اور آپ کی مدد کی۔ سابقین سے کونسے مہاجر و انصار مراد ہیں ؟ سعید بن مسیب ‘ قتادہ ‘ ابن سیرین اور ایک جماعت تابعین کے نزدیک وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی۔ عطاء بن ابی رباح کے نزدیک بدری صحابی مراد ہیں۔ شعبی کے نزدیک حدیبیہ کی بیعت رضوان میں شریک ہونے والے مراد ہیں۔ بعض کے نزدیک مہاجرین میں سے صرف آٹھ آدمی مراد ہیں جو سب سے پہلے مسلمان ہوئے ‘ باقی لوگ ان کے بعد اسلام میں داخل ہوئے۔ حضرت ابوبکر ‘ حضرت زید بن حارثہ ‘ حضرت عثمان بن عفان ‘ حضرت زبیر بن عوام ‘ حضرت علی ‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف ‘ حضرت سعد بن ابی وقاص ‘ حضرت طلحہ بن عبیدا اللہ۔ بغوی نے لکھا ہے : رسول اللہ ﷺ کی بیوی حضرت خدیجہ کا سب سے اوّل ایمان لانا تو مسلم الثبوت اور اجماعی قول ہے۔ آپ کے بعد کون سب سے پہلے مسلمان ہوا ‘ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ نے حضرت خدیجہ کے بعد حضرت علی کو مؤمن اوّل فرمایا ہے۔ اس کی تائید میں خود حضرت علی کا یہ شعر پیش کیا جاتا ہے ؂ سَبَقْتُکم اِلَی الْاِسْلَامِ طُرًّا غلامًا مَا بَلَغْتُ اَواَنَ حُلْمٍ (میں لڑکا ہی تھا ‘ بلوغ کی عمر کو نہیں پہنچا تھا کہ تم سب سے پہلے میں نے اسلام کی طرف سبقت کی) ۔ مجاہد اور ابن اسحاق کے قول پر دس سال کی عمر میں حضرت علی مسلمان ہوئے تھے۔ بعض کے نزدیک حضرت خدیجہ کے بعد سب سے پہلے حضرت ابوبکر ایمان لائے۔ یہ قول حضرت ابن عباس ‘ ابراہیم نخعی اور عامر شعبی کا ہے۔ اس قول کی تائید حضرت حسان کے ان اشعار سے ہوتی ہے جو حضرت ابوبکر کی مدح میں آپ نے کہے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو تسلیم کیا تھا۔ زہری اور عروہ بن زبیر کے نزدیک حضرت خدیجہ کے بعد سابق الاسلام حضرت زید بن حارثہ تھے۔ اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے ان مختلف اقوال کی باہم تطبیق اس طرح دی ہے کہ مردوں میں سابق الاسلام حضرت ابوبکر تھے ‘ عورتوں میں حضرت خدیجہ ‘ لڑکوں میں حضرت علی اور (آزاد کردہ) غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ اسلام لانے کے بعد حضرت ابوبکر نے اپنے اسلام کا اظہار کردیا (چھپا کر نہ رکھا) اور دوسروں کو اللہ اور رسول کی طرف آنے کی دعوت دی۔ آپ ہر دلعزیز ‘ بااخلاق آدمی تھے ‘ قریش کے نسب اور حالات کو سب سے زیادہ جانتے تھے۔ تاجر تھے بڑے بااخلاق اور مخیر۔ قوم کے لوگ آپ کی دانائی اور اچھی صحبت کی وجہ سے مختلف کاموں کیلئے آپ کے پاس آتے اور انسیت رکھتے تھے۔ آپ بھی اپنی قوم میں سے جس پر اعتماد رکھتے تھے ‘ اس کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ چناچہ میری اطلاع کے بموجب حضرت عثمان ‘ حضرت زبیر بن عوام ‘ حضرت عبدالرحمن بن عوف ‘ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبیدا اللہ آپ ہی کی ترغیب سے ایمان لائے تھے۔ جب یہ حضرات مسلمان ہوگئے تو آپ ان کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب نے نماز ادا کی۔ پھر دوسرے لوگ مسلمان ہوئے ‘ یہاں تک کہ مسلمان مردوں اور عورتوں کی تعداد سات سال میں انتالیس ہوگئی۔ پھر حضرت عمر مسلمان ہوئے ‘ آپ چالیسویں مسلمان تھے۔ حضرت عمر کے مسلمان ہونے کے بعد مشرکوں نے کہا : آج ہماری طاقت آدھی ہوگئی۔ سات سال کے بعد حضرت عمر کے مسلمان ہونے سے اسلام میں قوت آگئی اور اس کا پھیلاؤ ہونے لگا۔ اسی بنیاد پر حضرت علی نے فرمایا تھا کہ اور لوگوں سے سات برس پہلے میں نے نمازیں پڑھیں۔ سابقین انصار سے مراد وہ لگ ہیں جنہوں نے لیلۃ العقبہ (گھاٹی والی اوّل رات) میں حضور ﷺ کی بیعت کی۔ یہ چھ سات آدمی تھے ‘ پھر (دوسرے سال) دوسری گھاٹی کے موقع پر بارہ آدمی تھے (جنہوں نے بیعت کی) اور (تیسرے سال) تیسری گھاٹی میں ستر تھے (جنہوں نے بیعت کی) ان ایمان لانے والوں میں حضرت ابو زرارہ اور حضرت معصب بن عمیر بھی تھے۔ ان بزرگوں نے (مدینہ پہنچ کر تبلیغ کی اور) قرآن سکھایا۔ ان کی کوشش سے مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوگئی۔ والذین اتبعوھم باحسان اور (بقیہ امت میں) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ ان سے سابقین اولین کے علاوہ دوسرے انصار و مہاجر مراد ہیں۔ بعض نے کہا کہ قیامت تک جتنے لوگ سابقین اوّلین کی راہ پر چلنے والے ہوں گے یعنی ایمان میں ‘ ہجرت میں اور رسول اللہ ﷺ (کے دین) کی مدد کرنے میں جو سابقین کے نقش قدم پر چلیں گے ‘ وہ سب مراد ہیں۔ میں کہتا ہوں : ممکن ہے کہ سابقین سے مراد ہوں مقربین ‘ جن کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے : وَالسَّابِقُوْنَ السَّابِقُوْنَ اُولٰٓءِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ فِیْ جَنَّات النَّعِیْم ثُلَّۃَّ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ ( ثُلَّۃٌ ایک گروہ) ثُلَّۃٌسے مراد ہیں صحابہ ‘ تابعین اور تبع تابعین۔ امت اسلامیہ میں تقدیم انہی کو حاصل ہے۔ اس کے بعد قَلِیْلٌ مِنَ الْاٰخِرِیْنَ فرمایا ‘ یعنی ایک ہزار برس کے بعد جو تھوڑے آدمی کمالات نبوت کے حامل ہوں گے۔ ابتدائی دور میں تو کمالات نبوت کے حاملین کی تعداد بہت زیادہ تھی ‘ لیکن پچھلے دور میں یعنی ہزار برس کے بعد باکمال لوگوں کی تعداد بہت کم ہوگئی۔ حضرت مجدد الف ثانی نے فرمایا : تمام صحابہ ‘ اکثر تابعین اور تھوڑے تبع تابعین کمالات نبوت کے حامل تھے۔ میں کہتا ہوں : اس صورت میں من المہاجرین والانصار میں مِنْ تبعیضیہ نہ ہوگا بلکہ بیانیہ ہوگا اور یہ السابقین الاوّلین کا بیان ہوگا اور اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ سے مراد سابقین آخرین اور اصحاب الیمین ہیں جن کو ثُلَّۃَّ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ فرمایا ہے ‘ وہ پہلے قرن سے شروع ہو کر ہزار برس پر ختم ہوجائیں گے اور ثُلَّۃَّ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ سے مراد وہ ارباب کمال ہیں جو ہزار برس کے بعد آئے اور جن کی انتہا روز قیامت پر ہوگی۔ عطاء نے کہا : اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ سے وہ لوگ مراد ہیں جو صحابہ کے ذکر کے وقت ان کیلئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ ابو صخر حمید بن زیاد کا بیان ہے : میں محمد بن کعب قرظی کے پاس گیا اور دریافت کیا : صحابہ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ فرمایا : تمام صحابہ جنتی ہیں ‘ اچھے نیکوکار ہوں یا برے (گناہگار) میں نے کہا : آپ یہ کہاں سے کہتے ہیں ؟ فرمایا : کلام مجید میں آیا ہے : وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَار (اس میں کوئی شرط نہیں ہے کہ نیک ہوں یا برے) سب کے متعلق فرمایا : رَضی اللہ عَنْھُمْ وَرَضوْا عَنْہٗ ۔ اس کے بعد فرمایا : اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۔ اس میں تابعین کیلئے شرط لگا دی کہ بھلائیوں میں صحابہ کے تابع ہوں ‘ برائیوں میں تابع نہ ہوں۔ ابو صخر نے کہا : یہ آیت سن کر مجھے محسوس ہوا کہ گویا یہ آیت میں نے پہلے پڑھی ہی نہ تھی ‘ نہ اس کی تفسیر کا مجھے علم تھا۔ محمد بن کعب کے پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ بھی قرآن کی آیت ہے۔ میں کہتا ہوں : تمام صحابہ کے جنتی ہونے کی دلیل میں اگر ذیل کی آیت پیش کی جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ فرمایا ہے : لاَ یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مِنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓءِکَ اَعْظَمْ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکَلاًّ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحَسْنٰی جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے اپنا مال راہ خدا میں صرف کیا اور جہاد کیا ‘ ان کے برابروہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے اپنا مال راہ خدا میں فتح مکہ کے بعد صرف کیا اور جہاد کیا۔ اول گروہ دوسرے گروہ سے اونچا درجہ رکھتا ہے (لیکن) اللہ نے بھلائی یعنی جنت کا وعدہ دونوں گروہوں سے کرلیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ (آپس میں فرق مراتب کے باوجود) تمام صحابہ جنتی ہیں۔ اللہ نے سب سے جنت کا وعدہ کرلیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا نہ کہو۔ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی (کوہ) احد کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کرے گا تو وہ (ثواب میں) صحابہ کے ایک سیر بلکہ آدھے سیر (غلہ ‘ کھجور وغیرہ) کے برابر نہ ہوگا۔ متفق علیہ من حدیث ابی سعید الخدری ترمذی نے حضرت جابر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس مسلمان کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو (ایمان کی نظر سے) دیکھا۔ ترمذی نے حضرت بریدہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ میں سے جب کوئی شخص کسی سرزمین (گاؤں ‘ قصبہ ‘ شہر وغیرہ) میں مرجائے گا تو قیامت کے دن وہ اس زمین کے رہنے والوں کیلئے پیشوا اور نور بنا کر اٹھایا جائے گا۔ رزین نے حضرت عمر بن خطاب کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں۔ جس کی پیروی کرو گے ‘ ہدایت یاب ہو گے۔ رضی اللہ عنھم اللہ ان سب سے راضی ہوا۔ یعنی ان کی طاعت کو اللہ نے قبول کرلیا اور ان کے اعمال کو پسند فرما لیا۔ ورضوا عنہ اور وہ سب اس سے راضی ہوئے۔ یعنی اللہ کا رب اور مالک ہونا اور اسلام کا ان کیلئے دین ہونا اور محمد ﷺ کا رسول و نبی ہونا انہوں نے اپنے دلوں سے پسند کرلیا۔ اللہ نے ان کے دلوں میں اپنی اور اسلام کی اور محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت ڈال دی اور جو دنیوی و اخروی نعمتیں اللہ نے ان کو عطا فرمائیں ‘ ان پر وہ راضی ہوگئے۔ واعدلھم جنت تجری تحتھا الانھر خٰلدین فیھا ابدًا ذلک الفوز العظیم۔ اور اللہ نے ان کیلئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔
Top