Mazhar-ul-Quran - Ar-Ra'd : 40
وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ
وَاِنْ : اور اگر مَّا نُرِيَنَّكَ : تمہیں دکھا دیں ہم بَعْضَ : کچھ حصہ الَّذِيْ : وہ جو کہ نَعِدُهُمْ : ہم نے ان سے وعدہ کیا اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں وفات دیں فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں عَلَيْكَ : تم پر (تمہارے ذمے) الْبَلٰغُ : پہنچانا وَعَلَيْنَا : اور ہم پر (ہمارا کام) الْحِسَابُ : حساب لینا
اور اگر ہم تم کو دکھائیں بعض وہ چیز جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں یا (اس سے پہلے ہی) اپنے پاس بلا لیں تو بہرحال تم پر تو (حکم کا) پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارے ذمہ ہے
اسلام کا اقبال اور کفار کے زوال و مکر کا ذکر : ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ کفار کے لیے ہم نے جو وعدہ کیا ہے کہ ان کے واسطے دنیا میں پہلے عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ ہم چاہیں تو کچھ عذاب تمہیں حین حیات میں ان پر نازل کردیں۔ یا تمہیں اپنے پاس بلا لیں۔ یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر تمہارا کام پیغام الہی کا پہنچانا ہے، کوئی ایمان لائے یا نہ لائے، تم سے اس کے بارہ میں کچھ سوال نہ ہوگا تم اپنا کام کیے جاؤ۔ باقی رہی جزا و سزا وہ اللہ کے اختیار میں ہے ہم اچھی طرح ان کا حساب کتاب کرکے فیصلہ کردیں گے۔ پھر اس کے بعد آنحضرت ﷺ کی تسکین خاطر کے لیے فرمایا کہ اس وعدہ کی یہ علامت ظاہر بھی ہو رہی ہے کہ ملک ان کے ہاتھوں سے رفتہ رفتہ نکلے جا رہے ہیں اور مسلمان اس پر قابض ہوتے جاتے ہیں پھر فرمایا کہ خدا کے حکم کا کوئی پھیرنے والا نہیں ہے وہ جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے۔ وعلینا الحساب۔ آیت کے اس ٹکڑے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ ایک نہ ایک دن نیک و بد کا بہت جلدی حساب لینے والا ہے اس کو یاد رکھنا چاہیے اور اس سے ڈرنا چاہیے۔
Top