Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 40
وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ
وَاِنْ : اور اگر مَّا نُرِيَنَّكَ : تمہیں دکھا دیں ہم بَعْضَ : کچھ حصہ الَّذِيْ : وہ جو کہ نَعِدُهُمْ : ہم نے ان سے وعدہ کیا اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں وفات دیں فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں عَلَيْكَ : تم پر (تمہارے ذمے) الْبَلٰغُ : پہنچانا وَعَلَيْنَا : اور ہم پر (ہمارا کام) الْحِسَابُ : حساب لینا
اور ہم نے ان لوگوں سے جو وعدے کیے ہیں ہوسکتا ہے کہ ان میں سے بعض باتیں ہم تجھے تیری زندگی ہی میں دکھا دیں ہوسکتا ہے کہ ان سے پہلے تیرا وقت پورا کردیں بہرحال جو کچھ تیرے ذمہ ہے وہ یہی ہے کہ پیغام حق پہنچا دے ، ان سے حساب لینا ہمارا کام ہے تیرا کام نہیں
آپ ﷺ کی زندگی میں وعدوں کو پورا کردیں یا بعد میں ‘ بہرحال وعدوں کا پورا ہونا لازم ہے 62 ؎ اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ کے ذمہ تو جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ پیام حق پہنچا دو ‘ محاسبہ اللہ کا کام ہے اور وہ حساب لے کر رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ جن جن باتوں کا وعدہ کیا گیا ہے تمہاری زندگی ہی میں ظاہر ہوجائیں۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارے بعد ظہور میں آئیں۔ یہ بات کہ ان نتائج و عواقب کا ظہور تمہارے سامنے نہ ہوا مواعبد الٰہی کی صداقت پر کچھ اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ بات مختلف صورتوں میں بار بار کہی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مقصود صرف یہی نہیں تھا کہ مستقبل کی خبر دے دی جائے بلکہ یہ حقیقت بھی واضح کرنی تھی کہ کوئی شخصیت خواہ کتنی ہی اہم ہو لیکن پھر شخصیت ہے اور کاروبار حق کا معاملہ اس کی موجودگی و عدم موجودگی پر موقوف نہیں جو کچھ ہونا چاہئے اور جو کچھ ہونے والا ہے بہرحال ہو کر رہے گا خواہ پیغمبر اپنی زندگی میں دیکھ لے یا نہ دیکھ سکے۔ پھر غور کرو کہ نتائج کا ظہور بھی ٹھیک ٹھیک اسی طرح ہوا جن باتوں کی خبر دی گئی تھی ان کا بڑا حصہ تو خود پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی ہی میں ظاہر ہوگیا یعنی انہوں نے دنیا چھوڑنے سے پہلے تمام جزیرہ عرب کو حلقہ بگوش اسلام پایا البتہ بعض باتوں کا ظہور آپ ﷺ کے بعد ہوا مثلاً منافقوں کا استیصال ‘ بیرونی فتوحات کا حصول اور خلافت ارضی کے وعدہ کی تکمیل۔ آپ کا کام فقط پیغام حق کا پہنچانا ہے ‘ حساب ہمارے ذمہ کی بات ہے 63 ؎ حساب کیا ہے ؟ اعمال کا نتیجہ۔ جیسے ان کے اعمال ہوں گے ویسا ان کو ان کا نتیجہ بھی مل جائے گا۔ آپ ان تک ہمارا پیغام پہنچانے کے پابند ہیں وہ آپ ﷺ نے پہنچا دیا۔ اب معاملہ ان کا اور ہمارا ہے۔ آپ زیادہ فکر اور تشویش میں نہ پڑیں عذاب اپنے وقت معین پر آئے گا۔ زیر نظر آیت نے بات مزید واضح کردی کہ رسالت اور الوہیت کی حدود بالکل جداگانہ ہیں۔ غلط ملط کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ رسول اور پھر مقرب ترین رسول کا کام بھی صرف تبلیغ احکام اور تبلیغ دین ہے باقی اس پر سزا و جزا سوال و بازپرس کا تعلق صرف فاطر کائنات سے ہے اور یہی بات ہے جو عام طور پر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور یہی وجہ ہے کہ تبلیغ دین کا جو نتیجہ نکلنا چاہئے نہیں نکلتا۔ ہر مبلغ پیغام سنانے کے بعد اس کے نتیجہ پر نظر رکھتا ہے پھر جب دیکھتا ہے کہ نیجہا وہ نہیں نکلا جو اس کے ذہن و دماغ میں ہے تو وہ اپنے پیغام میں مناسب تبدیلی کرتا ہے تاکہ نتیجہ وہ نکل آئے جو اس کی مرضی کے مطابق ہو تو یہیں سے وہ آفت رونما ہوجاتی ہے جس کو فرقہ بندی کا نام دیا گیا ہے اور جو اسلام کی نظر میں ایک کھلا شرک ہے پھر ایسے موحد مشرکوں کی کوئی کمی نہیں رہتی جو کچھ اس وقت ہمارے ملک عزیز میں ہو رہا ہے سب کا سب اس کی زندہ مثال ہے۔
Top