Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 12
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَۚ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : وہ جو کہ يُرِيْكُمُ : تمہیں دکھاتا ہے الْبَرْقَ : بجلی خَوْفًا : ڈرانے کو وَّطَمَعًا : اور امید دلانے کو وَّيُنْشِئُ : اور اٹھاتا ہے السَّحَابَ : بادل الثِّقَالَ : بوجھل
وہی اللہ تعالیٰ ہے جو دکھاتا ہے تمہیں بجلی خوف اور طمع کے لیے اور وہ اٹھاتا ہے بادل بوجھل ۔
(ربط آیات) یہ آیات بھی پہلی آیات کے ساتھ ہی مربوط ہیں ، ان میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے دلائل بیان فرمائے ہیں ، گذشتہ درس میں انسان کی پیدائش کے ضمن میں رحموں کا گھٹنا بڑھنا اور مدت حمل کے متعلق اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا بیان تھا ، اللہ کے ہاں ہر چیز کا اندازہ مقرر ہے جس کے مطابق وہ تمام امور کے فیصلے کرتا ہے کوئی شخص کسی چیز کو چھپائے یا ظاہر کرے ، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے ، وہ رات کی تاریکی میں چھپنے والے اور دن کے وقت چلنے پھرنے والے ہر نفس سے واقف ہے ، اس نے انسان کی جان اور اعمال کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو یکے بعد دیگرے آکر اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں پھر جب تک اللہ کو منظور ہوتا ہے ، انسان کی حفاظت ہوتی رہتی ہے ، گذشتہ درس میں ایک دستور الہی کا ذکر بھی کیا گیا فرمایا کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو بدلنے کے لیے تگ ودو نہ کرے ، اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب وہ کسی کو اسکی شامت اعمال کی وجہ سے ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا ، اور خدا کے سوا کسی کو کوئی کارساز اور مددگار نہیں ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ آپ کا ارشاد ہے کہ گرفت آئیگی جس میں سارے کے سارے مبتلا ہوں گے ، (آیت) ” انھلک فینا صلحون “۔ تو کیا ہم ہلاک کردیے جائیں گے جب کہ ہمارے درمیان نیک لوگ بھی موجود ہوں گے ، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جب برائی زیادہ ہو جائیگی تو نیک وبد سب ہلاکت کا شکار ہوں گے ۔ حضور نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” ان الناس اذا راوظالما فلا یاخذوا یدیہ “۔ جب لوگ دیکھ رہے ہوں کہ ظالم ظلم کر رہا ہے اور پھر اس کے ہاتھ پکڑ کر ظلم کو نہ روکیں ، تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو سزا میں مبتلا کردے ، بعض روایات میں آتا ہے کہ ایسے لوگ دعائیں کریں گے مگر وہ مستجاب نہیں ہوں گی گویا عام برائی کے دور میں نیک وبدسب کے سب گرفتار بلا ہوں گے یہ الگ بات ہے کہ نیک لوگوں کو آخرت میں ان کی نیت کے مطابق نجات حاصل ہوجائے گی ۔ (خوف اور امید کا اتصال) اب آج کے درس میں بھی دلائل توحید ہی کا ذکر ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ھو الذی یریکم البرق “۔ خدا کی ذات وہ ہے جو تم کو برق یعنی بجلی دکھلاتا ہے ، برق کا معنی چمکنا ہوتا ہے اور اسے بجلی پر محمول کیا جاتا ہے کیونکہ وہ چمکتی ہے ، فرمایا اللہ تعالیٰ تمہیں بجلی دکھاتا ہے ، (آیت) ” خوفا وطمعا “۔ خوف اور امید دلانے کے لیے ، جب بادل گرجتا ہے اور بجلی چمکتی ہے تو اس سے نقصان کا خوف بھی آتا ہے اور اس سے خوشحالی کی امید بھی ہوتی ہے کہ بارش برسے گی ، سبزیاں اناج اور پھل پیدا ہوں گے جس سے انسان اور جانور مستفید ہوں گے ، اللہ تعالیٰ انسانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہے کہ ایمان کا صحیح مقام خوف اور امید کے درمیان ہی ہے ، انسان نہ تو اللہ کے عذاب سے بےخوف ہوجائے اور نہ ہی اس کی رحمت سے مایوس ہو ، ان دونوں کے اتصال میں ہی کامیابی ہے ۔ (گرج اور چمک) فرمایا وہی اللہ ہے جو تمہیں خوف اور طمع کے لیے بجلی دکھاتا ہے (آیت) ” وینشئی السحاب الثقال “۔ اور اٹھاتا ہے بادل جو بڑے بوجھل ہوتے ہیں یہ بادل پانی سے بھرپور ہوتے ہیں اور ہوائیں انہیں اس طرف لیے جاتی ہیں جہاں بارش برسانا مقصود ہوتا ہے ، بارش کی کمی یا زیادتی ‘ مفید یامضر اللہ تعالیٰ کے ارادے ، مشیت اور تصرف کے ساتھ ہوتی ہے ، گویا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل ہیں ، نیز فرمایا (آیت) ” ویسبح الرعد بحمدہ “۔ اور رعد فرشتہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا ہے اس کی تعریف کے ساتھ (آیت) ” والملئکۃ من خیفتہ “۔ اور دوسرے فرشتے بھی خدا تعالیٰ کے خوف سے اس کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں ، رعد لغوی طور پر گرج کو بھی کہا جاتا ہے مگر اس مقام پر حضور ﷺ نے فرمایا (آیت) ” الرعد ملک مؤکل “۔ رعد ایک فرشتہ ہے ، جو بادلوں پر مقرر ہے ، اس کے ہاتھ میں کوڑا ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ بادلوں کو ہانکتا ہے ہے ، کوڑا مارنے سے چمک پیدا ہوتی ہے سائنسدان بھی یہی کہتے ہیں کہ بادلوں میں مثبت (POSITIVE) پازیٹو ، اور منفی (NEGATIVE) نیگٹیو ، عناصر ہوتے ہیں جن کے ٹکرانے سے آواز پیدا ہوتی ہے ۔ جب بجلی چمکتی ہے اور بادل گرجتے ہیں تو اس موقع کے لیے حضور ﷺ نے یہ دعا بھی سکھلائی 1 (ان کثیر ص 505 ، ج 2 وترمذی ص 498 وادب المفرد للبخاری ص 105 وعمل الیوم والیلۃ ص 121) ہے ۔ اللھم لا تقتلنا بغضبک ولا تھلکنا بعذابک وعافنا قبل ذلک سبحن من یسبح الرعد بحمدہ والملکۃ من خیفتہ “۔ اے اللہ ! اپنے غضب سے ہمیں قتل نہ کر اور اپنے عذاب سے ہمیں ہلاک نہ کر اور اس سے پہلے ہمیں عافیت عطا فرما ، پاک ہے وہ ذات کہ رعد اس کی تسبیح بیان کرتا ہے اس کی تعریف کے ساتھ اور فرشتے بھی اس کے خوف سے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ۔ فرمایا اللہ کی ذات وہ ہے (آیت) ” ویرسل الصواعق “۔ جو کڑک کو بھیجتا ہے ، جس کسی کو نقصان پہنچانا مطلوب ہوتا ہے تو اس پر بجلی بھیجی جاتی ہے جو اللہ کی منشاء کے مطابق تھوڑا یا زیادہ نقصان پہنچاتی ہے ، بعض اوقات یہ بجلی پہاڑوں ، درختوں یا جانوروں پر گرتی ہے تو اس کے حسب حال نقصان ہوتا ہے ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ بعض اوقات بجلی اس طرح پڑتی ہے کہ آدمی کے کپڑے اتار کردرخت کی شاخ پر رکھ دیتی ہے اور اس آدمی کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا ۔ (خدائی طاقت) بجلی تو بڑی طاقت والی چیز ہے اور ہر چیز کو جلا کر رکھ دیتی ہے اگر کوئی چیز اس کی زد میں آنے کے بعد بھی بچ جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کسی سپر طاقت کے مشیت ، ارادے اور حکم سے ہوتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے ، جہاں کسی کو ہلاک کرنا ہوتا ہے ، بجلی ہلاک کردیتی ہے ، اور بچانا مقصود ہو تو بال بیکا نہیں ہوتا فرمایا (آیت) ” فیصیب بھا من یشآئ “ پس پہنچاتا ہے اسکے ساتھ جس کو چاہتا ہے ، نقصان اسی کا ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ چاہتا ہے ، (آیت) ” وھم یجادلوں فی اللہ “ اور وہ لوگ اللہ کے معاملے میں جھگڑا کرتے ہیں طرح طرح کی بیہودہ باتیں کرتے ہیں ۔ (آیت) ” وھو شدید المحال “۔ حالانکہ وہ بڑی سخت قوت والا ہے لفظ محال کے کئی معنی آتے ہیں مثلا عذاب دنیا ، گرفت کرنا ، اور قوت ، یہاں پر قوت اور طاقت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا ہے ، اس کے سامنے طاقتیں ہیچ ہیں ، یہ لفظ م کی زیر کے ساتھ محال بھی آتا ہے ، جس کا معنی ناممکن ہے اگر یہ میم کی پیش کے ساتھ محال ہو تو معنی ہوگا باطل ، جھوٹ یا خلاف واقعہ ، تاہم اس مقام پر محال ہے جس سے قوت اور طاقت مراد ہے ۔ بجلیاں ، گرج اور چمک اللہ تعالیٰ کی طاقت کے مظاہر ہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قیام مدینہ کے دوران قبیلہ عامر کے دو بڑے آدمی عام ابن طفیل اور اربد ابن ربیعہ حضور ﷺ کے قتل کے ارادہ بد سے آئے ، عامر نے اربد سے کہا کہ تم میرے ساتھ رہنا ، میں محمد ﷺ سے بات چیت کروں گا ، جب میں ان کو اس بات چیت میں الجھا دوں تو تم ان پر تلوار سے حملہ کردینا ، چناچہ دونوں ساتھی حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے ، عامر حضور ﷺ سے مخاطب ہوا کہ اے محمد ﷺ ! اگر میں آپ کا اتباع کرلوں تو آپ میرے لیے کیا حصہ رکھیں گے ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم ایمان لے آؤ تو تمہیں بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں اور تم پر بھی وہی ذمہ داریاں عاید ہوں گی ، جو دوسروں مسلمانوں پر عاید ہوتی ہیں ، عامر کہنے لگا ، کیا ایسا نہ کریں کہ دیہات میں میری حکومت ہو اور شہروں پر آپ حکومت کریں ، آپ نے فرمایا کہ یہ تو میرے اختیار میں نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے نیابت اور حکومت عطا کرتا ہے ، پھر عامر کہنے لگا کہ میں آپ سے کچھ اور ضروری بات کرنا چاہتا ہوں آپ ذرا اٹھ کر ادھر آئیں ، حضور ﷺ اٹھ کر ایک طرف آئے ، عامر کا دوسرا ساتھ اربد موقع کی تلاش میں تھا اس نے میان سے تلوار نکالنا چاہی ، مگر اس کا ہاتھ وہیں جام ہو کر رہ گیا اور وہ تلوار نکال نہ سکا ، اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپکو بچا لیا ، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے (آیت) ” واللہ یعصمک من الناس “۔ (المائدہ) اللہ تعالیٰ ہی آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا پھر یہ دونوں ساتھی واپس جا رہے تھے کہ اربد پر بغیر بادل کے بجلی گری اور وہ وہیں ہلاک ہوگیا ، عامر کو راستہ چلتے طاعون کی گلٹی نکلی ، راستے میں قبیلہ سلول کی عورت کا خیمہ تھا ، وہاں پناہ حاصل کی اپنی جہالت کی بنا پر گلٹی کو ٹٹول کر کہا غدۃ غدۃ البعیر یہ تو اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی ہے اور میں سلولیہ کے خیمے میں مر رہا ہوں ، مجھے یہ بات پسند نہیں ہے ، وہ گھوڑے پر سوار ہوگیا اور تلوار سونت لی ، گھوڑے کو دوڑانا شروع کیا اور ساتھ ساتھ حضور ﷺ اور ملک الموت کو گالیاں دینے لگا ، ملک الموت کو کہتا ہے کہ اگر میرے سامنے آجاؤ تو فورا تمہارا کام کر دوں ، پھر وہ گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے ہی ہلاک ہوگیا ، بہرحال یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قوت بہت شدید ہے ، لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے اس کی طاقت کو تسلیم نہیں کرتے جس کی وجہ سے کفر اور شرک میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر ہلاک ہوتے ہیں لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کو تسلیم کریں ، اسی کی عبادت کریں اور اسی کو کار ساز اور متصرف سمجھیں ۔ (دعوت حق) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” لہ دعوۃ الحق “۔ اس کی دعوت برحق ہے دعوت حق سے مراد وہ دعوت ہے جو ایمان اور توحید کی طرف دی جائے سب سے پہلے یہ دعوت حضور ﷺ نے اہم مکہ کو دی اور فرمایا ” قولو لا الہ الا اللہ “ لوگو ! کہہ دو ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اگر تم نے یہ بات تسلیم کرلی ، تفلحو “۔ تو فلاح پاجاؤ گے ۔ صرف اللہ کی عبادت ہی حق کی دعوت ہے اور اس کے برخلاف اغیار کی عبادت سراسر باطل ، کفر ، شرک ، تباہی اور بربادی ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ اپنی تمام حوائج و ضروریات میں اسی ایک اللہ کو پکارنا برحق ہے کیونکہ اس کے سوا نہ کوئی مشکل کشا ہے اور نہ حاجت روا نہ کسی کے ہاتھ میں شفا ہے اور نہ موت وحیات ، ترقی وتنزل ، خیر اور شر سب اسی کے ہاتھ میں ہے ، لہذا پکارنا بھی صرف اسی کو روا ہے فرمایا (آیت) ” والذین یدعون من دونہ “۔ جو لوگ اس کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں اغیار کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں وہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں فرمایا (آیت) ” لا یستجیبون لھم بشیئ “۔ وہ پکارنے والوں کو کوئی جواب نہیں دے سکتے ، اللہ کے سوا مافوق الاسباب کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا ، نہ کسی کی کوئی مشکل حل کرسکتا ہے ، جس طرح پکارنے والا مخلوق ہے ، اسی طرح جنات ، فرشتے ، پیغمبر ، اولیاء سب مخلوق ہیں ، قادر مطلق ، علیم کل ، اور مختار کل صرف اللہ کی ذات ہے ، وہی پکارنے کے لائق ذات ہے ، اس کے علاوہ دوسروں کو پکارنے والے کی مثال ایسی ہے (آیت) ” الا کباسط کفیہ الی المآء لیبلغ فاہ “۔ جیسے کوئی شخص اپنے ہاتھ پانی کی طرف بڑھائے تاکہ وہ اس کے منہ میں چلا جائے (آیت) ” وما ھو ببالغہ “۔ مگر وہ اس تک پہنچنے والا نہیں ہے ، مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص لاکھ آوازیں دے پانی کی طرف ہاتھ بھی بڑھائے اور چاہے کہ پانی خود بخود اس کے منہ میں چلا جائے ، فرمایا ایسا نہیں ہوگا جس طرح یہ ناممکن ہے اسی طرح غیر اللہ کو پکارنا بھی بےسود ہے ، اس کی حاجت کبھی پوری نہیں ہوگی ۔ بعض فرماتے ہیں کہ پانی کی طرف ہاتھ بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی پانی کو مٹھی میں پکڑنے کی کوشش کرے جس طرح پانی مٹھی میں بند نہیں ہوسکتا اسی طرح غیر اللہ سے حاجت روائی کا منتظر رہنا امر محال ہے ، تاہم پہلا معنی زیادہ راجح ہے ، بہرحال حاجت روائی اور مشکل کشائی صرف ذات خداوندی سے ممکن ہے جو اس کی مستحق اور متصرف ہے فرمایا (آیت) ” وما دعآء الکفرین الا فی ضلل “۔ اور کافروں کی پکار گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے مطلب یہ کہ غیر اللہ کو مافوق الاسباب پکارنا نری گمراہی ہے جن کو کچھ اختیار ہی نہیں ، ان کو پکارنا حماقت محض ہے ، قرآن کریم میں اس مضمون کو مختلف انداز سے بالوضاحت بیان کیا گیا ہے :
Top