Al-Qurtubi - Al-Kahf : 73
قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَ لَا تُرْهِقْنِیْ مِنْ اَمْرِیْ عُسْرًا
قَالَ : اس نے کہا لَا تُؤَاخِذْنِيْ : آپ میرا مواخذہ نہ کریں بِمَا : اس پر جو نَسِيْتُ : میں بھول گیا وَلَا تُرْهِقْنِيْ : اور مجھ پر نہ ڈالیں مِنْ : سے اَمْرِيْ : میرا معاملہ عُسْرًا : مشکل
(موسی نے) کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں مجھ پر مشکل نہ ڈالئے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قال لا تواخذنی بما نسیت اس کے معنی میں دو قول ہیں (i) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : یہ کلام کی معاریض سے ہے٭ (ii) دوسرا یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھول گئے تھے تو معذرت کی، اس میں دلیل ہے کہ نسیان مواخذہ کا مقتضی نہیں ہے، یہ تکلیف کے تحت داخل نہیں اس کے ساتھ طلاق وغیرہ کے احکام متعلق نہیں ہوتے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اگر دوسری مرتبہ بھی بھوء جائے تو معذرت کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فانطلقا وقفہ حتی اذا لقیا علماً فقتلہ بخاری میں ہے یعلیٰ نے کہا سعید نے فرمایا : حضرت خضر (علیہ السلام) نے لڑکے پائے جو کھیل رہے تھے انہوں نے ایک کافر لڑکا پکڑا اور اسے لٹا دیا پھر اسے چھری سے ذبح کردیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : آپ نے ایک معصوم جان کو مار ڈالا ہے بغیر کسی نفس کے بدلے کے یعنی اس نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ بخاری و مسلم اور ترمذی ہے (1) پھر دونوں کشتی سے نکلے جب وہ ساحل پر چل رہے تھے تو اچانک حضرت خضر (علیہ السلام) نے ایک لڑکا دیکھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑا اور تن سے جدا کردیا اور اسے قتل کردیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے کہا : کیا آپ نے معصوم جان کو مار ڈالا ہے، بغیر کسی نفس کے بدلے کے، آپ نے بہت عجیب کام کیا ہے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا : کیا میں نے پہلے ہی نہیں کہا تھا تجھے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے ؟ فرمایا : یہ جملہ پہلے سے زیادہ سخت تھا، فرمایا : ان سالتک عن شیء بعدھا فلا تصحبنی قد بلغت من لدنی عذرا۔ اگر میں آپ سے اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں آپ میری طرف سے معذور ہوں گے اور تفسیر میں ہے حضرت خضر (علیہ السلام) بچوں کے پاس سے گزرے جو کھیل رہے تھے، آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک لڑکے کو پکڑا ان لڑکوں میں اس سے زیادہ خوبصورت کوئی نہ تھا، پھر ایک پتھر لیا اور اس کے ساتھ اس کا سر کچل دیا اور اسے قتل کردیا۔ ابوالعالیہ نے کہا : اسے صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا تھا اگر لوگ حضرت خضر (علیہ السلام) کو دیکھتے تو اس کے اور بچے کے درمیان حائل ہوجاتے۔ میں کہتا ہوں : ان تینوں احوال کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ یہ احتمال ہے کہ پہلے پتھر کے ساتھ سر کو کچلا ہو پھر اسے لٹا کر ذبح کیا ہو پھر اس کا سر تن سے جدا کردیا ہو۔ اللہ تعالیٰ حقیقت حال بہتر جانتا ہے۔ اور تیرے لیے وہ کافی ہے جو صحیح حدیث میں آیا ہے۔ جمہور علماء نے زاکیۃ الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ کو فیوں اور ابن عامر نے زکیۃ بغیر الف کے یاء کی شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : معنی ایک ہے، یہ کسائی نے کہا ہے، اور ثعلب نے کہا : الزکیۃ وہ ہوتا ہے جس نے گناہ کیا ہو اور پھر توبہ کی ہو۔
Top