Mualim-ul-Irfan - Maryam : 27
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ١ؕ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا
فَاَتَتْ بِهٖ : پھر وہ اسے لیکر آئی قَوْمَهَا : اپنی قوم تَحْمِلُهٗ : اسے اٹھائے ہوئے قَالُوْا : وہ بولے يٰمَرْيَمُ : اے مریم لَقَدْ جِئْتِ : تو لائی ہے شَيْئًا : شے فَرِيًّا : بری (غضب کی)
پس لائی وہ بچے کو اپنی قوم کے پاس اس کا اٹھا رہی تھی (اپنی گود میں) تو انہوں نے کہا اے مریم کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین البتہ تحقیق لائی ہے تو ایک چیز اوپری ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا ذکر ہوا ، اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہ السلام) کی پریشانی کا حال ذکر کیا اور پھر ان کو تسلی بھی دی جنگل یا پہاڑی غار میں ان کو کھانے پینے کی اشیاء اپنی قدرت تامہ سے مہیا کیں ، پھر یہ بھی فرمایا کہ اے مریم (علیہ السلام) اگر کسی شخص سے ملاقات ہوجائے تو کہنا کہ آج کے دن میں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ، لہذا کسی سے کلام نہیں کروں گی اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہ السلام) کے مع بچے قوم کے پاس آنے اور مسیح (علیہ السلام) کی طرف سے اپنی ماں کی صفائی بیان کرنے کا ذکر فرمایا ہے ۔ (حضرت مریم (علیہ السلام) قوم کے پاس) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” فاتت بہ قومھا تحملہ “ پس آئی مریم (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس اپنے بچے کو گود میں اٹھائے ہوئے ، یہاں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ حضرت مریم (علیہ السلام) ولادت مسیح کے بعد کتنا عرصہ تک جائے ولادت پر مقیم رہیں ، البتہ بعض تفسیری روایات میں چالیس دن کا ذکر آتا ہے ، تفسیری روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد حضرت مریم (علیہ السلام) کی ملاقات سب سے پہلے اپنے چچا زاد بھائی یوسف نجار سے ہوئی ، یہ بھی بیت المقدس کے خادم اور صالح آدمی تھے انہوں نے بھی بچے کی پیدائش پر بڑا تعجب کیا اور حضرت مریم (علیہ السلام) سے سوال کیا ، کیا کوئی پودا یا اناج بغیر بیج کے پیدا ہوتا ہے اسی طرح کسی عورت کے ہاں بغیر مرد کے بچہ پیدا نہیں ہو سکتا ، حضرت مریم (علیہ السلام) نے اس کا جواب یہ دیا کہ تمہارا دعوے درست نہیں ہے اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرنے پر قادر ہے آخر اس نے دنیا میں پہلا پودا یا پہلا دانہ بھی تو بغیر بیج کے پیدا کیا تھا ، اسی طرح پہلا انسان بھی بغیر ماں باپ کے پیدا ہوا تو اب اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کونسی مشکل بات ہے کہ وہ چیز بغیر ظاہری وسیلہ کے پیدا فرما دے ، بہرحال اس جواب سے یوسف نجار کی تسلی ہوگئی ۔ جب حضرت مریم (علیہ السلام) بچے کو گودی میں اٹھائے اپنے خاندان یا قوم کے پاس آئی تو وہ دیکھ کر سخت پریشان ہوگئے اور سب نے بیک زبان کہا (آیت) ” قالوا یمریم لقد جئت شیئا فریا “۔ اے مریم (علیہ السلام) تو تو ایک اوپری یعنی نادر چیز لے آئی ہے ، کہنے لگے ابھی تک تیرا نکاح تو کسی سے ہوا نہیں پھر تو بچہ کہاں سے لے آئی ، انہوں نے حضرت مریم (علیہ السلام) کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا (آیت) ” یاخت ھرون “۔ اے ہارون کی بہن ! (آیت) ” ماکان ابوک امرا سوئ “۔ تیراباپ کوئی برا آدمی تو نہیں تھا (آیت) ” وما کانت امک بغیا “۔ اور تیری ماں بھی کوئی بدکار عورت نہیں تھی ، مگر تو نے یہ کیا گل کھلایا ، تیرے والدین تو نہایت پارسا تھے ان کی نیکی کا ہر طرف چرچا تھا مگر تو نے بدکاری کا ارتکاب کرکے اپنے نیک نام والدین کو بھی بدنام کردیا حضرت مریم (علیہ السلام) کے والد عمران بیت المقدس کے امام اور نہایت صالح آدمی تھے ، وہ اگرچہ نبی نہیں تھے مگر ان کی نیکی لوگوں میں مسلم تھی ، ان کی والدہ بھی صاحب کرامت تھیں تو لوگوں نے ان نیک ماں باپ کا ذکر کرکے حضرت مریم (علیہ السلام) کو ملامت کی ۔ (ہارون کون تھے ؟ ) یہاں پر حضرت مریم (علیہ السلام) کو ہارون کی بہن کہہ کر خطاب کیا گیا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہارون کون ہیں ؟ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ یمن گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ سے کہا کہ تمہارے قرآن میں ہارون کو مریم (علیہ السلام) کی بہن کہا گیا ہے حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہ السلام) کے درمیان تو ایک ہزار سال کا فاصلہ ہے اس وقت حضرت مغیرہ ؓ کو اس کا جواب چونکہ معلوم نہیں تھا ، اس لیے انہوں نے کہا کہ اس کا جواب حضور ﷺ سے پوچھ کر بتاؤں گا صحیح روایت میں آتا ہے کہ جب اس (1) (قرطبی ص 100 ج 11) (فیاض) بات کا ذکر حضور ﷺ کے پاس ہوا تو آپ نے فرمایا ” انھم یسمون بانبیائھم والصالحین قبلھم “۔ یعنی لوگ اس وقت اپنے انبیاء اور پہلے نیک بزرگوں کے نام رکھتے تھے مطلب یہ کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کے بھائی ہارون وہ نہیں تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بڑے بھائی اور نبی تھے بلکہ یہ کوئی دوسرے ہارون تھے جن کا نام حضرت ہارون (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کے والد کا تعلق حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد سے تھا اور دستور یہ ہے کہ کسی سے تعارف کراتے وقت یا ویسے ہی فخریہ انداز میں خاندان کے کسی بڑے آدمی کے نام پر موسوم کیا جاتا ہے ، اس لیے لوگوں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کی خاندانی نسبت سے حضرت مریم (علیہ السلام) کو ہارون کی بہن کہا ، اس کی مثال قرآن پاک میں دوسری جگہ موجود ہے (آیت) ” والی عاد اخاھم ھودا “۔ (ھود۔۔۔ 50) ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو مبعوث کیا وہ اس قوم کا بڑا آدمی تھا جو ہود (علیہ السلام) سے ہزاروں سال پہلے گزر چکا تھا مگر اس کی طرف نسبت کرکے آپ کو عاد کا بھائی کہا گیا ، ہوسکتا ہے کہ اس طرح حضرت مریم (علیہ السلام) کو حضرت ہارون کی بہن کہا گیا ہو ، قوم کا مطلب یہ تھا کہ تم اللہ کے جلیل القدر نبی ہارون (علیہ السلام) کی بہن یعنی اس کی اولاد سے ہو مگر تم نے یہ کیا غضب ڈھایا کہ کنواری ہو کر بچہ لے آئی ؟ بعض تاریخی محققین اور بائیبل کے عالم ایک دوسری توجیہہ بھی کرتے ہیں ، حضرت ہارون (علیہ السلام) اگرچہ عمر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے تھے مگر مرتبہ چھوٹے بھائی کا زیادہ ہے کہ اللہ نے انہیں کتاب تورات عطا فرمائی اور ہارون (علیہ السلام) بمنزل وزیر کے تھے ، خلافت کا کام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سپرد تھا اور آپ کے بعد آپ ہی کی نسل میں جاری رہا البتہ مذہبی رسومات اور عبادات کی پیشوائی حضرت ہارون سپرد تھی اور ان کے بعد بھی آپ کی نسل میں منتقل ہوتی رہی ، چناچہ بنی اسرائیل کے جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ، اور پھر قبولیت توبہ کے لیے ان کے قتل کا حکم اللہ نے دیا تو اس وقت پوجا نہ کرنے والوں کے ہاتھوں پوجا کرنے والوں کے قتل کی نگرانی بھی حضرت ہارون (علیہ السلام) کے سپرد تھی مطلب یہ کہ عبادات اور مذہبی رسوم کی ادائیگی حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل میں چلی آرہی تھی اور اس زمانے میں یہ کام حضرت مریم (علیہ السلام) کے والد عمران کے سپرد تھا جو کہ بیت المقدس کے امام تھے ، اس لحاظ سے بھی حضرت مریم (علیہ السلام) کو ہارون کی بہن کا خطاب درست معلوم ہوتا ہے ۔ (ماحول کا اثر) ماہرین نفسیات بیان کرتے ہیں کہ انسان میں خاندان اور ماحول کے اثرات کسی نہ کسی حد تک ضرور پائے جاتے ہیں ، خاندان اور برادری یا اردگرد کا ماحول انسان کو ضرور متاثر کرتا ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1) (بدوربازغہ ص 41) (فیاض) ” انما الاخلاق بالا حوال لا بالتعلم “۔ یعنی اخلاق ماحول سے پیدا ہوتے ہیں نہ کہ تعلیم سے جن گھروں میں یا گلی محلوں میں گالی گلوچ کی آوازیں آتی ہوں گی ، وہاں کے بچے بھی یہی کچھ سیکھیں گے ، اسی لیے اسلام نے سوسائٹی کو پاک رکھنے کا تاکیدی ، حکم دیا ہے ، جب تک ہمارا ماحول پاک نہیں ہوگا ۔ ہمارے اخلاق نہیں سنور سکتے ، لہذا سوسائٹی کا اچھا ہونا بڑا ضروری ہے ، سورة الفجر کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فادخلی فی عبادی ، وادخلی جنتی “۔ پہلے میرے بندوں میں شامل ہوجاؤ ، پھر جنت میں داخلہ ملے گا ، مطلب یہ ہے کہ جب تک سوسائٹی اچھے اور نیک لوگوں کی نصیب نہیں ہوگی اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں تو لوگوں نے حضرت مریم (علیہ السلام) کو طعن کیا کہ تمہارا خاندان اور سوسائٹی تو اچھی تھی مگر تم نے یہ غلط کام کیوں کیا ۔ (بچے کی شہادت) مفسرین بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مریم (علیہ السلام) بچے کو لے کر مقام زچگی سے گھر کی طرف آرہی تھیں تو وہ لوگوں کے طعن وتشنیع سے سخت خائف تھیں ، اس دوران میں اللہ تعالیٰ نے بچے کو قوت گویائی عطا فرمائی اور اس نے ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ گھبراؤ نہیں جس اللہ نے مجھے نبی بنایا ہے وہ تمہارے دامن پر دھبہ نہیں آنے دے گا ، چناچہ انہیں تسلی تھی کہ اللہ تعالیٰ کوئی بہتر راستہ نکالے گا ، پھر جب قوم کے لوگوں نے سختی سے باز پرس کی (آیت) ” فاشارت الیہ “ تو مریم (علیہ السلام) نے اس بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ سارا معاملہ مجھے پوچھنے کی بجائے اس بچے سے ہی دریافت کرلو ، اس پر لوگ مزید بدکے کہ یہ ہمیں بیوقوف بنا رہی ہے ” قالو “ کہنے لگے (آیت) ” کیف نکلم من کان فی المھد صبیا “۔ بھلا ہم گہوارے یعنی گود میں پڑے ہوئے بچے سے کیسے کرسکتے ہیں جسے ابھی تک اپنے آپ کا بھی شعور نہیں ہے ۔ ابھی یہ بات چیت ہو رہی تھی ، قال بچہ خود بخود بول اٹھا اور کہا (آیت) ” انی عبداللہ “۔ میں اللہ کا بندہ ہوں ، گویا مسیح (علیہ السلام) نے ماں کی گود میں پہلے ہی جملہ میں توحید باری تعالیٰ کا اعلان کر کے یہود ونصاری کے منہ بند کردیے مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں بعد میں دو انتہائی گروہ معرض وجود میں آئے ، یہودیوں نے تو مسیح (علیہ السلام) کو زانیہ کا بیٹا تک کہہ دیا اور اس طرح ان کی توہین کی ، دوسری طرف نصاری کا گروہ تھا جنہوں نے آپ کو خدا کا بیٹا تجویز کر کے الوہیت کے درجے پر پہنچا دیا اور اس طرح دونوں گروہ گمراہی کا شکار ہوگئے ، حالانکہ اگر غور کرتے تو مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے نکلا ہوا پہلا جملہ ہی حقیقت حال کی وضاحت کے لیے کافی تھا وہ اللہ کے مقرب بندے اور نبی تھے ، نہ تو وہ بدبخت تھے کہ زانیہ کے شکم سے پیدا ہوتے اور نہ وہ الوہیت کے مرتبے پر فائز تھے بلکہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے وہ باعزت تھے ، نہ کہ حقیر ۔ پھر فرمایا (آیت) ” اتنیہ الکتب “۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب یعنی انجیل عطا فرمائی ہے (آیت) ” وجعلنی نبیا “۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اگرچہ نبوت کا ظہور اپنے مقررہ وقت پر جا کر ہوگا ، کتاب بھی اللہ تعالیٰ نے اسی وقت آپ کو نہیں دے دی تھی مگر نبوت اور کتاب کا فیصلہ مشیت ایزدی میں ہوچکا تھا جس کو اللہ نے بچپن میں ہی مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے کہلوا دیا اللہ کے دو نبی ایسے ہوئے ہیں جنہیں بچپن میں نبوت عطا ہوئی ، ایک یحی (علیہ السلام) جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اور دوسرے مسیح (علیہ السلام) ۔ (بابرکت مسیح علیہ السلام) اس موقع پر آپ نے چوتھی بات یہ فرمائی (آیت) ” وجعلنی مبرکا “۔ اللہ نے مجھے برکت والا بنایا ہے ، برکت میں تقدس کی زیادتی کا مفہوم پایا جاتا ہے اور مبارک سے مراد ایسی ہستی ہے جس سے اللہ کی مخلوق کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے ” ، وہ معلم الخیر “۔ یعنی خیر کی تعلیم دینے والا ہو اور ” نفاع “ یعنی بہت زیادہ نفع پہنچانے والا ہو ، صاحب کرامت ومعجزات ہو ، یہ سب چیزیں برکت میں داخل ہیں ، اصل میں برکت دہندہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جیسے فرمایا حضرت مریم (علیہ السلام) تبرک الذی بیدہ والمک “۔ (الملک۔ 1) بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ میں بادشاہی ہے نیز فرمایا (آیت) ” فتبرک اللہ احسن الخلقین “۔ (مومنون ۔ 14) بابرکت ہے اللہ کی ذات جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے بہرحال مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے بابرکت بنایا ہے (آیت) ” این ما کنت “۔ میں جہاں کہیں بھی ہوں ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے برکت والا ہوں ۔ (نماز اور زکوۃ کی تاکید) پانچویں بات اللہ تعالیٰ نے بچے کی زبان سے یہ کہلوائی (آیت) ” واوصنی بالصلوۃ والزکوۃ “۔ اللہ نے مجھے نماز اور زکوۃ کی تاکید فرمائی ہے نماز اور زکوۃ دونوں عبادتیں ہیں ، ایک بدنی ہے اور دوسری مالی ، نماز سے تعلق باللہ قائم ہوتا ہے اور زکوۃ مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی کا ذریعہ ہے جب تک انسان بقید حیات ہے اسے نماز معاف نہیں البتہ زکوۃ اس وقت فرض ہوتی ہے جب کوئی شخص مالدار ہو اور اس کا مال نصاب کو پہنچ جائے ، حضرت مسیح (علیہ السلام) نے تو عمر بھر مکان نہیں بنایا ، نہ ان کے پاس مال واسباب تھا لہذا ان کے زکوۃ ادا کرنے کا تو امکان نہیں تھا البتہ زکوۃ ادا کرنے کی تعلیم آگے دی جاسکتی ہے تاکہ صاحبان نصاب اس کو ہر سال باقاعدگی سے ادا کرتے رہیں ، آگے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے متعلق بھی آتا ہے (آیت) ” وکان یامر اھلہ بالصلوۃ والزکوۃ “۔ (مریم ۔ 55) وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے تو اس جملے سے مسیح (علیہ السلام) کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ میں زکوۃ کی ادائیگی کی تلقین کرتا رہوں گا ، اس کے علاوہ نماز خود بھی پڑھونگا اور دوسروں کو بھی پڑھنے کا حکم دوں گا ، زکوۃ کا لغوی معنی طہارت اور پاکیزگی بھی ہوتا ہے اس لحاظ سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نماز پڑھنے اور پاکیزگی اختیار کرنے کی تاکید کی ہے اور میں یہ فریضہ بجا لاتا رہوں گا (آیت) ” مادمت حیا “۔ جب تک زندہ ہوں ۔ (والدین کے ساتھ حسن سلوک) عیسیٰ (علیہ السلام) نے بچپنے میں چھٹی بات یہ فرمائی (آیت) ” وبرا بولدتی “ میں اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرنے والا ہوں ، پہلے یحی (علیہ السلام) کے واقعہ میں گزر چکا ہے (آیت) ” وبرا بوالدیہ “۔ (آیت ۔ 14) کہ وہ اپنے ماں باپ دونوں کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور یہاں پر صرف والدہ کا نام ہے کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ ہی نہیں تھا ، چناچہ یہ آیت اس بات پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا ، اس کے باوجود بعض گمراہ منجملہ سرسید ، پرویز اور حافظ وزیر آبادی وغیرہ مسیح (علیہ السلام) کا باپ ثابت کرنے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی قدرت ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی اس لیے محض اپنے ڈھکوسلے چلاتے ہیں رہتے ہیں ۔ طبی لحاظ سے بھی کسی شخص کی باپ کے بغیر پیدائش ناممکن نہیں ماہرین طب کہتے ہیں کہ مراد اور عورت دونوں کے مادہ منویہ میں مثبت اور منفی دونوں قسم کے مواد پائے جاتے ہیں اور یہی چیز پیدا ہونے والے بچے میں جنس کی تفریق کرتی ہے ، اگر مرد کی منفی صفت عورت کی مثبت صفت کے ساتھ مل جائے تو بچی پیدا ہوتی ہے اور اگر عورت کی منفی صفت مرد کی مثبت صفت کے ساتھ مل جائے تو بچہ پیدا ہوتا ہے ، اور اگر اللہ تعالیٰ عورت کی مثبت قوت میں اضافہ کر دے تو بغیر مرد سے ملے بھی بچہ پیدا ہو سکتا ہے ، گویا طبی طور پر بھی بغیر باپ کے بچے کی پیدائش عقل سے بعید نہیں ۔ پھر اگلی بات مسیح (علیہ السلام) نے یہ فرمائی (آیت) ” ولم یجعلنی جبارا شقیا “۔ اور اللہ نے مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا ، میں ایسا شخص نہیں ہوں جو قول یا فعل سے والدین کی دل آزاری کروں ان کے ساتھ تلخ کلامی یا گالی گوچ پر اتر آؤں ، اس کے برخلاف انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے ، حقوق العباد میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے کہ ان سے حسن سلوک کیا جائے گذشتہ سورة بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے تیرے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو (آیت) ” وبالوالدین احسانا “۔ (آیت 23) اور والدین کے ساتھ احسان کرو ۔ (جدید تہذیب اور والدین) کتنے افسوس کی بات ہے کہ جدید تہذیب میں والدین کے حقوق بالکل فراموش کر دے گئے ہیں ، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بچے کی پیدائش کا موقع ہے تو عورت کو ہسپتال میں داخل میں داخل کر دو اور والدین بوڑھے ہوگئے تو انہیں دارالامان میں داخل کر دو ، اب اولاد والدین کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ یہ بات انسانی قدروں کے خلاف ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان شفقت و محبت کا رشتہ ختم ہو رہا ہے ، والدین کی خدمت کرنے سے انسان میں اعلی اخلاق پیدا ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے قدموں کے نیچے جنت رکھی ہے اس میں شک نہیں کہ جدید تہذیب نے بعد اچھے کام بھی کیے ہیں اور برے بھی مگر پاکیزہ اخلاق وجذبات کا تو جنازہ نکل چکا ہے ، اس تہذیب میں بوڑھے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی قدریں ختم ہوچکی ہیں حالانکہ اللہ نے اپنی وحدانیت کے بعد اسی بات کا حکم دیا ہے ۔ (مسیح (علیہ السلام) کے لیے سلامتی) مسیح (علیہ السلام) نے اپنی ماں کی گود میں یہ بھی کہا (آیت) ” والسلام علی یوم ولدت “۔ اور سلامتی ہے مجھ پر جس دن کو میں پیدا ہوا (آیت) ” ویوم اموت “۔ اور جس دن میں دنیا سے رخصت ہوں گا (آیت) ” ویوم ابعث حیا “۔ اور جس دن میں دوبارہ کھڑے کیا جاؤ گا ، انبیاء اور صالحین کے بارے میں سلامتی کا ذکر ہمیشہ ہوتا رہتا ہے ، ہر اچھے کام کی ابتداء میں (آیت) ” الحمد للہ وسلم علی عبادہ الذین اصطفی “۔ کہہ کر اللہ کی تعریف کی جاتی ہے اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے لیے سلامتی کی دعا مانگی جاتی ہے اللہ تعالیٰ ایسی ہستیوں کے دین اور ایمان کو ہر قسم کی آلودگی سے محفوظ رکھتا ہے ، اگرچہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو جسمانی تکالیف ضرور آتی ہیں مگر دینی اعتبار سے وہ ہمیشہ سلامتی میں ہوتے ہیں ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس آخری امت کا اولین حصہ سلامتی والا ہے ابتدائے اسلام میں اگرچہ اہل ایمان کو بیحد تکلیف برداشت کرنا پڑیں ، مگر ان کا دین مکمل طور پر سلامت رہا ، اس کے بعد جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ، فتنے ابھرتے رہے ، اخلاق ، بگڑ گئے ، عقیدہ خراب ہوگیا سوسائٹی گندی ہوگئی اور پورا ماحول بد سے بدتر ہوتا چلا گیا غرضیکہ حضور کے فرمان کے مطابق سلامتی کے اعتبار سے امت کا اول حصہ ہی بہتر تھا ، وہ کون سی تکلیف ہے جو اہل ایمان نے اسلام کے اولین دور مکی زندگی میں برداشت نہیں کی ، انہیں ایک لمحہ کے لیے بھی سکون نصیب نہ ہوا مگر دینی لحاظ سے انہیں سوفیصد سلامتی حاصل تھی ۔
Top