Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 113
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ١۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍ١ۙ وَّ هُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ كَذٰلِكَ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ١ۚ فَاللّٰهُ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا الْيَهُوْدُ : یہود لَيْسَتِ : نہیں النَّصَارٰى : نصاری عَلٰى : پر شَیْءٍ : کسی چیز وَقَالَتِ : اور کہا النَّصَارٰى : نصاری لَیْسَتِ : نہیں الْيَهُوْدُ : یہود عَلٰى : پر شَیْءٍ : کسی چیز وَهُمْ : حالانکہ وہ يَتْلُوْنَ : پڑھتے ہیں الْكِتَابَ : کتاب کَذٰلِکَ : اسی طرح قَالَ : کہا الَّذِیْنَ : جو لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے مِثْلَ : جیسی قَوْلِهِمْ : ان کی بات فَاللّٰہُ : سو اللہ يَحْكُمُ : فیصلہ کرے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ : دن الْقِيَامَةِ : قیامت فِیْمَا : جس میں کَانُوْا : وہ تھے فِیْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
یہودیوں نے کہا نصاری کسی چیز پر نہیں ہیں ، اور نصاری نے کہا کہ یہودی کسی چیز پر نہیں ہیں (یعنی ان کا دین صحیح نہیں ہے) حالانکہ یہ کتاب پڑھتے ہیں اسی طریقے سے ان لوگوں نے لوگوں نے کہی جو جانتے نہیں (جاہل ہیں) ان جیسی بات پس اللہ تعالیٰ ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کریگا ، ان باتوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں ۔
(یہود ونصاری آمنے سامنے) یہودیوں اور نصاری کی منجملہ خرابیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک گروہ دوسرے کو باطل قرار دیتا ہے اور اپنے آپ کو راہ راست پر سمجھتا ہے تیسرا گروہ مشرکین کا ہے جو یہود ونصاری دونوں کو باطل کہہ کر اپنے آپ کو صحیح العقیدہ سمجھتا ہے تو گویا یہود ونصاری ایک دوسرے کا ابطال کرتے ہیں ان آیات میں اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے (آیت) ” وقالت الیھود لیست النصری علی شیئ “۔ یہودی کہتے ہیں کہ نصرانی کسی چیز پر نہیں ہیں (آیت) ” وقالت النصری لیست الیھود علی شیئ “۔ اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی کسی چیز پر نہیں ہیں یعنی ان کا دین سچا نہیں ہے ، اس طرح جب یہ اکھٹے ہوتے ہیں تو آپس میں دست و گریبان ہوتے ہیں ، یہودیوں کا اعتراض یہ ہے کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہہ کر کفر کیا ، اور عیسائیوں کا نظریہ یہ ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو یہودیوں نے نہ صرف ان کا انکار کیا ، بلکہ انجیل کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا ، لہذا یہ گمراہ ہوئے فرمایا یہ دونوں فرقے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں (آیت) ” وھم یتلون الکتب “۔ حالانکہ یہ دونوں گروہ ہی اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی تورات اور انجیل کی تلاوت کرتے ہیں اس کے باوجود ان میں اس قدر اختلاف پایا جاتا ہے ۔ (کتب سماویہ برحق ہیں) حقیقت یہ ہے کہ توراۃ انجیل ، زبور ، قرآن پاک اور دیگر صحائف سب کے سب برحق ہیں اللہ تعالیٰ نے اصل دین انہی کتب کے ذریعے نازل فرمایا ، مگر ان بدبختوں نے تحریف کرکے دین کو مسخ کردیا تاہم اصل دین ان کی کتابوں میں اب بھی موجود ہے جنہیں یہ پڑھتے ہیں ، لہذا کسی کتاب کا بالکل انکار کردینا کہ اس میں کچھ بھی نہیں انصاف کے خلاف ہے اور اہل کتاب کی ہٹ دھرمی کی دلیل ہے ہاں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہودیوں کا اصل دین تو ٹھیک تھا ، مگر انہوں نے خرابیاں پیدا کردیں ، یانصاری کا دین اور کتاب برحق ہے مگر ان کی تحریفات نے اسے کچھ اور بنا دیا ہے ایک دوسرے مذہب کو بالکل ہی باطل قرار دینا درست نہیں ۔ (حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر الزام تراشی) جب قرآن پاک نازل ہوا تو اس نے توراۃ اور انجیل کی تصدیق کی کہ یہ دونوں آسمانی کتابیں ہیں ، انہیں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ، اس کے علاوہ تمام صحف سماویہ کی بھی تصدیق کی البتہ قرآن پاک نے ان مقامات کی ضرور نشاندہی کی جہاں جہاں سے یہ لوگ بھٹکے ہیں اور جہاں جہاں انہوں نے کتب میں تحریف کی ہے ، پہلے گذر چکا ہے کہ یہودیوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف کفر کا کلمہ منسوب کیا ، اور کہا کہ ان کی سلطنت سحر پر قائم تھی ، لہذا ہم بھی ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سحر کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” وما کفر سلیمن “۔ یعنی سلیمان (علیہ السلام) نے جادو کر کے کفر کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود کفر کا ارتکاب کیا ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کے صاحب شریعت رسول تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیمثال حکومت عطا کی تھی ، ان سے سحر کی توقع کرنا بعید از قیاس ہے ، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی (آیت) ” رب اغفرلی وھب لی ملکا لاینبغی لاحد من بعدی “۔ یا اللہ ! مجھے ایسی سلطنت عطا کر جو میرے بعد کسی کو عطا نہ ہو ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو شرف قبولیت بخشا اور آپ کے لیے ہوا اور جنات کو مسخر کردیا ، مگر ان ظالموں نے سمجھا کہ یہ جادو کا اثر ہے ، العیاذ باللہ ۔ (مشرکین کا نظریہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ادھر مشرکین کا حال بھی یہود ونصاری سے کم نہیں ، (آیت) ” کذلک قال الذین لا یعلمون مثل قولھم “۔ عرب کے مشرکین بھی وہی بات کرتے ہیں ، جو اہل کتاب نے کی یہ کہتے ہیں کہ نہ یہود ونصاری حق پر ہیں اور نہ مسلمان حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ کچھ بھی نہیں جانتے ، یہ تو جاہل مطلق ہیں ، نہ ان کے پاس کوئی کتاب ہے جس سے یہ راہنمائی حاصل کرسکیں اور نہ ہی دو (2) ہزار سال کے عرصہ میں ان کے پاس کوئی نبی آیا ہے حضرت اسمعیل کے بعد تقریبا ڈیڑھ ہزار سال تک عرب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین پر قائم رہے ، اس کے بعد ان میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوا ، اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ سب کے سب شرک کی طرف مائل ہوگئے ، ہزاروں میں سے کوئی اکا دکا ہی موحد ملتا تھا ، ورنہ سب دین سے ہٹ چکے تھے ۔ (آخری فیصلہ عدالت الہی میں ہوگا) الغرض ! یہود ونصاری اور مشرکین تینوں گروہوں نے ایک دوسرے کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جو کچھ چاہے کہتے اور کرتے رہیں (آیت) ” فاللہ یحکم بینھم یوم القیمۃ “۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا کہ کون حق پر ہے اور کون اصل دین سے پھر چکا ہے ، ان کا فیصلہ ہر اس معاملہ میں ہوجائے گا ۔ (آیت) ” فیما کانوا فیہ یختلفون “۔ جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں فرمایا ان کے درمیان قطعی فیصلہ تو قیامت کو ہوگا تاہم جہاں تک ہدایت اور گمراہی کا تعلق ہے تو اس کے متعلق اسی سورة میں آگے آ رہا ہے : (آیت) ” قد تبین الرشد من الغی “۔ ہدایت اور گمراہی بالکل واضح ہوچکی ہیں دنیا میں حق کے متلاشی کے لیے اللہ تعالیٰ بیشمار ذرائع پیدا فرما دیے ہیں ، وہ حق وصداقت کی پہچان کرسکتا ہے ، سورة انفال میں ہے (آیت) ” ویحی من حی عن بینہ “۔ جو ہلاک ہوا وہ بھی واضح دلیل کے کے ساتھ اور جو زندہ ہے وہ بھی واضح دلیل کے ساتھ زندہ ہے حق و باطل کی تفریق ہوچکی ہے جنگ بدر کے مقتولین یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے پاس واضح دلیل نہیں آئی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا نبی آیا ، اللہ تعالیٰ کی کتاب آئی مگر انہوں نے انکار کر کے مقابلہ کیا اور ہلاک ہوئے ۔ مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں باعتبار دلیل ، عقل ، دستور اور قانون ہدایت اور گمراہی کو بالکل واضح کردیا ہے ، اب کسی کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا ، تاہم قطعی اور اٹل فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہوگا بخاری شریف میں حضرت علی ؓ سے مروی ہے (1) (بخاری ص 565 ، ج 2) ” ان اول من یحبثو بین یدی الرحمن “۔ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن میں گھٹنے ٹیک کر رحمن کے سامنے بیٹھوں گا اور درخواست کروں گا کہ اے پروردگار ! آپ ان بدر والوں سے پوچھیں کہ یہ ہم سے کیوں لڑے تھے گویا اس دن حق و باطل کے تمام فیصلے اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہوں گے ، اسی طرح ایک دوسرے کو باطل فرقہ کہنے والوں کا فیصلہ بھی اسی روز ہوگا ۔ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کی تفریق کے لیے تمام حجت پوری کردی ہے امام بیضاوی (رح) (آیت) ” اھدنا الصراط المستقیم “۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں (2) (تفسیر بیضاوی ص 7۔ ج 1) کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل وخرد عطا کی ، انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام مبعوث فرمائے کتابیں نازل فرمائیں اب کون سا عذاب باقی رہ گیا ہے ، قیامت کو کون کہے گا ما (آیت) ” ما جآء نا من بشیر ولا نذیر “۔ کہ ہمارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا ، اب تو بشیر ونذیر آچکے ، لہذا قیامت کے دن کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا ، حضرت زبیر ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا تھا ۔ ” اتکرعلینا الخصومۃ “۔ حضرت ! قیامت کو ہمارا اور ان کا جھگڑا دوبارہ قائم ہوگا یہ فرمایا (1) (ترمذی ص 466 ، تفسیر ابن کثیر ص 52 ، ج 4) ہاں ! جن تنازعات کا فیصلہ دنیا میں نہیں ہوا ، ان کا فیصلہ رب العزت کی بارگاہ میں ضرور ہوگا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا یہ تینوں فرقے یعنی یہود نصاری اور مشرک جو ایک دوسرے کو گمراہ کہتے ہیں یہ خود سارے کے سارے گمراہ ہیں ، یہودیوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ماننے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ انہیں دجال کہا اور جب قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دوبارہ دنیا میں نزول فرمائیں گے ، تو اصفہان کے ستر ہزار یہودی جن میں ان کے بڑے بڑے علماء بھی ہوں گے اور پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماننے کی بجائے دجال کے پیچھے لگیں گے اور اس کو مسیح سمجھیں گے یہی لوگ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو (العیاذ باللہ) دجال سمجھ کر انہیں سولی پر لٹکانے کیلے لے گئے ، ان کم بختوں کا یہ حال ہے ۔ (تحویل قبلہ) جب حضور ﷺ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو سولہ (16) یا (17) سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے ، مقصد یہود کی دلجوئی تھی ، تاکہ وہ مسلمانوں کے قریب ہوں اور دین کی طرف راغب ہو سکیں ، تحویل قبلہ کی آیات قرآن پاک کے دوسرے پارہ کی ابتداء سے شروع ہوتی ہیں ، مگر اس معاملے میں بھی یہودیوں نے ہٹ دھرمی کا ثبوت دیا ، اپنے تعصب میں مبتلا رہے ، اور مسلمانوں کے قریب نہ آئے ، چونکہ حضور ﷺ کی دلی خواہش یہی تھی کہ مسلمانوں کے لیے بیت اللہ قبلہ مقرر ہو لہذا اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں تحویل قبلہ کا حکم دے دیا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں اسی طرح یہودی اپنی ضد اور عناد کی وجہ سے اسلام سے اور دور ہوگئے ۔ (عبادت میں رکاوٹ) الغرض ! اللہ تعالیٰ نے ان برائیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ اس قدر عنادی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو عبادت کرنے سے بھی روکتے ہیں ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعی فی خرابھا “۔ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے روکتا ہے اور ان کی بربادی کی کوشش کرتا ہے حضرت مولانا شیخ الہند (رح) فرماتے ہیں (1) (حاشیہ قرآن مترجم ص 22 ، مطبوعہ دارالتصنیف کراچی) کہ اس آیت کے مصداق نصاری ہیں ، جنہوں نے یہود کا مقاتلہ کرکے توراۃ کو جلایا تھا ، اور بیت المقدس کو ویران کیا تھا ، یہ آیت مشرکین مکہ پر بھی صادق آتی ہے ، جنہوں نے 6 ھ میں مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیا تھا ، اور حرم پاک میں عمرہ ادا نہیں کرنے دیا تھا حالانکہ مسلمان محض عمرے کی ادائیگی کے لیے آئے تھے ، ان کا لڑائی کرنے کا ارادہ نہیں تھا ، یہ تو اس وقت کے واقعات ہیں یہ آیت آج بھی اسی طرح نافذ ہے جس طرح یہ اپنے نزول کے وقت تھی آج بھی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے روکتا ہے مسجد کی بربادی کا باعث بنتا ہے وہ اس آیت کی رو سے بہت بڑا ظالم ہے ۔ یہودی اور نصرانی ہمیشہ ایک دوسرے کو مساجد میں جا کر عبادت کرنے سے روکتے رہے ہیں ، تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی یہود کو موقع ملا انہوں نے نصاری کے ساتھ یہی سلوک کیا ، اور جب نصاری کو غلبہ حاصل ہوا ، تو ان ظالموں نے بیت المقدس کو اکھاڑ دیا تورات کو نذر آتش کیا اور عبادت خانوں کو برباد کیا ، مشرکین مکہ نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا ، مکی زندگی میں حضور ﷺ خانہ کعبہ میں نماز ادا نہیں کرسکتے تھے ، مشرکین مسلمانوں کو سخت اذیتیں دیتے تھے ، حضرت ابوذر غفاری ؓ کی پٹائی کا ذکر بخاری شریف میں موجود ہے (2) (بخاری ص 545 ، ج 1۔ مسلم ص 297 ، ج 2) ۔ ابوجہل کی حرکات کا ذکر خود قرآن پاک نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے (3) (بخاری ص 740 ، ج 2) (آیت) ” ارء یت الذی ینھی “۔ عبدا اذا صلی “۔ کیا تم نے اس بدبخت شخص کو دیکھا جو اللہ تعالیٰ کے بندے کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے ۔ دوسرے مقام پر جھوٹے مدعی نبوت کو بڑا ظالم کہا گیا ہے ، کہ اس سے بڑا کوئی ظالم ہو سکتا ہے ، جو نبوت کا جھوٹا دعوی کرتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اس سے بڑا کون ظالم ہے جس کے پاس خدا تعالیٰ کا نبی آئے ہدایت کی بات پیش کرے اور وہ اس سے انکار کر دے ۔ تاہم اس مقام پر ظالم کی تعریف یہ کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اس کی مساجد میں عبادت کرنے سے ، نماز پڑھنے سے روکتا ہے یہ تو ظاہری رکاوٹ ہے کہ کسی کو عبادت کرنے سے روک دیا جائے ، یہ عبادت خانے کی بربادی کے مصداق ہے ، اس کے علاوہ ایک باطنی بربادی بھی ہے کہ وہاں پر غیر اللہ کی پرستش کی جائے ، بدعات کو فروغ دیا ، ایسا کرنے سے بظاہر تو عبادت خانہ آباد ہوگا ، مگر باطنی طور پر ہدایت سے خالی ہوگا اور یہ باطنی خرابی ہے ۔ (تمام عبادت خانے قابل تعظیم ہیں) سورة حج میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عبادت خانہ یہود کا ہو یا نصاری یا کسی اور کا اسے گرانے کا حکم نہیں ہے ، مسلمانوں کی مساجد کا بھی یہی حکم ہے ان کو گرانے یا ان کی بےحرمتی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ، مگر دیکھ لیجئے 1947 ء میں تقسیم ہند کے وقت کیا کچھ ہوا ، مشرقی پنجاب میں پچاس ہزار مساجد کی بیحرمتی ہوئی ، ہندؤں اور سکھوں سے کیا توقع کی جاسکتی تھی ادھر مغربی پنجاب میں بھی یہی کچھ ہوا کتنے مندر تھے جنہیں تباہ وبرباد کردیا گیا ، دونوں فریقوں نے غلط کام کیا عبادت خانے خواہ کسی سے متعلق ہوں ان کی بیحرمتی نہیں ہونی چاہئے ۔ ظہور اسلام کے وقت جو عرب قبائل شرک سے تائب ہو کر ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے انہوں نے اپنے مندر اور بہت خانے خود گرا دیے تھے اور وہاں پر مسجدیں تعمیر کی تھیں (1) (سنن نسائی ص 114۔ ج 1) یہاں تک تو درست ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ہی تعمیر کردہ معاہد کی جگہ مسجدیں تعمیر کرلیں عبادت خانے کی جگہ عبادت خانہ ہی تعمیر ہوا ، تاہم مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانے میں بھی غیر مسلم اقوام کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچایا ، محمد بن قاسم جب سندھ پر حملہ آور ہوا تو ہندوؤں کے بعض مندروں کو نقصان پہنچا تھا مسلمانوں نے خود اس نقصان کی تلافی کی ، اور نقصان زدہ مندروں کو دوبارہ تعمیر کروایا کیونکہ کسی کے عبادت خانے کو گرانے کا حکم ہرگز نہیں ہے ۔ البتہ سلطان محمود غزنوی (رح) نے سومنات کے مندر کو گرا کر کوئی اچھا کام نہیں کیا تھا وقتی طور پر وہاں مسجد بھی بنا دی ، مگر وہ دیرپا ثابت نہ ہوئی ایک ہزار سال کے بعد ہندوؤں نے پھر وہاں پر مندر تعمیر کیا ، راجند پر شاد نے سوا لاکھ روپے کے عوض کابل سے مندر کا گیٹ بھی واپس منگوا کر اسی جگہ نصب کیا ، جہاں سے اکھاڑا گیا تھا ، ظاہر ہے کہ غلط کام کا نتیجہ کبھی صحیح نہیں ہو سکتا ۔ ترکوں نے بھی اپنے دور میں ابا صوفیہ کا گرجا گرا کر وہاں مسجد تعمیر کرلی ، جب انگریز کو وہاں غلبہ حاصل ہوا تو وہاں پر گرجا بنا ، اب چیختے ہیں کہ ہماری مسجد تھی ، بہت بڑی لائبریری تھی جو ضائع ہوگئی مگر جس طرح تم نے کیا ، اسی طرح کا جواب انہوں نے دیا اب چیخنے چلانے کا کیا مطلب ، وہاں اگر عیسائی خود مسلمان ہو کر اپنے گرجا کو مسجد میں تبدیل کردیں ، تو وہ جائز ہے مگر کسی کے عبادت خانے کو زبردستی گرانا بالکل نامناسب ہے ۔ (مسجد کے آداب) جس طرح مسجد کا ظاہری طور پر پاک صاف رکھنا ضروری ہے ، اسی طرح مسجد کو باطنی خرابی سے محفوظ رکھنا بھی اہل اسلام کی ذمہ داری ہے ، باطنی خرابی یہ ہے کہ مسجد کو اس کے اصل مقصد کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کیا جائے مسجد عبادت خانہ ہے اس میں نماز ، تلاوت ، ذکر و اذکار ہونا چاہئے ، نہ کہ دنیا کے دوسرے کاروبار ، اسی لیے حضور ﷺ نے مسجد میں حد قائم کرنے سے منع فرمایا ہے (1) (ابوداؤد ص 261۔ ج 2) مسجد میں کسی مقدمے کا فیصلہ تو وہ سکتا ہے مگر ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی کہ اس سے مسجد کی بیحرمتی ہوتی ہے مسجد میں لڑائی جھگڑا کرنا ، فحش کلامی گالی گلوچ کرنا ، گندگی پھینکنا ، تجارت یا لین دین کرنا ، یہ سب مسجد کے آداب کے خلاف ہے حضور ﷺ نے گمشدہ چیز کا مسجد میں اعلان کرنے سے منع فرمایا (2) (ترمذی ص 74) بلکہ فرمایا کہ جو شخص میں مسجد گمشدگی کا اعلان کرے ، اس کے حق میں یوں دعا کرو ، کہ اللہ تعالیٰ تیری چیز تجھے واپس نہ لوٹائے (3) (مسلم ص 210 ۔ ج 1) تو نے آداب مسجد کا خیال نہیں رکھا اسی طرح فرمایا (4) (ترمذی 22 ، دارمی ص 266۔ ج 1) کہ مسجد میں تجارت کرنے والے کے حق میں کہو کہ اللہ تعالیٰ تجھے اس تجارت میں نفع نہ دے ۔ مسجد میں شعر گوئی سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ (5) (ترمذی ص 74) ہاں البتہ اگر کوئی اچھی بات کہتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تعریف کرتا ہے تو جائز ہے ایسی شعر گوئی حضور ﷺ کے صحابی حضرت حسان بن ثابت ؓ سے منقول ہے (6) ( ترمذی ، 74) موجودہ زمانے کی طرح مسجد میں ہر قسم کی شعر گوئی کی اجازت نہیں جس میں عشقیہ غزلیں گائی جاتی ہیں ، حضور ﷺ نے تناشد الاشعار سے منع فرمایا مسجد کی بےادبی کے بعض دوسرے ذرائع سے بھی کیا گیا ہے مثلا ابن ماجہ شریف کی روایت کے حضور نے فرمایا (1) (ابن ماجہ ص 54 ، مجمع الزوائد ص 26 ج 2 ، بحوالہ طبرانی) کہ چھوٹے بچوں یا کسی پاگل کو مسجد میں نہ آنے دو ، وہ مسجد کی بیحرمتی کا باعث بن سکتے ہیں چھوٹا پر پیشاب پاخانہ وغیرہ کر دے گا ، وہ ابھی شعور نہیں رکھتا ہاں جب بچہ پانچ سات سال کا ہوجائے تو مسجد میں آسکتا ہے ۔ الغرض ! فرمایا اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے سے منع کرتا ہے ، اور مسجدوں کی بربادی کے لیے کوشش کرتا ہے ، فرمایا (آیت) ” اولیک ما کان لھم ان یدخلوھا الا خائفین “۔ ان لوگوں کا اصل میں حق ہی نہیں ہے کہ وہ مسجدوں میں داخل ہوں مگر خوف کھاتے ہوئے یعنی کفار اس لائق ہی نہیں کہ مسجدوں میں داخل ہوں ، سوائے اس کے کہ وہ خوفزدہ ہوں ۔ (خشوع و خضوع) (آیت) ” الا خائفین “۔ کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسجد میں خشوع و خضوع کے علاوہ کوئی بات نہیں کرنی چاہئے آواز کو بلند کرنا قیامت کی نشانیوں میں سے بتایا گیا ہے (2) (ترمذی 322) مسجد میں چیخ و پکار اور ایسی ایسی دنیوی باتیں کرنے کی ممانعت ہے حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ، (3) (ترمذی ص 505) ” اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا “۔ جب تم جنت کے باغوں میں جاؤ تو وہاں چرچگ لیا کرو ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا حضور ! اس سے کیا مراد ہے ، فرمایا جب تم مسجد میں جاؤ تو وہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو ، اس کی تسبیح وتہلیل بیان کرو ، تلاوت کرو ، درود پاک کا ورد کرو معتکف ہو کر خاموشی سے بیٹھو ، اگر اعتکاف کی نیت کرکے بالکل خاموش بھی بیٹھے گا ، تو باہر کی باتوں اور کئی گناہوں سے بچے گا اور اللہ تعالیٰ سے اجر بھی پائے گا مگر لوگ اکثر ایسا نہیں کرتے مسجد میں فضول گپیں مارتے ہیں خشوع و خضوع سے محروم رہتے ہیں ۔ حدیث شریف میں آتا ہے (4) (سنن دارمی ص 75۔ ج 1) کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب خشوع و خضوع اٹھ جائے گا آپ ایک بڑی مسجد میں داخل ہوں گے وہاں پانچسو آدمی موجود ہوں گے ، مگر ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جس کے چہرے پر خشوع وعاجزی کے آثار نظر آتے ہوں سب فضول حرکات میں مصروف ہوں گے ۔ فرمایا جو شخص مساجد میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے روکتا ہے اور مسجد کی بربادی چاہتا ہے (آیت) ” لھم فی الدنیا خزی “۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے (آیت) ” ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم “۔ اور ان کے لیے آخرت میں بھی سخت عذاب ہوگا ۔ (استقبال قبلہ) اہل ایمان کو مکہ چھوڑنے کا بڑا دکھ تھا پھر وہ بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دی ، (آیت) ” وللہ المشرق والمغرب “۔ مشرق اور مغرب سب کچھ اللہ ہی کا ہے ، (آیت) ” فاینما تولوا “۔ تم جدھر بھی رخ کرو گے (آیت) ” فثم وجہ اللہ “۔ تم اللہ کی توجہ ادھر ہی پاؤ گے ، لہذا تم کسی قسم کی گھبراہٹ محسوس نہ کرو اللہ تعالیٰ ہر وقت تمہارے ساتھ ہے ۔ استقبال کعبہ کے متعلق حدیث شریف میں آتا ہے کہ سفر کے دوران اندھیری رات یا طوفان بادوباران میں اگر قبلہ کا رخ معلوم نہ ہوتا۔ تو ہر شخص جس طرف رخ ہوتا اسی طرح نماز ادا کرلیتا ، ترمذی شریف میں آتا ہے ۔ (1) (ترمذی ص 420) کہ ایسا ہی کوئی واقعہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو پیش آیا جب حضور ﷺ کو پتا چلا تو یہی آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” فاینما تولوا فثم وجہ اللہ “۔ یعنی تم نے جس طرف بھی رخ کر کے نماز پڑھی ہے ، سب کی نماز درست ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے ، اگر قبلہ کا رخ درست نہیں تھا تب بھی نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔ جب کوئی آدمی سواری پر سفر کر رہا ہو ، تو جس طرف بھی وہ جا رہا ہے اسی طرف نفلی نماز ادا کرسکتا ہے (2) (ہدایہ ص 98 ج 1 ، درمختار ص 98 ، ج 1 ، قدوری ص 48) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین فرماتے ہیں (3) (ترمذی 421) کہ ایک موقع پر حضور ﷺ سفر پر تھے ، اگرچہ آپ کا رخ مبارک قبلہ کی طرف نہیں تھا ، پھر بھی آپ نفلی نماز ادا کرلیتے تھے ، تو ایسے ہی مواقع کے لیے فرمایا کہ تمہارا رخ جس طرف بھی ہو ، اللہ تعالیٰ ادھر ہی متوجہ ہے (آیت) ” ان اللہ واسع علیم “۔ اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور سب کو جاننے والا ہے وہ ہر شخص کو اس کے حالات کے مطابق بدلہ عطافرمائے گا ۔
Top