Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 26
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ١ۚ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا١ۘ یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًا١ۙ وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا١ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللہ : اللہ لَا يَسْتَحْيِیْ : نہیں شرماتا اَنْ يَضْرِبَ : کہ کوئی بیان کرے مَثَلًا : مثال مَا بَعُوْضَةً : جو مچھر فَمَا : خواہ جو فَوْقَهَا : اس سے اوپر فَاَمَّا الَّذِیْنَ : سوجولوگ آمَنُوْا : ایمان لائے فَيَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں اَنَّهُ : کہ وہ الْحَقُّ : حق مِنْ رَبِّهِمْ : ان کے رب سے وَاَمَّا الَّذِیْنَ : اور جن لوگوں نے کَفَرُوْا : کفر کیا فَيَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں مَاذَا : کیا اَرَادَ - اللّٰهُ : ارادہ کیا - اللہ بِهٰذَا : اس سے مَثَلًا : مثال يُضِلُّ : وہ گمراہ کرتا ہے بِهٖ : اس سے کَثِیْرًا : بہت لوگ وَيَهْدِی : اور ہدایت دیتا ہے بِهٖ : اس سے کَثِیْرًا : بہت لوگ وَمَا : اور نہیں يُضِلُّ بِهٖ : گمراہ کرتا اس سے اِلَّا الْفَاسِقِیْنَ : مگر نافرمان
بیشک اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا اس بات سے کہ بیان کرے مثال مچھر کی یا اس سے بڑی ۔ بہرحال جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ان کے رب کی طرف سے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ، پس وہ کہتے ہیں کہ ارادہ کیا اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ساتھ ؟ اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے اس کے سبب سے بہتوں کو اور ہدایت دیتا ہے اس کے سبب سے بہتوں کو۔ اور نہیں گمراہ کرتا اس کے سبب سے مگر فاسقوں کو
گزشتہ سے پیوستہ : پچھلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حقانیت ، صداقت اور اس کے منزل من اللہ ہونے اور حضور ﷺ کی رسالت کا ذکر کیا تھا۔ اس سے پہلے توحید اور ردشرک کے متعلق بیان تھا۔ لوگوں کے اس خیال کی تردید تھی کہ یہ قرآن خدا تعالیٰ کا کلام نہیں۔ بلکہ پیغمبر (علیہ السلام) کا اپنا وضع کردہ ہے۔ اور پھر اس ضمن قرآن پاک کے چیلنج کا ذکر تھا۔ کہ اگر تمہیں اس کے منزل من اللہ ہونے میں کسی قسم کا شک و بہ ہے۔ تو اس جیسی ایک ہی سورة بنا کر لاؤ۔ اس کے ساتھ پی گوئی کردی گئی تھی کہ قیامت تک تم اس قرآن کی مثل نہیں لاسکو گے لہٰذا یاد رکھو کہ جب ایسا کلام پیش کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے تو پھر اس کلام سے انکار کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم ایسی دوزخ میں ڈالے جاؤ گے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس کے ساتھ ایمان والوں کو بشارت تھی کہ آخرت میں وہ کامیاب ہوں گے اور ان کا انجام نہایت اچھا ہوگا۔ حقیر چیزوں کی مثالیں : کفار قرآن پاک کے متعلق یہ اعتراض پیش کرتے تھے کہ اس میں بعض چھوٹی چھوٹی اور حقیروں چیزوں کا ذکر ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے کلام کے شایان شان نہیں۔ کہیں مکھی کا ذکر ہے اور کہیں مکڑی کا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اس کا کلام بھی بہت اعلیٰ باتوں پر مشتمل ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ ایک عام محاورہ ہے “ کلام الملوک ملوک الکلام ” یعنی بادشاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بلندو برتر ہے۔ اسی طرح اس کا کلام بھی اعلیٰ وارفع ہونا چاہئے۔ اس میں مکھی ، مچھر جیسی ادنیٰ چیزوں کا ذکر نہیں ہونا چاہئے۔ اس اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ ان اللہ لا یستحی ان یضرب مثلا ما بعوضۃ فما فوقھا ” یعنی اللہ تعالیٰ کی شان اور عظمت کے یہ ہرگز منافی نہیں کہ وہ مچھر یا اس سے کسی بڑی چیز کی مثال بیان فرمائے۔ کیونکہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں انسانوں کے سمجھانے کے لیے بیان کی جاتی ہیں۔ یہ تو بعض لوگوں کی عقل یا انکے عرف کی کمزوری کی دلیل ہے کہ وہ بعض حقیر چیزوں کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھتے۔ مگر حکمت کے اصول کے تحت ایسی چیزوں کے بیان کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی کسی سے خوفزدہ ہو کر یا کسی کو خوش کرنے کے لیے کسی چیز کا بیان روکا جاسکتا ہے۔ حقیر چیزوں میں بڑے مفید پہلو بھی ہوتے ہیں قرآن پاک میں مکھیوں اور مکڑی کا ذکر ہے۔ اور ان کی مثال دے کر بڑی مفید باتیں سمجھائی گئی ہیں لہٰذا ایسی مثالوں کے ترک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس قسم کی مثالیں اکثر حکماء کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔ خود عرب کہتے ہیں “ ما البق وشحمہ ” یعنی کیا مچھر اور کیا اس کی چربی۔ اسی طرح “ ما الجر ادوطعمہ یعنی کیا ٹڈی اور کیا اس کا گوشت وغیرہ۔ حضور ﷺ نے بھی تفہیم حقیقت کے لیے مثال بیان فرمائی ہے۔ مسند احمد ، ابن ماجہ اور ترمذی شریف میں یہ الفاظ موجود ہیں (1 ۔ مسند احمد ، ابن ماجہ ص 302 ، ترمذی ص 337) “ لوکانت الدنیا تزن عند اللہ جناح بعوضۃ ما سقی کافرا منھا قطرۃ ابدا ” یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کی قدروقیمت ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی کبھی بھی عطا نہ فرماتے۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا نافرمان ہے۔ یہ مچھر کی مثال آپ نے اس لیے بیان فرمائی کہ ساری دنیا کی قیمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی بھی نہیں جتنی مچھر کے ایک پر کی ہوتی ہے۔ اسی لیے تو کفار اس دنیا میں آرام و عی کی زندگی بسر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کچھ نہیں آخرت میں جب ان کا حساب کتاب پیش ہوگا تو سخت سزا میں مبتلا ہوں گے۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے (2 ۔ بخاری ج 1 ص 66 ، مسلم ج 1 ص 146) کہ ام سلیم ؓ نے حضور ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا اور تمہید کے طور پر عرض کیا “ ان اللہ لا یستحی من الحق ” یعنی اللہ تعالیٰ تو حق بات سے نہیں شرماتے۔ میں آپ سے مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہوں ۔ کیا عورت کو بدخوابی ہوجائے تو اس پر غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں حضور ﷺ نے فرمایا “ نعم یا ام سلیم اذا ذات المآء ” ہاں جب مادہ خارج ہوجائے تو اس پر غسل آتا ہے۔ جس طرح مرد کو احتلام ہوتا ہے اسی طرح عورت کو بھی بدخوابی ہوتی ہے۔ الغرض اس حدیث میں بھی یہی الفاظ آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق بات کو ظاہر کرنے سے نہیں شرماتا۔ حیا کی مختلف قسمیں : حیا انسان کی اس انکساری اور شکستگی کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی شخص قبیح امور سے باز آجاتا ہے ۔ حیا انسانوں سے بھی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ سے بھی ہوتی ہے۔ اسی لیے جب کوئی شخص برائی کا ارادہ کرتا ہے۔ تو وہ چھپ کر کرتا ہے۔ کیونکہ اسے انسانوں سے حیا آتی ہے کہ اگر وہ دیکھ لیں گے تو کیا ہوگا۔ خدا تعالیٰ اگرچہ نظر نہیں آتا۔ مگر جب یہ یقین ہوجائے کہ اس کی نظر سے کوئی فعل پوشیدہ نہیں ہے تو پھر ذرہ بھر بھی خوف خدا رکھنے والا شخص فعل قبیح کے ارتکاب کے وقت اللہ تعالیٰ سے حیا کرے گا۔ اگرچہ کوئی دوسرا انسان اس کو نہ دیکھ رہا ہو۔ حیا کی ایک قسم حیا عبودیت ہے۔ ایک عابد و زاہد اپنی تمام قویٰ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کرنے کے باوجود یہی سمجھتا ہے کہ وہ اس کی عبادت کا حق ادا نہیں کرسکا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جس قدر انعامات کئے ہیں اگر وہ ساری عمر بھی عبادت میں لگا دے یعنی پیدائش کے وقت ہی اللہ تعالیٰ اس کو فہم عطا کرے اور سجدے میں گر جائے اور ساری عمر اسی ایک سجدہ میں گزار دے۔ اور وہیں اس کی موت آجائے۔ تو وہ بارگاہ رب العزت میں عرض کریگا۔ کہ مولا کریم ! میں تیری عبادت کا حق ادا نہیں کرسکا۔ حیا عبودیت اسی چیز کا نام ہے۔ حیا خود اپنے نفس سے بھی ہوتی ہے جب اسے کوئی شخص دیکھنے والا نہ ہو تو بعض اوقات انسان خود اپنے جی میں شرم محسوس کرنے لگتا ہے۔ کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کسے دھوکا دے رہا ہوں۔ یہ نفس کی حیا ہے۔ حیا کی ایک قسم حیا کرم ہے۔ خود خصور نبی کریم ﷺ کا واقعہ ہے کہ آپ نے بعض صحابہ ؓ کو کھانے پر بلایا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد وہ لوگ وہیں بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے۔ یہ چیز حضور ﷺ کو ناگوار گزری مگر آپ نے حیاء کرم کی وجہ سے انہیں زبان مبارک سے کچھ نہ کیا بلکہ اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ یہ لوگ بھی چلے جائیں۔ مگر وہ بیٹھے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ حتیٰ کہ حضور ﷺ پھر تشریف لے آئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں۔ کہ جب نبی (علیہ السلام) کے گھر پر کھانا کھانے کے لیے جاتے ہو تو وہاں بیٹھ کر بات چیت میں وقت نہ گزارو۔ اللہ تعالیٰ کا نبی تو حیا کرم کی وجہ سے تمہیں نہیں کہتا۔ مگر تم خود ہی احساس کرو۔ اور کھانا کھا کر واپس چلے جایا کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ ہدایت اور گمراہی : فرمایا جب اللہ تعالیٰ اس قسم کی مثالیں بیان فرماتے ہیں تو مومن اور کافر پر ان کے مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ “ فاما الذین امنوا فیعکمون انہ الحق من ربھم ” ایماندار لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ چھوٹی چھوٹی مثالیں بےمعنی نہیں ہیں۔ بلکہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے ، ان کا بیان کرنا حکمت کے منافی نہیں۔ لہٰذا وہ اس سے برا نہیں مناتے “ واما الذین کفروا ” جن لوگوں نے کفر کیا “ فیقولون ” پس وہ کہتے ہیں “ ما ذا اراد اللہ بھذا مثلا ” اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ساتھ کیا ارادہ کیا ہے۔ وہ لوگ طعن کرتے ہیں۔ اور بطور استہزاء اور تحقیر کے کہتے ہیں کہ ایسی معمولی چیزوں کی مثال بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کو کیا حاصل ہوا۔ اگر مثال ہی بیان کرنا تھی تو کسی اعلیٰ چیز کی بیان کی ہوتی۔ مکھی اور مچھر کی مثال کی کیا حیثیت ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مثال کو معمولی چیز نہ سمجھو۔ کیونکہ “ یضل بہ کثیرا ” اللہ تعالیٰ اسی مثال کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے۔ ایسی بات بعض لوگوں کے ذہن میں فٹ نہیں بیٹھتی۔ جس کی وجہ سے وہ طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ نہ تو وہ حکمت کے اصولوں سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں کلام کی حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ لہٰذا فضول اعتراض پیش کرتے ہیں اور گمراہ ہوجاتے ہیں۔ فرمایا ایسی مثالیں صرف گمراہ ہی نہیں کرتیں بلکہ “ ویھدی بہ کثیرا ” اللہ تعالیٰ انہیں مثالوں کے ذریعے ہدایت بھی دیتا ہے۔ جو لوگ مثال کے ذریعے بات کو آسانی سے سمجھ جاتے ہیں ، وہ حقیقت کو پالیتے ہیں۔ لہٰذا ہدایت یافتہ ہوجاتے ہیں۔ فرمایا تاہم “ وما یضل بہ الا الفسقین ” یعنی گمراہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو فاسق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں ۔ کوئی ایمانداروں منصف مزاج اور حق کا طالب گمراہ نہیں ہوتا۔ فاسق کا معنیٰ : فسق کا معنی خروج یا باہر نکلنا ہے۔ عربی میں کہتے ہیں “ فسقۃ الرطبۃ عن قشرھا ” پھل اپنے چھلکے سے باہر آگیا یا کہتے ہیں “ فسقۃ النواۃ من الثمرۃ ” گٹھلی کھجور سے باہر نکل گئی۔ اسی اصطلاح میں فاسق اس شخص کو کہتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر نکل جاتا ہے۔ ریعت کے عرف میں فاسق دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے پہلے معنی میں فاسق اس شخص کو کہتے ہیں ۔ جس کے دل میں ایمان موجود ہے۔ مگر وہ اطاعت کی بجائے صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایسا شخص مسلمان ہے۔ اور اس کے متعلق امید ہے کہ اسے آخرت میں شفاعت نصیب ہوجائے گی۔ اور وہ نجات پاجائے گا۔ کیونکہ بہرحال وہ مسلمان ہے۔ مگر نافرمان ہے وہ نماز کو فرض سمجھتا ہے مگر پڑھتا نہیں۔ زکوٰۃ کو فرض جان کر ادا نہیں کرتا۔ گویا نیکی کو صحیح سمجھتے ہوئے اس کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ شریعت کی اصطلاح میں فاسق کہلاتا ہے۔ دوسری قسم کا فاسق وہ ہے جو کفر میں حد سے بڑھ جائے۔ سرکش ہوجائے۔ جیسا کہ اعتقادی منافقوں یا سخت کافروں کے متعلق فرمایا “ اولئک ھم الفسقون ” ان یہودیوں کو فاسق کہا گیا ہے۔ جو بڑے سرکش ، ضدی اور نافرمان ہیں اور کفر میں بڑے پکے ہیں۔ فاسق کے یہ دونوں معنی قرآن پاک میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس مقام پر بطور تشریح یوں کہہ سکتے ہیں کہ فاسق وہ ہیں جو قرآن پاک کی بیان کردہ مثالوں سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ مقصد یہ کہ جو شخص قرآن کے پروگرام کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ فاسق ہے۔ قرآن پاک کا پروگرام یہ ہے کہ “ الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلوۃ ومما رزقنھم ینفقون (3) والذین یؤمنون بما ۔۔۔۔۔ ھم یوقنون (4) ” نیز قرآن پاک کا پروگرام یہ ہے “ یایھا الناس اعبدوا ربکم ” فلاح کا پروگرام تو یہ ہے مگر جو شخص اس کے خلاف کرے گا۔ وہ فاسقوں کی فہرست میں رکھا جائے گا یہود و منافقین کی عہد شکنی : آگے اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی تشریح کرتے ہوئے ان کی تین بری خصلتوں کا ذکر کیا ہے پہلی بات یہ ہے کہ “ الذین ینفقون عھد اللہ من بعد میثاقہ ” فاسق وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑتے ہیں اس کو پختہ کرنے کے بعد ۔ اگر وہ اشخاص منافق ہیں تو وہ زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ “ امنا باللہ وبالیوم الاخر ” ہم اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لائے ہیں۔ مگر یہ عہد کو پورا نہیں کرتے ۔ عملی طور پر ان کا ایمان نہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے اور نہ آخرت کے دن پر۔ اور اگر فاسقوں سے مراد یہود ہیں۔ تو ان سے تو پہلی کتابوں میں عہد لیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبیوں پر ایمان لائیں گے اور خاص طور پر نبی آخر الزمان پر ایمان لائیں گے۔ ا س کا ساتھ دیں گے اور اس کی نصرت کریں گے۔ نیز یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر جو ہدایت نازل فرمائی ہے۔ اسے چھپائیں گے نہیں۔ بلکہ ظاہر کریں گے۔ مگر ان لوگوں نے اس عہد کو توڑ دیا۔ گویا فاسقوں کی پہلی خصلت یہ بیان فرمائی کہ وہ عہد کرنے کے بعد اس کو توڑتے ہیں۔ عہد شکن لوگوں کا دوسرا گروہ معاند کافر ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا “ سواء علیھمء انذرتھم ام لم تنذرھملا یؤمنون ” انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس عہد کو توڑا۔ جو ازل میں ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا تھا “ الست بربکم ” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ سب نے بیک زبان ہو کر کہا تھا “ بلی ” اے مولا کریم ! کیوں نہیں بیشک تو ہمارا رب ہے۔ اس عہد کی یاد دہانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف رسول بھیجے۔ کتابیں نازل کیں ۔ مگر انہوں نے اس پختہ عہد کو توڑ دیا۔ لہذا یہ بھی عہد شکنوں کی صف میں شامل ہوئے ایک عام مومن جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور ﷺ کی رسالت کا عہد کرتا ہے۔ ان کے احکام کو تسلیم کرنے اور ان پر کاربند ہونے کا عہد کرتا ہے۔ مگر جب وہ اس کے خلاف چلتا ہے۔ گویا عہد شکنی کرتا ہے۔ ایسا شخص بھی فاسق یا منافق کی فہرست میں لکھا جائے گا۔ عہد کی خلاف ورزی کرنا منافق کی واضح نشانی ہے۔ قطع رحمی : فاسقوں کی دوسری خصلت یہ بیان فرمائی “ ویقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل ” جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اسے قطع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو قرابتداروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ مگر یہ اس کے برخلاف قطع رحمی کے مرتکب ہوتے ہیں جیسے کافروں کے متعلق فرمایا کہ وہ قطع رحمی کرتے ہیں۔ اور کسی مومن کے بارہ میں نہ تو عہد و پیمان کا خیال رکھتے ہیں ورنہ قرابت داری کو خاطر میں لاتے ہیں۔ بلکہ انہیں ہر طرح سے ایذا پہنچاتے ہیں۔ حالانکہ قطع رحمی بہت بڑا جرام ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ بخاری ج 2 ص 855 ، مسلم ج 2 ص 315 ، ترمذی ص 285) کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ۔ میں بھی اس کو جوڑوں گا اور جو قطع کرتا ہے۔ میں بھی ا س کو کاٹ دوں گا۔ صلہ رحمی : اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کی بہت تاکید فرمائی ہے رحم یعنی قرابت داری کو اپنے نام رحمن سے نکالا ہے۔ اور رحمن کا معنی بیحد مہربان ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آنا چاہئے۔ فرمایا “ واتقوا اللہ الذی تسآءلون بہ والارحام ” یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اور قرابتداری کا خیال رکھو۔ صلہ رحمی بہت بڑا عمل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اس میں انسان کے تمام حقوق آجاتے ہیں۔ جن کی ادائیگی کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ فرمایا (2 ۔ ) “ ات کل ذی حق حقہ ” ہر حقدار کا حق ادا کرو۔ یہی صلہ رحمی ہے۔ فساد فی الارض : منافقین کی تیسری خصلت یہ بیان فرمائی۔ “ ویفسدون فی الارض ” وہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ فساد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ اور کافر لوگوں کو ایمان سے متنفر بناتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ ایمان نہ لائیں۔ اسی لیے تو وہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں۔ کیونکہ اس میں مکھی اور مچھر جیسی حقیر چیزوں کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ یہی وہ پروپیگنڈا ہے۔ جس کی بدولت وہ لوگوں کو ایمان سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اور اسی کو فساد فی الارض سے تعبیر کیا گیا ہے۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 22) کہ کفر ، شرک اور شرائع کو خراب کرنا۔ اللہ تعالیٰ کے قوانین کی خلاف ورزی کرنا فساد فی الارض ہے۔ زمین و آسمان کی اصلاح اطاعت سے ہوتی ہے۔ کفر شرک اور معاصی کی وجہ سے اس میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام قسم کی قبیح رسول بھی فساد فی الارض کے قبیل سے ہی ہیں ، شرک ، بدعت ، ناچ گانا ، عریانی اور فحاشی یہ سب قبیح رسوم ہیں۔ قبروں پر عرس منانا ، قبر پرستی کو رواج دینا یہ بھی انہیں رسوم میں سے ہے۔ اور فساد فی الارض ہے۔ تیسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ منافق لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی بجائے اس کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کی ہر خواہش پوری ہوجائے۔ ان کے کسی فعل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اور وہ اپنی من مانی کرتے رہیں۔ الغرض عہد شکنی ، قطع رحمی اور فساد فی الارض یہ تین بری خصلتیں ہیں۔ جو فاسقوں یا منافقوں میں پائی جاتی ہیں اور جن سے اجتناب کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ فاسقین کی ناکامی : فاسقوں کی علامات بیان کرنے کے بعد فرمایا “ اولئک ھم الخسرون ” یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں ۔ ناکام و نامراد ہونے والے ہیں۔ یہ لوگ اپنی خصلتوں کی وجہ سے دنیا میں بھی ناکام ہیں۔ کیونکہ فساد فی الارض کی بدولت دنیا میں امن و سکون پیدا نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا یہ طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا رہیں گے۔ اور آخرت میں ہمیشہ کے لئے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑیگا۔ اسی لیے فرمایا “ کسر الدنیا والاخرۃ ذلک ھو الخسران المبین ” یہ دنیا اور آخرت ہر دو جگہ کی ناکامی ہے۔ اور یہی بہت بڑی ناکامی ہے۔ ابتدائے سورة میں متقین کے متعلق فرمایا تھا “ اولئک علی ھدی من ربہم واولئک ھم المفلحون ” یعنی یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں اور یہی کامیاب ہیں۔ اس مقام پر فاسقین کے متعلق فرمایا “ اولئک ھم الخسرون ” یہی لوگ ناکام ہیں۔
Top