Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 60
وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ١ؕ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا١ؕ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ١ؕ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَاِذِ اسْتَسْقٰى
: اور جب پانی مانگا
مُوْسٰى
: موسیٰ
لِقَوْمِهٖ
: اپنی قوم کے لئے
فَقُلْنَا
: پھر ہم نے کہا
اضْرِبْ
: مارو
بِّعَصَاکَ
: اپناعصا
الْحَجَر
: پتھر
فَانْفَجَرَتْ
: تو پھوٹ پڑے
مِنْهُ
: اس سے
اثْنَتَا عَشْرَةَ
: بارہ
عَيْنًا
: چشمے
قَدْ عَلِمَ
: جان لیا
كُلُّاُنَاسٍ
: ہر قوم
مَّشْرَبَهُمْ
: اپناگھاٹ
كُلُوْا
: تم کھاؤ
وَاشْرَبُوْا
: اور پیؤ
مِنْ
: سے
رِّزْقِ
: رزق
اللہِ
: اللہ
وَلَا
: اور نہ
تَعْثَوْا
: پھرو
فِي
: میں
الْاَرْضِ
: زمین
مُفْسِدِينَ
: فساد مچاتے
اور اس وقت کو یاد کرو جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا۔ پس ہم نے کہا۔ کہ اپنی لاٹھی کے ساتھ پتھر کو مارو۔ پس اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔ تحقیق جان لیا سب لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ۔ اللہ کی دی ہوئی روزی سے کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد کرتے ہوئے نہ چلو
ربط آیات : گزشتہ آیات میں ان انعامات کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ منجملہ ان کے دشمن سے رہائی اور ذلت ناک عذاب اور غلامی سے نجات کا تذکرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایک عظیم الشان کتاب عطا فرمائی۔ صحرائے سینا میں دھوپ سے بچاؤ کے لیے سر پر بادل کا سایہ کیا۔ خوراک کے لئے من اور سلوی فراہم کیا۔ جب بنی اسرائیل نے سبزی اور تر کاری کا مطالبہ کیا تو انہیں ایک دوسری بستی میں اترنے کا حکم دیا جہاں ہر چیز میسر تھی۔ مگر ساتھ یہ نصیحت بھی کردی کہ اس بستی میں سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے اور اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے داخل ہونا۔ مگر بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کو تبدیل کردیا۔ سجدہ شکر ادا کرنے کی بجائے اکڑ کر بستی میں داخل ہوئے۔ اور زبان سے استغفار کرنے کی بجائے بعض بیہودہ باتیں کہتے ہوئے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی اور تمرد کی یہ سزا دی کہ آسمان سے طاعون کی صورت میں عذاب نازل ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں بنی اسرائیل ہلاک ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔ انہوں نے صحرائے سینا میں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت اور موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کو ٹھکرا دیا۔ بنی اسرائیل کا پانی طلب کرنا : توراۃ اور بعض اسرائیلی روایتوں میں ذکر آتا ہے (1 ۔ تفسیر حقانی ج 1 ص 165) کہ بنی اسرائیل وادی سکات کے قریب ایک مقام پر تھے۔ اسے قادس کی بستی بھی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ کچھ پہاڑی ہے اور کچھ صحرا ہے ، پانی نایاب ہے۔ اس مقام پر بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پانی کا مطالبہ کیا۔ کہنے گلے ہمارے پاس پانی کا ایک قطرہ تک نہیں۔ حلق خشک ہو رہے ہیں اے موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے لیے پانی کا بندوبست کرو۔ اس معاملے میں وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس قدر بدتمیزی سے پیش آئے کہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں ان الفاظ کے ساتھ دعا کا آغاز کیا کہ اے مولیٰ کریم ! بنی اسرائیل میرے ساتھ اس قدر سختی سے پیش آرہے ہیں کہ مجھے سنگسار کرنے کے درپے ہیں۔ لہٰذا تو ہی ان کے لیے پانی کا انتظام فرما۔ آیت زیر درس میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ استسقاء کی حقیقت : واذاستسقی موسیٰ لقومہ ، اس واقعہ کو یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا۔ استسقیٰ کا لفظی معنی طلب آب ہے۔ اور اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑانا استغفار کرنا اور معافی مانگنا ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعات میں ملتا ہے۔ کہ قحط سالی کے دوران انہوں نے اپنی اپنی قوم سے کہا تھا “ یقسفہم استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ اے قوم اپنے رب سے استغفار کرو اور توبہ کرو۔ “ یرسل السمآء علیکم مدرارا ” تاکہ وہ تمہارے لیے آسمان سے پانی برسائے۔ جب کبھی دنیا خشک سالی کا شکار ہوجائے۔ زمین ، باغات ، انسانوں ، حیوانوں کے لیے پانی کی قلت پیدا ہوجائے تو فراہمی آب کے لئے کئی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ منجملہ ان تدابیر کے شریعت نے استغفار کو بڑی اہمیت دی ہے۔ کہ انسان اپنے رب تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ صدقہ خیرات کریں ، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا۔ باران رحمت نازل کرے گا اور خشک سالی دور ہوجائے گی غرضیکہ استسقی کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رورو کر گناہوں کی معافی طلب کی جائے۔ استغفار کا طریقہ : فقہاء کرام میں سے امام ابوحنیفہ (رح) کو باقی تمام فقہاء پر فوقیت حاصل ہے۔ فقہا ہت و اجتہاد میں کوئی بھی آپ کا ہم پلہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی گہری بصیرت عطا فرمائی تھی۔ انہوں نے دین کی ایسی زبردست خدمت کی ہے۔ جو آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی۔ آپ نے دین کا نچوڑ اور خلاصہ اس طریقے پر پیش کیا کہ تمام عجمی قومیں اسے بخوشی قبول کر گئیں امت پر آپ کا بڑا احسان ہے۔ جس طرح محدثین کرام نے احادیث کے الفاظ کی حفاظت کی ۔ مفسرین کرام نے قرآن پاک کی تشریح بیان کی اسی طرح فقہائے کرام نے اجتہاد کے ذریعے ضروری مسائل کا استنباط کیا۔ اور مشکلات کے حل پیش کئے۔ انہوں نے دین اسلام کو احسن طریقے پر امت کے سامنے پیش کیا۔ راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کیا۔ صاحب (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ بدایہ اولین ص 121) کہ استسقا کی حقیقت یہی ہے کہ انسان گناہوں کی معافی طلب کرے۔ اس کے لئے نماز پڑھنا ضروری بھی ہے ۔ تاہم استسقا کے عام طور پر دو طریقے ہیں۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے آنے سے پہلا طریقہ یہ ہے (2 ۔ بخاری ج 1 ص 127 ، مسلم ج 1 ص 193) کہ مسلمان بستی سے باہر کھلے میدان میں نکل جائیں ۔ دو رکعت نماز ادا کریں ۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں (3 ۔ ہدایہ اولین ص 121 ، 122) کہ استسقاء کے لئے صرف مومن اکٹھے ہوں ۔ کسی کافر کو قریب نہ آنے دیں۔ پھر عاجزی اور انکساری کے ساتھ دو نفل ادا کریں۔ اس کے بعد دعا کریں اللہ تعالیٰ باران رحمت نازل کرے گا۔ اور خشک سالی دور ہوجائے گی۔ دوسرا طریقہ بھی حضور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے (4 ۔ بخاری ج 1 ص 127 ، مسلم ج 1 ص 163) آپ منبر پر تشریف فرما تھے۔ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ حضور ! جانور ہلاک ہو رہے ہیں۔ فصلیں تباہ ہوگئیں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ پانی برسا دے۔ آپ نے منبر پر بیٹھے بیٹھے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دے۔ اس وقت آسمان بالکل صاف تھا۔ بادل کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ آپ دعا فرما رہے تھے کہ کسی کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا دیکھتے ہی دیکھتے وہ بادل پھیل گیا اور یکایک موسلا دھار بارش شروع ہوگئی ایک تیسرا طریقہ بھی ہے کہ کسی بھی نماز کے بعد بارش کے لیے دعا کی جائے۔ استسقا کی یہ مختلف صورتیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی صورت اپنائی جاسکتی ہے۔ ضرب کلیمی : بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا۔ ساری قوم سخت پریشانی کے عالم میں تھی۔ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آئے۔ مگر آپ دعا میں مصروف ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا “ فقلنا اضرب بعصاک الحجر ” یعنی اپنی لاٹھی اس پتھر پر مارو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم کی تعمیل کی۔ جونہی لاٹھی پتھر پر ماری “ فانفجرت منہ اثنت اشعرۃ عینا ” اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے پانی کا انتظام فرما دیا۔ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ کون سا پتھر تھا جس پر لاٹھی مارنے سے پانی جاری ہوگیا تھا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 29 ، ابن کثیر ج 1 ص 100 ، تفسیر عزیزی فارسی ج 1 ص 260) کہ وہ پتھر موسیٰ (علیہ السلام) کے تھیلے میں موجود تھا تفسیری روایات کے مطابق یہ پتھر حضرت آدم (علیہ السلام) کے ذریعے دنیا میں آیا تھا۔ اور نسلاً بعد نسل موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا۔ تاہم ہم کسی صحیح روایت سے ایسا ثابت نہیں ہے۔ بخاری اور مسلم شریف (2 ۔ بخاری ج 1 ص 483 ، مسلم ج 1 ص 154 ، معالم التنزیل ج 1 ص 29) کی بعض روایات سے موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک دوسرے واقعہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل کے لوگ پردے کا خاص خیال نہیں کرتے تھے۔ نہاتے وقت بھی ایک دوسرے کے سامنے کپڑے اتار کر نہانا شروع کردیتے تھے ۔ برخلاف اس کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑے حیا دار تھے غسل کرتے وقت ستر پوشی کا خاصل خیال رکھتے اور پردے میں نہاتے۔ دین کا اصول بھی یہی ہے کہ بول و براز یا غسل کرتے وقت دوسرے شخص کی نظر نہیں پڑنی چاہئے۔ ایسے اوقات میں پردہ واجب ہے۔ مگر بنی اسرائیل الٹی ذہنیت کے مالک تھے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو پردے میں غسل کرتے دیکھا تو سمجھا کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے جسے چھپانا چاہتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ آپ کو ادرہ کی بیماری لاحق ہے ۔ جس میں خصیے پھول جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت ایک روز ایسا واقعہ پیش آیا۔ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی بڑے پتھر کی اوٹ میں اس پتھر پر کپڑے رکھ کر پردے میں غسل فرما رہے تھے کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں سمیت بھاگ کھڑا ہوا۔ آپ نے یہ ماجرا دیکھا تو سخت پریشان ہوئے “ ثوبی حجر۔ ثوبی حجر ” یعنی پتھر میرے کپڑے۔ پتھر میرے کپڑے کہتے ہوئے پتھر کے پیچھے بھاگے اور اسی حالت میں اپنی قوم کے پاس پہنچ گئے۔ لوگوں نے آپ کو برہنہ حالت میں دیکھا مگر جس میں کوئی عیب نہ پایا تو کہنے لگے “ ما بموسی من باس ” یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو تو کوئی بیماری لاحق نہیں۔ ہم تو غلط سمجھ رہے تھے۔ بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) اس بھاگتے ہوئے پتھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو اپنی جلالی طبیعت کے مطابق اس پتھر کو اپنے ڈنڈے سے خوب پیٹا جس کی وجہ سے اس پتھر پر لاٹھی کے پانچ ، سات نشان پڑگئے۔ تفسیری روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ یہ بڑا مبارک پتھر ہے (1 ۔ مظہری ج 1 ص 75 ، تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 260) ایک طرف اس نے میرے حکم کی تعمیل کی کہ پکڑے لے کر بھاگ نکلا اور دوسری طرف موسیٰ (علیہ السلام) کے ادب کو بھی ملحوظ رکھا۔ یعنی اتنا نرم ہوگیا کہ اس پر لاٹھی کے نشان پڑگئے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اس پتھر کو اپنے پاس رکھ لو۔ اس میں بڑی حکمت ہے۔ کہتے ہیں یہ وہی پتھر تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تھیلے میں تھا۔ اور جب بنی اسرائیل نے پانی طلب کیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی پتھر پر لاٹھی ماری اور بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔ بہرحال یہ تفسیری روایات ہیں کسی آیت یا صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ بعض تاریخی روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے (2 ۔ تفسیر ۔۔۔۔ ج 2 ص 154) کہ وادی حوریب میں جو پہاڑی سلسلہ اور چٹانیں ہیں وہی زمین پر پڑی ہوئی ایک چٹان پر موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی ماری تھی اور اس میں سے اپنی برآمد ہوا تھا۔ مؤرخین کا بیان ہے (3 ۔ قصص القرآن ج 1 ص 446) کہ اس پتھر میں اب پانی تو نہیں ہے۔ مگر پانی کے نکلنے کے نشانات اب تک موجود ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان سوراخوں سے کسی وقت پانی نکلتا رہا اللہ تعالیٰ نے یہ پانی بنی اسرائیل کی ضرورت پوری کرنے کے لیے نکالا تھا ۔ جب وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔ پانی کی ضرورت باقی نہ رہی۔ تو وہ بھی ختم ہوگیا۔ پانی کی تقسیم : پانی کے بارہ چشمے پھوٹنے کی حکمت یہ تھی۔ کہ نبی اسرائیل بارہ قبیلوں پر مشتمل تھے۔ ان کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ تھی۔ ان کے آپس کے کسی متوقع جھگڑے کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلے کے لیے علیحدہ علیحدہ چشمہ مقرر کردیا۔ چشموں کا تعین ہر قبیلے کی تعداد کے لحاظ سے کیا گیا تھا۔ بڑے قبیلے کے لیے بڑا چشمہ مقرر ہوا۔ اور چھوٹے قبیلے کے لئے چھوٹا چشمہ۔ اس طرح گویا پانی تقسیم کردیا گیا۔ فرمایا “ قد علم کل اناس مشربھم ” ہر ایک نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرلیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہر قبیلے میں ایک ایک چشم تقسیم کردیا ہر قبیلے نے اپنی ضرورت کے مطابق نالیاں کھودلیں۔ اور پانی کو دور تک لے گئے۔ اس تقسیم سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مشترکہ مفاد کی اشیا کی تقسیم عدل و انصاف پر ہونی چاہئے۔ تاکہ کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی والے معاملہ میں بھی پانی تقسیم کیا گیا تھا۔ “ لکم شرب یوم معلوم ” قوم صالح (علیہ السلام) سے فرمایا کہ پانی پینے کی ایک روز تمہاری باری ہوگی۔ اور ایک روز اونٹنی کی ۔ قوم نے مقررہ حد سے تجاوز کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری قوم تباہ ہوگئ۔ ایک اعتراض اور اس کا جواب : بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ پتھر سے پانی کیسے آیا۔ یہ خلاف عقل معلوم ہوتا ہے یہ اعتراض درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کی چیزوں کو اپنی ناقص عقل سے قیاس کرنا مناسب نہیں۔ ایسا کام ناقص العقل لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے سائنس دان ، ریاضی دان ، جغرافیہ دان سب کے سب ناقص العقل ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت تخلیق کی کوئی خبر نہیں۔ وہ تو محض اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 57 ، تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 260) کہ پتھر سے پانی نکلنا کون سی بعید العقل بات ہے۔ یہ تو عام مشاہدے کی بات ہے۔ مقناطیس بھی ایک پتھر ہی ہے۔ جو لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی تاثیر پیدا کردی ہے ۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی پتھر میں پانی کو اپنی طرف کھینچنے کی تاثیر پیدا کر دے۔ تو یہ کون سی ایسی بات ہے۔ جو عقل میں نہ آتی ہو۔ ہاں سر سید کو سمجھ میں نہ آسکی۔ پانی تو پتھر کے نیچے موجود تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پتھر کو ذرا سا ہلا دیا تو پانی کود پڑا۔ سرسید بیچارہ تو نیچریت کا امام تھا۔ اور معجزات کا منکر تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ پانی کا اجراء محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ یہ معجزہ تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ظاہر ہوا۔ بحیرہ قلزم میں کیا ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی چلائی اور بارہ راستے بن گئے ۔ پانی کناروں کے ساتھ منجمہ ہو کر رہ گیا۔ وہاں لاٹھی مارنے کا حکم ہوا۔ تو پانی میں راستے بن گئے اور یہاں لاٹھی باری تو خشک پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ پانی نکالنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ لاٹھی مارنا تمہارا کام ہے۔ معجزہ اور کرامت : نبی کا معجزہ ہو یا ولی کی کرامت ہو۔ اصل حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ کام کرنے والی وہی ذات ہے۔ اسی مقام پر آکر لوگ ٹھوکر کھا جاتے۔ نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت کو ان کا ذاتی فعل سمجھتے ہیں۔ اور شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو ان کا ذاتی فعل سمجھا۔ وہ شرک میں مبتلا ہوگئے۔ حالانکہ وہ تو “ باذن اللہ ” تھا فرمایا “ وابری الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اللہ ” میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور ابرص کو ٹھیک کرتا ہوں۔ اور مردے میں جان ڈال دیتا ہوں۔ اسی طرح اولیاء اللہ کی جو کرامات صحیح طریقے سے ثابت ہیں۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عزت بخشتے ہیں اس کے ہاتھ پر کرامت ظاہر ہوجاتی ہے اپنی مرضی سے تو کوئی نبی بھی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک میں تصریح موجود ہے۔ “ وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ ” فعل تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ مگر نبی کے ہاتھ پر ظاہر کردیا جاتا ہے۔ ہمارے ہادی اعظم (علیہ السلام) کی زندگی میں بیشمار معجزات پیش آئے۔ پتھروں سے پانی نکلنا تو عام مشاہدہ کی بات ہے۔ جنگلوں اور پہاڑوں سے چشمے نکلتے ہیں۔ مگر ہمارے نبی رحمت (علیہ السلام) کا معجزہ ملاحظہ فرمائیے کہ ہاتھ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں (1 ۔ بخاری ج 1 ص 505 ، مسلم ج 2 ص 245) کہ لشکر اسلامی جہاد کے لیے سفر پر تھا راستے میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ کسی کے پاس تھوڑا بہت پانی ہے تو پیش کیا جائے۔ چناچہ ایک لوٹے میں تھوڑا سا پانی حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ آپ نے اس پانی سے وضو فرمایا پھر وہ پانی پیالے میں ڈال کر اپنا ہاتھ مبارک اس پیالے میں رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے انگلیوں مبارکہ کے نیچے سے پانی کا چشمہ جارہ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا یہ بابرکت پانی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے نکالا ہے۔ آؤ پانی پی لو اور اس سے وضو کرو لوگوں نے پانی حاصل کیا اس سے وضو کیا۔ اس میں سے پیا اور دوسری ضروریات پوری کیں۔ جب سارا لشکر سیراب ہوگیا۔ تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اٹھا لیا اور پانی نکلنا بند ہوگیا۔ اسی لیے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیاء (علیہم السلام) کو جو معجزات عطا کیے وہ اس کا کمال ہے مگر جو معجزات حضور ﷺ کو عنایت کیے وہ کمالوں سے بھی بڑھ کر کمال ہے۔ معجزہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ہو یا ہمارے رسول اعظم ﷺ کا ہو۔ اصل میں کمال اللہ تعالیٰ کا ہی ہے۔ ہرنعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر : بنی اسرائیل کے کھانے کے لئے من و سلوٰی کا بندوبست ہوگیا۔ اور پینے کے لیے بارہ چشمے جاری ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ کلوا وشربوا من رزق اللہ ” اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روزی سے کھاؤ اور پیو بنی اسرائیل کو خطاب کرکے ساری نوع انسانی کو یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ ہر قسم کی روزی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے۔ اسے کھاؤ اور پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔ شیخ سعدی (رح) نے بڑی اچھی بات کہی ہے۔ ؎ ابروباد ومہ و خورشید و فلک درکارند تاتونانے بکف آری و بغفلت نخوری ہمہ از بہر تو سرگشتہ و فرماں بردار شرط انصاف بنا شد کہ تو فرمان نبری فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے گردش کر رہی ہیں۔ تاکہ تو روٹی کو ہاتھ میں لائے اور غفلت سے نہ کھائے۔ روٹی کھاتے وقت انسان کو غور کرنا چاہئے کہ روٹی کا یہ ٹکڑا کتنے مراحل طے کرکے آپ کے ہاتھ میں پہنچتا ہے۔ کارخانہ قدرت میں لاکھوں مشینیں اور کروڑوں ہاتھ کام کر رہے ہیں۔ جب ایک روٹی اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ میں دیتا ہے ، پانی کا ایک گلاس جو آپ کے ہونٹوں تک پہنچتا ہے۔ یہ کن کن مشقتوں سے گزر کر آتا ہے۔ اسی طرح لباس کی تیاری میں کتنی مشینیں ، کتنا خام مال ، کتنے انسانی دماغ اور ہاتھ کام کرتے ہیں۔ تب جا کر زینت اور سترپوشی کے لیے کپڑا مہیا ہوتا ہے۔ یہ تمام چیزیں انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں کہ جس مالک الملک نے انسان کو اس قدر انعامات سے نوازا ہے۔ اس کی روزی استعمال کرکے کیا اس کا شکر یہ ادا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ اسی لیے فرمایا کہ کس قدر ناانصافی کی بات ہوگی۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتیں استعمال کرنے کے بعد اس کی فرمانبرداری نہ کرو۔ قرآن پاک میں دوسری مقام پر آتا ہے۔ “ کلوا من طیبت ما رزقنکم ” حلال اور بیب چیزیں کھاؤ جو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں “ واشکرو اللہ ان کنتم ایاہ تعبدون ” اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ، اگر تم اسی کے بندے ہو۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ناداروں کو محروم نہ رکھو۔ تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے تم مالک ہو۔ مگر اس بات کی طرف غور نہیں کرتے کہ یہ نعمت آئی کہاں سے ہے۔ یہ کس کی عنایت ہے۔ یاد رکھو ۔ اگر غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کو محروم رکھو گے ۔ ان کے حق ادا نہیں کرو گے تو یہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور مستحقین پر زیادتی ہوگی۔ ہر صاحب استطاعت کا فرض ہے کہ وہ ناداروں کا خیال رکھے۔ اسے دیکھنا چاہئے کہ سوسائٹی میں کوئی بھوکا یا ننگا نہ رہے۔ خاص طور پر برسراہان مملکت کا یہ فرض منصبی ہے۔ کہ اپنے اپنے ملک میں حاجت مندوں کی خبر گیری کریں۔ ضیاء الدین برنی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بادشاہ یا حاکم حقیقت میں وہ ہے جس کی سلطنت میں کوئی شخص بھاکا ۔ ننگا نہ رہے ، امور سلطنت اس طریقے پر سر انجام دینے چاہئیں کہ ہر شخص کو اس کی بنیادی ضروریات مہیا ہوں۔ بیشک اعلیٰ درجے کی ضروریات نہ بھی حاصل ہو سکیں ۔ تو کم از کم ادنی درجے کی تو ملنی چاہیں۔ ہر شخص کے کھانے پینے ، پہننے اور رہنے کے لیے انتظام ہونا چاہئے۔ لہٰذا یہ انسانوں کا اجتماعی فریضہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روزی استعمال کریں۔ اور اس کا شکریہ بھی ادا کریں۔ فساد فی الارض : افسوس کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں نیکی کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے ، جس کے پاس دولت آتی ہے وہ اسے اپنے باوا کی سمجھتا ہے۔ نہ خدا کا حق نہ رسول کا حق اور نہ انسانیت کا حق۔ کسی چیز کی پروا نہیں کرتا۔ مستحقین پر خرچ کرنے کی بجائے رسم و رواج پر خرچ ہوتا ہے۔ مشرکانہ افعال پر خرچ ہوتا ہے۔ بےحیائی اور فحاشی پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ ساری ناشکر گزاری کی مدات ہیں۔ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ حساب نہیں لے گا یا اس کی پکٖڑ نہیں ہوگی۔ ایک ایسا دن آنے والا ہے۔ جب ہر چیز کا محاسبہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اسی لیے فرمایا کھاؤ اور پیو اللہ تعالیٰ کی روزی سے “ ولا تعثوا فی الارض مفسدین ” زمین میں فساد کرتے ہوئے نہ چلو۔ فساد سے مراد خدا تعالیٰ کے قانون و شریعت اور دین کے خلاف چلنا ہے۔ سارے فساد کی جڑیہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا “ کلوا مما فی الارض من حللا طیبا ولا تتبعوا خطوت الشیطن ” حلال اور پاک چیزیں کھاؤ مگر شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ شریعت کے خلاف قدم اٹھانا شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ بدعت ، شرک ، معصیت وغیرہ خلاف شریعت ہیں۔ اور اسی کو فساد کہا گیا ہے۔ جہاں فساد ہوگا وہاں امن و چین نصیب نہیں ہوسکتا۔ نہ ہم خدا تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کر رہے ہیں نہ قانون شریعت کا احترام کر رہے ہیں۔ اسلام کا نام کتنے زور و شور سے لیتے ہیں۔ مگر عمل صفر کے برابر ہے۔ البتہ ظلم و ستم کا کوئی شمار نہیں۔ اس ماہ کی ابتدائی تاریخوں کی اخباری خبر ہے کسی گھر میں نوجوان لڑکی اور بچہ تھا۔ ماں باپ کہیں گئے ہوئے تھے۔ رات کے وقت دو سپاہی دونوں کو اٹھا کرلے گئے۔ اور ایک مکان میں بند کردیا۔ اور اس بچی کے ساتھ زیادتی کی۔ یہ تو ان سرکاری کارندوں کا حال ہے۔ جو خود دوسروں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ جب ان کا یہ حال ہے تو دوسرے لوگوں کا کیا ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مجرموں کی نشاندہی ہونے کے باوجود اگر ان تک قانون کا ہاتھ نہیں پہنچتا تو اس صورت میں کیا خدا تعالیٰ کا قہر نازل نہیں ہوگا۔ بہرحال اس قسم کے واقعات فساد فی الارض کے نمونے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم سب نے خدا تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ رکھا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ شیطان کے نقش قدم پر چلنا اسی کا نام ہے۔ الغرض فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روزی سے کھاؤ پیو۔ مگر زمین میں فساد برپا نہ کرو۔
Top