Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 60
وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ١ؕ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا١ؕ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ١ؕ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَاِذِ اسْتَسْقٰى : اور جب پانی مانگا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کے لئے فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبْ : مارو بِّعَصَاکَ : اپناعصا الْحَجَر : پتھر فَانْفَجَرَتْ : تو پھوٹ پڑے مِنْهُ : اس سے اثْنَتَا عَشْرَةَ : بارہ عَيْنًا : چشمے قَدْ عَلِمَ : جان لیا كُلُّاُنَاسٍ : ہر قوم مَّشْرَبَهُمْ : اپناگھاٹ كُلُوْا : تم کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیؤ مِنْ : سے رِّزْقِ : رزق اللہِ : اللہ وَلَا : اور نہ تَعْثَوْا : پھرو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مُفْسِدِينَ : فساد مچاتے
اور اس وقت کو یاد کرو جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا۔ پس ہم نے کہا۔ کہ اپنی لاٹھی کے ساتھ پتھر کو مارو۔ پس اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔ تحقیق جان لیا سب لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ۔ اللہ کی دی ہوئی روزی سے کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد کرتے ہوئے نہ چلو
ربط آیات : گزشتہ آیات میں ان انعامات کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ منجملہ ان کے دشمن سے رہائی اور ذلت ناک عذاب اور غلامی سے نجات کا تذکرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایک عظیم الشان کتاب عطا فرمائی۔ صحرائے سینا میں دھوپ سے بچاؤ کے لیے سر پر بادل کا سایہ کیا۔ خوراک کے لئے من اور سلوی فراہم کیا۔ جب بنی اسرائیل نے سبزی اور تر کاری کا مطالبہ کیا تو انہیں ایک دوسری بستی میں اترنے کا حکم دیا جہاں ہر چیز میسر تھی۔ مگر ساتھ یہ نصیحت بھی کردی کہ اس بستی میں سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے اور اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے داخل ہونا۔ مگر بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کو تبدیل کردیا۔ سجدہ شکر ادا کرنے کی بجائے اکڑ کر بستی میں داخل ہوئے۔ اور زبان سے استغفار کرنے کی بجائے بعض بیہودہ باتیں کہتے ہوئے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی اور تمرد کی یہ سزا دی کہ آسمان سے طاعون کی صورت میں عذاب نازل ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں بنی اسرائیل ہلاک ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔ انہوں نے صحرائے سینا میں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت اور موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کو ٹھکرا دیا۔ بنی اسرائیل کا پانی طلب کرنا : توراۃ اور بعض اسرائیلی روایتوں میں ذکر آتا ہے (1 ۔ تفسیر حقانی ج 1 ص 165) کہ بنی اسرائیل وادی سکات کے قریب ایک مقام پر تھے۔ اسے قادس کی بستی بھی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ کچھ پہاڑی ہے اور کچھ صحرا ہے ، پانی نایاب ہے۔ اس مقام پر بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پانی کا مطالبہ کیا۔ کہنے گلے ہمارے پاس پانی کا ایک قطرہ تک نہیں۔ حلق خشک ہو رہے ہیں اے موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے لیے پانی کا بندوبست کرو۔ اس معاملے میں وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس قدر بدتمیزی سے پیش آئے کہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ رب العزت میں ان الفاظ کے ساتھ دعا کا آغاز کیا کہ اے مولیٰ کریم ! بنی اسرائیل میرے ساتھ اس قدر سختی سے پیش آرہے ہیں کہ مجھے سنگسار کرنے کے درپے ہیں۔ لہٰذا تو ہی ان کے لیے پانی کا انتظام فرما۔ آیت زیر درس میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ استسقاء کی حقیقت : واذاستسقی موسیٰ لقومہ ، اس واقعہ کو یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا۔ استسقیٰ کا لفظی معنی طلب آب ہے۔ اور اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑانا استغفار کرنا اور معافی مانگنا ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعات میں ملتا ہے۔ کہ قحط سالی کے دوران انہوں نے اپنی اپنی قوم سے کہا تھا “ یقسفہم استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ اے قوم اپنے رب سے استغفار کرو اور توبہ کرو۔ “ یرسل السمآء علیکم مدرارا ” تاکہ وہ تمہارے لیے آسمان سے پانی برسائے۔ جب کبھی دنیا خشک سالی کا شکار ہوجائے۔ زمین ، باغات ، انسانوں ، حیوانوں کے لیے پانی کی قلت پیدا ہوجائے تو فراہمی آب کے لئے کئی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ منجملہ ان تدابیر کے شریعت نے استغفار کو بڑی اہمیت دی ہے۔ کہ انسان اپنے رب تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ صدقہ خیرات کریں ، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا۔ باران رحمت نازل کرے گا اور خشک سالی دور ہوجائے گی غرضیکہ استسقی کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رورو کر گناہوں کی معافی طلب کی جائے۔ استغفار کا طریقہ : فقہاء کرام میں سے امام ابوحنیفہ (رح) کو باقی تمام فقہاء پر فوقیت حاصل ہے۔ فقہا ہت و اجتہاد میں کوئی بھی آپ کا ہم پلہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی گہری بصیرت عطا فرمائی تھی۔ انہوں نے دین کی ایسی زبردست خدمت کی ہے۔ جو آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی۔ آپ نے دین کا نچوڑ اور خلاصہ اس طریقے پر پیش کیا کہ تمام عجمی قومیں اسے بخوشی قبول کر گئیں امت پر آپ کا بڑا احسان ہے۔ جس طرح محدثین کرام نے احادیث کے الفاظ کی حفاظت کی ۔ مفسرین کرام نے قرآن پاک کی تشریح بیان کی اسی طرح فقہائے کرام نے اجتہاد کے ذریعے ضروری مسائل کا استنباط کیا۔ اور مشکلات کے حل پیش کئے۔ انہوں نے دین اسلام کو احسن طریقے پر امت کے سامنے پیش کیا۔ راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کیا۔ صاحب (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ بدایہ اولین ص 121) کہ استسقا کی حقیقت یہی ہے کہ انسان گناہوں کی معافی طلب کرے۔ اس کے لئے نماز پڑھنا ضروری بھی ہے ۔ تاہم استسقا کے عام طور پر دو طریقے ہیں۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے آنے سے پہلا طریقہ یہ ہے (2 ۔ بخاری ج 1 ص 127 ، مسلم ج 1 ص 193) کہ مسلمان بستی سے باہر کھلے میدان میں نکل جائیں ۔ دو رکعت نماز ادا کریں ۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں (3 ۔ ہدایہ اولین ص 121 ، 122) کہ استسقاء کے لئے صرف مومن اکٹھے ہوں ۔ کسی کافر کو قریب نہ آنے دیں۔ پھر عاجزی اور انکساری کے ساتھ دو نفل ادا کریں۔ اس کے بعد دعا کریں اللہ تعالیٰ باران رحمت نازل کرے گا۔ اور خشک سالی دور ہوجائے گی۔ دوسرا طریقہ بھی حضور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے (4 ۔ بخاری ج 1 ص 127 ، مسلم ج 1 ص 163) آپ منبر پر تشریف فرما تھے۔ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ حضور ! جانور ہلاک ہو رہے ہیں۔ فصلیں تباہ ہوگئیں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ پانی برسا دے۔ آپ نے منبر پر بیٹھے بیٹھے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دے۔ اس وقت آسمان بالکل صاف تھا۔ بادل کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ آپ دعا فرما رہے تھے کہ کسی کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا دیکھتے ہی دیکھتے وہ بادل پھیل گیا اور یکایک موسلا دھار بارش شروع ہوگئی ایک تیسرا طریقہ بھی ہے کہ کسی بھی نماز کے بعد بارش کے لیے دعا کی جائے۔ استسقا کی یہ مختلف صورتیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی صورت اپنائی جاسکتی ہے۔ ضرب کلیمی : بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا۔ ساری قوم سخت پریشانی کے عالم میں تھی۔ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آئے۔ مگر آپ دعا میں مصروف ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا “ فقلنا اضرب بعصاک الحجر ” یعنی اپنی لاٹھی اس پتھر پر مارو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم کی تعمیل کی۔ جونہی لاٹھی پتھر پر ماری “ فانفجرت منہ اثنت اشعرۃ عینا ” اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے پانی کا انتظام فرما دیا۔ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ کون سا پتھر تھا جس پر لاٹھی مارنے سے پانی جاری ہوگیا تھا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 29 ، ابن کثیر ج 1 ص 100 ، تفسیر عزیزی فارسی ج 1 ص 260) کہ وہ پتھر موسیٰ (علیہ السلام) کے تھیلے میں موجود تھا تفسیری روایات کے مطابق یہ پتھر حضرت آدم (علیہ السلام) کے ذریعے دنیا میں آیا تھا۔ اور نسلاً بعد نسل موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا۔ تاہم ہم کسی صحیح روایت سے ایسا ثابت نہیں ہے۔ بخاری اور مسلم شریف (2 ۔ بخاری ج 1 ص 483 ، مسلم ج 1 ص 154 ، معالم التنزیل ج 1 ص 29) کی بعض روایات سے موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک دوسرے واقعہ کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل کے لوگ پردے کا خاص خیال نہیں کرتے تھے۔ نہاتے وقت بھی ایک دوسرے کے سامنے کپڑے اتار کر نہانا شروع کردیتے تھے ۔ برخلاف اس کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑے حیا دار تھے غسل کرتے وقت ستر پوشی کا خاصل خیال رکھتے اور پردے میں نہاتے۔ دین کا اصول بھی یہی ہے کہ بول و براز یا غسل کرتے وقت دوسرے شخص کی نظر نہیں پڑنی چاہئے۔ ایسے اوقات میں پردہ واجب ہے۔ مگر بنی اسرائیل الٹی ذہنیت کے مالک تھے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو پردے میں غسل کرتے دیکھا تو سمجھا کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے جسے چھپانا چاہتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ آپ کو ادرہ کی بیماری لاحق ہے ۔ جس میں خصیے پھول جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت ایک روز ایسا واقعہ پیش آیا۔ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی بڑے پتھر کی اوٹ میں اس پتھر پر کپڑے رکھ کر پردے میں غسل فرما رہے تھے کہ وہ پتھر آپ کے کپڑوں سمیت بھاگ کھڑا ہوا۔ آپ نے یہ ماجرا دیکھا تو سخت پریشان ہوئے “ ثوبی حجر۔ ثوبی حجر ” یعنی پتھر میرے کپڑے۔ پتھر میرے کپڑے کہتے ہوئے پتھر کے پیچھے بھاگے اور اسی حالت میں اپنی قوم کے پاس پہنچ گئے۔ لوگوں نے آپ کو برہنہ حالت میں دیکھا مگر جس میں کوئی عیب نہ پایا تو کہنے لگے “ ما بموسی من باس ” یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو تو کوئی بیماری لاحق نہیں۔ ہم تو غلط سمجھ رہے تھے۔ بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) اس بھاگتے ہوئے پتھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو اپنی جلالی طبیعت کے مطابق اس پتھر کو اپنے ڈنڈے سے خوب پیٹا جس کی وجہ سے اس پتھر پر لاٹھی کے پانچ ، سات نشان پڑگئے۔ تفسیری روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ یہ بڑا مبارک پتھر ہے (1 ۔ مظہری ج 1 ص 75 ، تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 260) ایک طرف اس نے میرے حکم کی تعمیل کی کہ پکڑے لے کر بھاگ نکلا اور دوسری طرف موسیٰ (علیہ السلام) کے ادب کو بھی ملحوظ رکھا۔ یعنی اتنا نرم ہوگیا کہ اس پر لاٹھی کے نشان پڑگئے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اس پتھر کو اپنے پاس رکھ لو۔ اس میں بڑی حکمت ہے۔ کہتے ہیں یہ وہی پتھر تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تھیلے میں تھا۔ اور جب بنی اسرائیل نے پانی طلب کیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی پتھر پر لاٹھی ماری اور بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔ بہرحال یہ تفسیری روایات ہیں کسی آیت یا صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ بعض تاریخی روایتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے (2 ۔ تفسیر ۔۔۔۔ ج 2 ص 154) کہ وادی حوریب میں جو پہاڑی سلسلہ اور چٹانیں ہیں وہی زمین پر پڑی ہوئی ایک چٹان پر موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی ماری تھی اور اس میں سے اپنی برآمد ہوا تھا۔ مؤرخین کا بیان ہے (3 ۔ قصص القرآن ج 1 ص 446) کہ اس پتھر میں اب پانی تو نہیں ہے۔ مگر پانی کے نکلنے کے نشانات اب تک موجود ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان سوراخوں سے کسی وقت پانی نکلتا رہا اللہ تعالیٰ نے یہ پانی بنی اسرائیل کی ضرورت پوری کرنے کے لیے نکالا تھا ۔ جب وہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔ پانی کی ضرورت باقی نہ رہی۔ تو وہ بھی ختم ہوگیا۔ پانی کی تقسیم : پانی کے بارہ چشمے پھوٹنے کی حکمت یہ تھی۔ کہ نبی اسرائیل بارہ قبیلوں پر مشتمل تھے۔ ان کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ تھی۔ ان کے آپس کے کسی متوقع جھگڑے کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلے کے لیے علیحدہ علیحدہ چشمہ مقرر کردیا۔ چشموں کا تعین ہر قبیلے کی تعداد کے لحاظ سے کیا گیا تھا۔ بڑے قبیلے کے لیے بڑا چشمہ مقرر ہوا۔ اور چھوٹے قبیلے کے لئے چھوٹا چشمہ۔ اس طرح گویا پانی تقسیم کردیا گیا۔ فرمایا “ قد علم کل اناس مشربھم ” ہر ایک نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرلیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہر قبیلے میں ایک ایک چشم تقسیم کردیا ہر قبیلے نے اپنی ضرورت کے مطابق نالیاں کھودلیں۔ اور پانی کو دور تک لے گئے۔ اس تقسیم سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مشترکہ مفاد کی اشیا کی تقسیم عدل و انصاف پر ہونی چاہئے۔ تاکہ کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی والے معاملہ میں بھی پانی تقسیم کیا گیا تھا۔ “ لکم شرب یوم معلوم ” قوم صالح (علیہ السلام) سے فرمایا کہ پانی پینے کی ایک روز تمہاری باری ہوگی۔ اور ایک روز اونٹنی کی ۔ قوم نے مقررہ حد سے تجاوز کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری قوم تباہ ہوگئ۔ ایک اعتراض اور اس کا جواب : بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ پتھر سے پانی کیسے آیا۔ یہ خلاف عقل معلوم ہوتا ہے یہ اعتراض درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کی چیزوں کو اپنی ناقص عقل سے قیاس کرنا مناسب نہیں۔ ایسا کام ناقص العقل لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے سائنس دان ، ریاضی دان ، جغرافیہ دان سب کے سب ناقص العقل ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت تخلیق کی کوئی خبر نہیں۔ وہ تو محض اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 57 ، تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 260) کہ پتھر سے پانی نکلنا کون سی بعید العقل بات ہے۔ یہ تو عام مشاہدے کی بات ہے۔ مقناطیس بھی ایک پتھر ہی ہے۔ جو لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی تاثیر پیدا کردی ہے ۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی پتھر میں پانی کو اپنی طرف کھینچنے کی تاثیر پیدا کر دے۔ تو یہ کون سی ایسی بات ہے۔ جو عقل میں نہ آتی ہو۔ ہاں سر سید کو سمجھ میں نہ آسکی۔ پانی تو پتھر کے نیچے موجود تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پتھر کو ذرا سا ہلا دیا تو پانی کود پڑا۔ سرسید بیچارہ تو نیچریت کا امام تھا۔ اور معجزات کا منکر تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ پانی کا اجراء محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ یہ معجزہ تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ظاہر ہوا۔ بحیرہ قلزم میں کیا ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی چلائی اور بارہ راستے بن گئے ۔ پانی کناروں کے ساتھ منجمہ ہو کر رہ گیا۔ وہاں لاٹھی مارنے کا حکم ہوا۔ تو پانی میں راستے بن گئے اور یہاں لاٹھی باری تو خشک پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ پانی نکالنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ لاٹھی مارنا تمہارا کام ہے۔ معجزہ اور کرامت : نبی کا معجزہ ہو یا ولی کی کرامت ہو۔ اصل حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ کام کرنے والی وہی ذات ہے۔ اسی مقام پر آکر لوگ ٹھوکر کھا جاتے۔ نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت کو ان کا ذاتی فعل سمجھتے ہیں۔ اور شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو ان کا ذاتی فعل سمجھا۔ وہ شرک میں مبتلا ہوگئے۔ حالانکہ وہ تو “ باذن اللہ ” تھا فرمایا “ وابری الاکمہ والابرص واحی الموتی باذن اللہ ” میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور ابرص کو ٹھیک کرتا ہوں۔ اور مردے میں جان ڈال دیتا ہوں۔ اسی طرح اولیاء اللہ کی جو کرامات صحیح طریقے سے ثابت ہیں۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عزت بخشتے ہیں اس کے ہاتھ پر کرامت ظاہر ہوجاتی ہے اپنی مرضی سے تو کوئی نبی بھی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک میں تصریح موجود ہے۔ “ وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ ” فعل تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ مگر نبی کے ہاتھ پر ظاہر کردیا جاتا ہے۔ ہمارے ہادی اعظم (علیہ السلام) کی زندگی میں بیشمار معجزات پیش آئے۔ پتھروں سے پانی نکلنا تو عام مشاہدہ کی بات ہے۔ جنگلوں اور پہاڑوں سے چشمے نکلتے ہیں۔ مگر ہمارے نبی رحمت (علیہ السلام) کا معجزہ ملاحظہ فرمائیے کہ ہاتھ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں (1 ۔ بخاری ج 1 ص 505 ، مسلم ج 2 ص 245) کہ لشکر اسلامی جہاد کے لیے سفر پر تھا راستے میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ کسی کے پاس تھوڑا بہت پانی ہے تو پیش کیا جائے۔ چناچہ ایک لوٹے میں تھوڑا سا پانی حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ آپ نے اس پانی سے وضو فرمایا پھر وہ پانی پیالے میں ڈال کر اپنا ہاتھ مبارک اس پیالے میں رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے انگلیوں مبارکہ کے نیچے سے پانی کا چشمہ جارہ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا یہ بابرکت پانی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے نکالا ہے۔ آؤ پانی پی لو اور اس سے وضو کرو لوگوں نے پانی حاصل کیا اس سے وضو کیا۔ اس میں سے پیا اور دوسری ضروریات پوری کیں۔ جب سارا لشکر سیراب ہوگیا۔ تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اٹھا لیا اور پانی نکلنا بند ہوگیا۔ اسی لیے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیاء (علیہم السلام) کو جو معجزات عطا کیے وہ اس کا کمال ہے مگر جو معجزات حضور ﷺ کو عنایت کیے وہ کمالوں سے بھی بڑھ کر کمال ہے۔ معجزہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ہو یا ہمارے رسول اعظم ﷺ کا ہو۔ اصل میں کمال اللہ تعالیٰ کا ہی ہے۔ ہرنعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر : بنی اسرائیل کے کھانے کے لئے من و سلوٰی کا بندوبست ہوگیا۔ اور پینے کے لیے بارہ چشمے جاری ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ کلوا وشربوا من رزق اللہ ” اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روزی سے کھاؤ اور پیو بنی اسرائیل کو خطاب کرکے ساری نوع انسانی کو یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ ہر قسم کی روزی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے۔ اسے کھاؤ اور پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔ شیخ سعدی (رح) نے بڑی اچھی بات کہی ہے۔ ؎ ابروباد ومہ و خورشید و فلک درکارند تاتونانے بکف آری و بغفلت نخوری ہمہ از بہر تو سرگشتہ و فرماں بردار شرط انصاف بنا شد کہ تو فرمان نبری فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے گردش کر رہی ہیں۔ تاکہ تو روٹی کو ہاتھ میں لائے اور غفلت سے نہ کھائے۔ روٹی کھاتے وقت انسان کو غور کرنا چاہئے کہ روٹی کا یہ ٹکڑا کتنے مراحل طے کرکے آپ کے ہاتھ میں پہنچتا ہے۔ کارخانہ قدرت میں لاکھوں مشینیں اور کروڑوں ہاتھ کام کر رہے ہیں۔ جب ایک روٹی اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ میں دیتا ہے ، پانی کا ایک گلاس جو آپ کے ہونٹوں تک پہنچتا ہے۔ یہ کن کن مشقتوں سے گزر کر آتا ہے۔ اسی طرح لباس کی تیاری میں کتنی مشینیں ، کتنا خام مال ، کتنے انسانی دماغ اور ہاتھ کام کرتے ہیں۔ تب جا کر زینت اور سترپوشی کے لیے کپڑا مہیا ہوتا ہے۔ یہ تمام چیزیں انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں کہ جس مالک الملک نے انسان کو اس قدر انعامات سے نوازا ہے۔ اس کی روزی استعمال کرکے کیا اس کا شکر یہ ادا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ اسی لیے فرمایا کہ کس قدر ناانصافی کی بات ہوگی۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتیں استعمال کرنے کے بعد اس کی فرمانبرداری نہ کرو۔ قرآن پاک میں دوسری مقام پر آتا ہے۔ “ کلوا من طیبت ما رزقنکم ” حلال اور بیب چیزیں کھاؤ جو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں “ واشکرو اللہ ان کنتم ایاہ تعبدون ” اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ، اگر تم اسی کے بندے ہو۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ناداروں کو محروم نہ رکھو۔ تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے تم مالک ہو۔ مگر اس بات کی طرف غور نہیں کرتے کہ یہ نعمت آئی کہاں سے ہے۔ یہ کس کی عنایت ہے۔ یاد رکھو ۔ اگر غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کو محروم رکھو گے ۔ ان کے حق ادا نہیں کرو گے تو یہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور مستحقین پر زیادتی ہوگی۔ ہر صاحب استطاعت کا فرض ہے کہ وہ ناداروں کا خیال رکھے۔ اسے دیکھنا چاہئے کہ سوسائٹی میں کوئی بھوکا یا ننگا نہ رہے۔ خاص طور پر برسراہان مملکت کا یہ فرض منصبی ہے۔ کہ اپنے اپنے ملک میں حاجت مندوں کی خبر گیری کریں۔ ضیاء الدین برنی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بادشاہ یا حاکم حقیقت میں وہ ہے جس کی سلطنت میں کوئی شخص بھاکا ۔ ننگا نہ رہے ، امور سلطنت اس طریقے پر سر انجام دینے چاہئیں کہ ہر شخص کو اس کی بنیادی ضروریات مہیا ہوں۔ بیشک اعلیٰ درجے کی ضروریات نہ بھی حاصل ہو سکیں ۔ تو کم از کم ادنی درجے کی تو ملنی چاہیں۔ ہر شخص کے کھانے پینے ، پہننے اور رہنے کے لیے انتظام ہونا چاہئے۔ لہٰذا یہ انسانوں کا اجتماعی فریضہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روزی استعمال کریں۔ اور اس کا شکریہ بھی ادا کریں۔ فساد فی الارض : افسوس کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں نیکی کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے ، جس کے پاس دولت آتی ہے وہ اسے اپنے باوا کی سمجھتا ہے۔ نہ خدا کا حق نہ رسول کا حق اور نہ انسانیت کا حق۔ کسی چیز کی پروا نہیں کرتا۔ مستحقین پر خرچ کرنے کی بجائے رسم و رواج پر خرچ ہوتا ہے۔ مشرکانہ افعال پر خرچ ہوتا ہے۔ بےحیائی اور فحاشی پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ ساری ناشکر گزاری کی مدات ہیں۔ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ حساب نہیں لے گا یا اس کی پکٖڑ نہیں ہوگی۔ ایک ایسا دن آنے والا ہے۔ جب ہر چیز کا محاسبہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اسی لیے فرمایا کھاؤ اور پیو اللہ تعالیٰ کی روزی سے “ ولا تعثوا فی الارض مفسدین ” زمین میں فساد کرتے ہوئے نہ چلو۔ فساد سے مراد خدا تعالیٰ کے قانون و شریعت اور دین کے خلاف چلنا ہے۔ سارے فساد کی جڑیہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا “ کلوا مما فی الارض من حللا طیبا ولا تتبعوا خطوت الشیطن ” حلال اور پاک چیزیں کھاؤ مگر شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ شریعت کے خلاف قدم اٹھانا شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ بدعت ، شرک ، معصیت وغیرہ خلاف شریعت ہیں۔ اور اسی کو فساد کہا گیا ہے۔ جہاں فساد ہوگا وہاں امن و چین نصیب نہیں ہوسکتا۔ نہ ہم خدا تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کر رہے ہیں نہ قانون شریعت کا احترام کر رہے ہیں۔ اسلام کا نام کتنے زور و شور سے لیتے ہیں۔ مگر عمل صفر کے برابر ہے۔ البتہ ظلم و ستم کا کوئی شمار نہیں۔ اس ماہ کی ابتدائی تاریخوں کی اخباری خبر ہے کسی گھر میں نوجوان لڑکی اور بچہ تھا۔ ماں باپ کہیں گئے ہوئے تھے۔ رات کے وقت دو سپاہی دونوں کو اٹھا کرلے گئے۔ اور ایک مکان میں بند کردیا۔ اور اس بچی کے ساتھ زیادتی کی۔ یہ تو ان سرکاری کارندوں کا حال ہے۔ جو خود دوسروں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ جب ان کا یہ حال ہے تو دوسرے لوگوں کا کیا ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مجرموں کی نشاندہی ہونے کے باوجود اگر ان تک قانون کا ہاتھ نہیں پہنچتا تو اس صورت میں کیا خدا تعالیٰ کا قہر نازل نہیں ہوگا۔ بہرحال اس قسم کے واقعات فساد فی الارض کے نمونے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم سب نے خدا تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ رکھا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ شیطان کے نقش قدم پر چلنا اسی کا نام ہے۔ الغرض فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روزی سے کھاؤ پیو۔ مگر زمین میں فساد برپا نہ کرو۔
Top