Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور البتہ تحقیق ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے بعد کہ بیشک زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے
ربط آیات : یہ مکی سورة ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے توحید ، رسالت اور قیامت کے تین اہم بنیادی مسائل بیان فرمائے ہیں۔ رسالت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کے حالات ، ان کی پاک سیرت ، ان کا طریقہ تبلیغ اور بارگاہ رب العزت میں ان کی مناجات کا تذکرہ کیا ہے ان پر بہت سی مصیبتیں بھی آئیں جنہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے کمال صبر و تحمل کا نمونہ پیش کیا۔ اس میں حضور ﷺ اور آپ کے رفقا کے لئے تسلی کا مضمون بھی ہے کہ سابقہ انبیاء کی طرح وہ بھی مصائب کو برداشت کرتے ہوئے تبلیغ دین کا کام جاری رکھیں ، بالآخر اللہ تعالیٰ انہی کو کامیابی عطا فرمائے گا۔ آج کی آیات میں پہلے تسلی کا مضمون ہے اور پھر حضور خاتم النبیین کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد توحید کا مسئلہ بیان ہوا ہے اور پھر کفار ومشرکین کو تنبیہ کی گئی ہے۔ وراثت ارضی : ارشاد ہوتا ہے ولقدکتبنا فی الزبور من بعد الذکر اور البتہ تحقیق ہم نے زبور میں لکھ دیا ہے ذکر کے بعد۔ اس حصہ آیت میں زبور اور ذکر کرکے الفاظ خاص طور پر توجہ طلب میں کہ ان سے کیا مراد ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ زبور سے مراد آسمانی صحیفے ہیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس طرح جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ لوح محفوظ میں درج کرنے کے بعد ہم نے یہ بات آسمانی صحائف میں لکھ دی ہے امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے کل ایک سو چار آسمانی صحائف نازل فرمائے ہیں جن میں سے چار بڑی کتابیں ، زبور ، تورات ، انجیل اور قرآن پاک ہیں اور باقی ایک سو چھوٹے صحائف ہیں۔ تاہم بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مقام پر ذکر سے مراد نصیحت ہے اور زبور سے مراد کتاب زبور ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) پر نازل فرمائی جیسے فرمایا واتینا دائو د زبورا (النساء 163) اور ہم نے دائود (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی ۔ اس طرح مفہوم یہ ہوگا کہ نصیحت کرنے کے بعد ہم نے زبور میں یہ بات لکھ دی ہے ان الارض یرثھا عبادی الصلحون کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ چناچہ زبور میں آج بھی یہ آیتیں موجود ہیں کہ شریر لوگ فنا کردیئے جائیں گے ، اور حلیم اور بردبار لوگ زمین کے وارث ہوں گے یا اس طرح کے الفاظ ہیں کہ نیک لوگ ہی زمین کے وارث ہوں گے۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین سے مراد اس دنیا کی زمین ہے یا جنت کی سرزمین۔ بعض اسے جنت کی زمین پر محمول کرتے ہیں۔ جیسے سورة الزمر میں ہے واورثنا الارض نتبوامن الجنۃ حیث نشاء (آیت 74) اللہ نے ہمیں وراثت میں جنت عطافرمائی ہے اس سرزمین میں ہم جہاں چاہتے ہیں رہتے ہیں۔ ہمارے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ تاہم اس مقام پر ارض سے مراد اس دنیا کی زمین ہی ہے کہ اس زمین کی وراثت کے حقدار میرے نیک بندے ہی ہوں گے یہاں پر بھی دوقول ہیں۔ بعض اس سے عام زمین مراد لیتے ہیں۔ کہ اس سطح ارضی پر اللہ کے نیک بندے برسراقتدار ہوں گے ، اور بعض اسے ارض مقدس شام و فلسطین پر محمول کرتے ہیں کہ اس سرزمین کے وارث اللہ کے نیک بندے ہوں گے۔ یہ نیک لوگ حضور ﷺ کی امت کے لوگ ہیں ، چناچہ یہ پیشن گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں سرزمین شام و فلسطین کی وراثت اللہ نے مسلمانوں کے سپرد کردی اور عرصہ دراز تک یہ امانت انہیں کے پاس رہی۔ درمیان میں کچھ حوادثات بھی پیش آئے جن کی وجہ سے صلیبی جنگوں کے زمانے میں یہ سرزمین اسی سال تک غیر مسلموں کے قبضے میں رہی۔ پھر صلاح الدین ایوبی (رح) کے دور میں یہ خط ارضی مسلمانوں کو واپس ملا۔ اس کے بعد ترکوں کے زمانہ تک یہ علاقہ مسلمانوں ہی کے زیر تسلط رہا اور آخر میں روس ، امریکہ اور انگریزوں نے سازش کرکے اسے یہودیوں کے وطن میں تبدیل کردیا ، اگرچہ وہاں مسلمان بھی موجود ہیں مگر حکومت یہودیوں کی ہے جسے اسرائیل کا نام دیا گیا ہے۔ اور اگر اس سے عام زمین بھی مراد لی جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بھی کررکھا ہے جیسے سورة النور میں ہے وعداللہ……………قبلھم (آیت 55) کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال انجام دیں گے ، انہیں اسی طرح زمین کی خلافت عطا کروں گا ، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی۔ مسلمانوں کا عروج وزوال : یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں پورا کردیا اور خلفائے راشدین ؓ اس کا اولین نمونہ ہیں۔ اس زمین کے وارث اللہ کے نیک بندے خلفائے راشدین تھے۔ یہ مکمل نمونہ تیس برس تک قائم رہا۔ اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی ترقی اور عروج ساڑھے چھ سو سال تک جاری رہی ۔ پھر مسلمانوں میں کمزوریاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں اور خلافت علیٰ منہاج نبوۃ کی عمارت میں دارڑیں پڑنے لگیں۔ مسلمان حکمرانوں میں آرام طلبی اور عیاشی پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے ان میں تغیر آگیا۔ یہ انحطاط تاتاریوں کے زمانے سے شروع ہوا اور آج تک مسلسل چلا آرہا ہے مگر جیسا کہ قرآن وسنت کی تعلیم سے ظاہر ہوتا ہے آخر میں ایک دفعہ پھر دنیا میں مسلمانوں ہی کو غلبہ حاصل ہوگا۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو مسیحیوں کے ہاتھوں بڑی تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی۔ آج دیکھ لیں ، اسلامی ملکوں کا سارا انتشار انگریزوں کا پیدا کردہ ہے۔ روس کے بگڑے ہوئے عیسائی دہریت کی آغوش میں چلے گئے۔ جب کہ امریکی عیسائی یا یہودی ہیں۔ یہ یورپ اور امریکہ کے عیسائی ہی ہیں جو دنیا بھر میں مسلمان سلطنتوں کا اکھاڑ پچھاڑ کر رہے ہیں ، انہوں نے مشنریاں اور کمیٹیاں بنارکھی ہیں جو مسلمانوں کو آپس میں لڑاتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ بہرحال قرآن پاک کی اس پیشن گوئی کے مطابق مسلمان عرصہ دراز تک اس سرزمین کے وارث رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان فی ھذا لبلغا لقوم عبدین بیشک اس میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے کفایت ہے۔ یعنی عبادت گزاروں کے لئے قرآن کا پیش کردہ پروگرام ہی کافی ہے۔ انہیں کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مسلمان اس پروگرام کے مطابق اپناعقیدہ اور عمل ڈھال لیں تو یقینا مراد کو پہنچ جائیں گے۔ بعض فرماتے ہیں لبلغا کا معنی یہ ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے عبادت گزار انسان یقینا اپنے مطلب یا مراد کو پہنچ جائیں گے ، اللہ تعالیٰ نے پہلی کتابوں کی پیشن گوئیوں کو بھی پورا کیا ، اور اس آخرت کتاب کی پیشن گوئی بھی پوری ہوگی بشرطیکہ اہل اسلام توحید اور نیکی پر قائم رہیں ۔ اگر لوگ ظلم و زیادتی کریں گے ، کفر ، شرک اور معاصی میں مبتلا رہیں گے تو پھر گرفت بھی آئے گی۔ اور وہ خدا تعالیٰ کی سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔ حضور ﷺ بطور رحمۃ العالمین : اگلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی تعریف بیان کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین اے پیغمبر ﷺ ! ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لئے حضور ﷺ کا وجود مبارک تمام کائنات کے لئے باعث رحمت ہے ، اور اس لحاظ سے آپ نبی رحمت ہیں۔ چناچہ آپ کا نام نبی الرحمۃ اور نبی الملحمۃ بھی ہے۔ آپ کی وجہ سے اللہ نے اپنی مخلوق پر بےانتہا رحمت فرمائی ۔ یہاں پر یہ اشکال پیدا ہونا ہے کہ مومنوں کے لئے باعث رحمت ہونا سمجھ میں آتا ہے مگر کافروں کے لئے آپ کیسے رحمت ہیں جب کہ ان کے خلاف جہاد بھی کیا جاتا ہے اور ان کو تکالیف بھی پہنچائی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ اس کی مثال اس طرح ہے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی روشنی اور حرارت سے پوری دنیا مستفید ہوتی ہے۔ اگ اگر کوئی شخص ازخود اپنے مکان کے دروازے اور کھڑکیاں بند کرکے روشنی اور حرارت سے محروم ہونا چاہتا ہے تو یہ اس کی اپنی بدبختی ہے ورنہ سورج کی خدمات تو ہر ایک کے لئے یکساں طور پر میسر ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ تمام جہانوں کے لئے باعث رحمت ہیں اور اب نافرمان اگر خود اس سے مستفید نہیں ہوتے تو یہ ان کی اپنی بدبختی ہے ، ورنہ حضور ﷺ کی رحمت تو ہر خاص وعام کے لئے موجود ہے۔ اس حقیقت سے مجال انکار نہیں کہ اپنی تمام تر مخالفت اور توحید و رسالت کے انکار کے باوجود دنیا کی تمام قومیں حضور ﷺ کی رسالت ونبوت کے فیضان سے مستفید ہورہی ہیں۔ حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے کے تمام انبیاء کی تہذیب اور تعلیم مٹ چکی تھی۔ مسیح (علیہ السلام) سے لے کر حضور کریم ﷺ تک کے چھ سو سال کے عرصہ میں دنیا میں تاریکی چھائی رہی۔ جب آپ کی بعثت ہوئی تو ترقی کی راہیں دوبارہ کھل گئیں مابعد کی دنیا کی ساری ترقی حضور ﷺ کی تہذیب وتعلیم کا فیضان ہے۔ یہ آپ ہی کی تہذیب کا ثمرہ ہے کہ انگریز اور امریکی آج ترقی یافتہ لوگ سمجھے جاتے ہیں حالانکہ نزول قرآن کے زمانے میں یہ لوگ وحشیانہ زندگی گزار رہے تھے۔ یہ تو لباس سے بھی عاری تھے ، محض پشتوں پر چمڑا باندھتے تھے ۔ ان کی ترقی تو چودھویں صدی عیسوی میں اس وقت شروع ہوئی جب مسلمانوں پر انحطاط کا دور شروع ہوا۔ غرضیکہ ان کی ساری ترقی مسلمانوں کے مرہون منت ہے۔ مسلمانوں کا علمی ذخیرہ : دوسری اور تیسری صدی میں مسلمانوں کو اندلس پر غلبہ حاصل رہا اور انہوں نے وہاں بڑی ترقی کی۔ مغرب میں قرطبہ میں اہل اسلام نے علمی طور پر بڑا نام پیدا کیا۔ آج کی ترقی یافتہ قومیں مسلمانوں کی اسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ میں چھ سو سال تک شیخ ابن سینا کا طب پڑھایا جاتا رہا۔ چوتھی صدی کے اس عظیم طبیب نے علم طب پر ” القانون “ اور ” الادویہ “ جیسی عظیم کتابیں لکھی جنہیں آج بھی انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ خود کہتا تھا کہ طب سے تو میں محض شغف رکھتا ہوں میرا اصل موضوع فلسفہ ہے۔ اس موضوع پر اس نے پانچ جلدوں میں ” الشفائ “ جیسی ضخیم کتاب لکھی جس کے پچھتر فیصد نظریات آج بھی درست مانے جاتے ہیں۔ یورپی قوموں نے ان کتابوں کے نظریات کو اپنی کتابوں میں شامل کرلیا اور ان کتابوں کو ضائع کردیا۔ اب دیکھئے جرمنی کے ہسٹر سپرنگر نے انیسویں صدی عیسوی میں مسند احمد شائع کرائی۔ یہ علم کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جس میں تیس ہزار حدیثیں بمعہ سند درج ہیں۔ اس سے عیسائی یہودی اور سارے لوگ مستفید ہوسکتے ہیں۔ پھر جرمنوں کو خیال پیدا ہوا کہ دنیا میں روز مرہ کی جنگوں سے نپٹنے کے لئے صلح وجنگ کا بھی کوئی قانون ہونا چاہیے۔ جس کے ذریعے لوگوں کو تباہی سے بچایا جاسکے۔ چناچہ انہوں نے امام محمد (رح) کی کتاب ” السیر الکبیر “ شائع کی جس میں حضور ﷺ کے غزوات کی تفصیل اور اصول وقوانین موجود ہیں ۔ اس بےمثال کتاب سے ساری دنیا مستفید ہورہی ہے۔ دنیا کی کسی دوسری تہذیب میں ایسی چیزیں نہیں ہیں۔ کیا یہ حضور ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کی کافی دلیل نہیں ہے ؟ مگر کیا کیا جائے اس تعصب اور عناد کا کہ غیر مسلم اقوام جس چیز سے مستفید ہوتی ہیں انہی کو مٹانے کی کوشش بھی کرتی ہیں تاکہ ساری تہذیب و ترقی اور علم وتحقیق کا سہرا اپنے سر باندھ لیں یہ وہ حقائق ہیں جن سے حضور ﷺ کے تہذیبی ، تمدنی ، تعلیمی ، تحقیقی اور اخلاقی فیضان کا پتہ چلتا ہے اور اس سے مسلم اور غیر مسلم سب لوگوں نے یکساں طور پر فائدہ اٹھایا۔ مولاناابوالکلام آزاد (رح) چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو اس بات کی تحقیق کرے کہ غیر مسلم اقوام نے حضور ﷺ کی نبوت اور تعلیم سے کس قدر فیضان حاصل کیا اور اس طرح آپ کی رحمتہ للعالمین ہونے کی حیثیت کو واضح کیا جاسکے۔ آپ (علیہ السلام) نے نہ صرف انسانوں کے حقوق کا تعین کیا ، بلکہ جانوروں ، درندوں ، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کے حقوق بھی بتلائے۔ صلح وجنگ سے متعلق آپ نے قیدیوں سے حسن سلوک کا طریقہ بتلایا۔ یہ سب اقوام عالم کے لئے آپ کی نبوت کا فیضان ہے۔ توحید ذریعہ رحمت ہے : آگے اللہ نے وہ نقطہ توحید بیان فرمایا ہے جو حضور ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کی بنیاد ہے۔ فرمایا قل انما یوحی الی اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ میری طرف اس بات کی وحی کی گئی ہے انما الھکم الہ واحد کہ تمہارا معبود برحق صرف ایک ہی معبود ہے۔ اس کی توحید کو مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔ یہ اصول اللہ کی کتاب ، حضور ﷺ کی نبوت اور آپ کی تعلیم سے دنیا کو نصیب ہوا۔ حضور ﷺ کی بعثت کے وقت توحید کا نام ونشان تک مٹ چکا تھا۔ ہر طرف کفر وشرک کا راج تھا۔ توحید کے پیاسوں کو توحید کا کہیں پتہ نہیں چلتا تھا۔ آپ تشریف لائے تو توحید کی کرن پھوٹی ، آپ کی تعلیم سے ہی توحید کے پودے کی آبیاری ہوئی اور اس طرح توحید اللہ کی رحمت کا سب سے بڑا سبب بن گئی۔ فرمایا فھل انتم مسلمون کیا تم فرمانبردار بننے کے لئے تیار ہو ؟ مطلب یہ کہ توحید و رسالت کو تسلیم کرکے اللہ کی رحمت سے اپنا حصہ وصول کرلو۔ فرمایا فان تولوا اگر یہ لوگ روگردانی کریں ، دین حق کو اختیار نہ کریں فقل اذنتکم علی سواء میں نے تم کو برابر سرابر خبردار کردیا ہے یعنی نیک وبد سے تمہیں آگاہ کردیا ہے۔ اچھے اور برے راستے کی نشاندہیکردی ہے۔ اب جونسا راستہ چاہو اختیار کرلو۔ وقوع قیامت کا وقت : فرمایا ، میں نے تمہیں اچھے برے کی تمیز سکھلادی ہے۔ اب جزا اور سزاکب واقع ہوگی وان ادری اقریب ام بعید ماتوعدون میں نہیں جان تاکہ جس چیز (قیامت) کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا بعید۔ اس کا علم تو اللہ رب العزت کے پاس ہے انہ یعلم الجھر من القول بیشک وہ تمہاری پکار کر کی جانے والی بات کو بھی جانتا ہے ویعلم ماتکتمون اور اس چیز کو بھی جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔ اپنی حکمت اور مصلحت کو وہ خودہی جانتا ہے کہ کب مجموعہ عالم کے اختتام کا وقت ہوگا اور کب جزائے عمل کی منزل آئے گی۔ فرمایا وان ادری لعلہ فتنۃ لکم اور میں نہیں جانتا شاید کہ یہ تمہارے لئے آزمائش کا سامان ہو۔ ومتاع الی حین اور شایدیہ ایک مقررہ وقت تک فائدہ اٹھانے کا سامان ہو۔ مگر بالآخر قیامت برپا ہو کر رہیگی اور سب کو اپنے اعمال کا حساب پیش کرنا ہوگا۔ فیصلے کا انتظار : آخر میں اللہ کے نبی نے اللہ کی بارگاہ میں اپنی درخواست پیش کردی جیسا کہ پہلے نبی پیش کرتے رہے ہیں قال رب احکم بالحق ، اور دیگر انبیاء نے بھی یہی کہا ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق ، اے اللہ ! اب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ کردے ہم نے فریضہ تبلیغ ادا کردیا ہے مگر یہ لوگ نہیں مانتے ، لہٰذا اب تو ہی اپنا فیصلہ صادر فرما۔ فرمایا ہم اپنے پروردگار کی رحمت سے مایوس نہیں ہیں ۔ کیونکہ وربنا الرحمن المستعال علی ماتصفون ہمارا پروردگار رحمان بیحد مہربانی کرنے والا ہے ان بیہودہ باتوں کے خلاف جو تم کرتے ہو۔ تم لوگ حق وصداقت ، اللہ کے نبی اور اس کی توحید کے خلاف جو ہرزہ سرائی کر رہے ہو۔ ہم اس کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مدد کے طلبگار ہیں ، اسی کی ذات پر ہم بھروسہ کرتے ہیں اور وہی تم سے انتقام لے گا۔ سورۃ کے آخر میں رسالت ، توحید اور جزائے عمل کا بیان ایک دفعہ پھر آگیا ہے۔ اس میں تسلی کا مضمون بھی ہے۔
Top