Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا
: اور تحقیق ہم نے لکھا
فِي الزَّبُوْرِ
: زبور میں
مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ
: نصیحت کے بعد
اَنَّ
: کہ
الْاَرْضَ
: زمین
يَرِثُهَا
: اس کے وارث
عِبَادِيَ
: میرے بندے
الصّٰلِحُوْنَ
: نیک (جمع)
اور البتہ تحقیق ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے بعد کہ بیشک زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے
ربط آیات : یہ مکی سورة ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے توحید ، رسالت اور قیامت کے تین اہم بنیادی مسائل بیان فرمائے ہیں۔ رسالت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کے حالات ، ان کی پاک سیرت ، ان کا طریقہ تبلیغ اور بارگاہ رب العزت میں ان کی مناجات کا تذکرہ کیا ہے ان پر بہت سی مصیبتیں بھی آئیں جنہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے کمال صبر و تحمل کا نمونہ پیش کیا۔ اس میں حضور ﷺ اور آپ کے رفقا کے لئے تسلی کا مضمون بھی ہے کہ سابقہ انبیاء کی طرح وہ بھی مصائب کو برداشت کرتے ہوئے تبلیغ دین کا کام جاری رکھیں ، بالآخر اللہ تعالیٰ انہی کو کامیابی عطا فرمائے گا۔ آج کی آیات میں پہلے تسلی کا مضمون ہے اور پھر حضور خاتم النبیین کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد توحید کا مسئلہ بیان ہوا ہے اور پھر کفار ومشرکین کو تنبیہ کی گئی ہے۔ وراثت ارضی : ارشاد ہوتا ہے ولقدکتبنا فی الزبور من بعد الذکر اور البتہ تحقیق ہم نے زبور میں لکھ دیا ہے ذکر کے بعد۔ اس حصہ آیت میں زبور اور ذکر کرکے الفاظ خاص طور پر توجہ طلب میں کہ ان سے کیا مراد ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ زبور سے مراد آسمانی صحیفے ہیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس طرح جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ لوح محفوظ میں درج کرنے کے بعد ہم نے یہ بات آسمانی صحائف میں لکھ دی ہے امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے کل ایک سو چار آسمانی صحائف نازل فرمائے ہیں جن میں سے چار بڑی کتابیں ، زبور ، تورات ، انجیل اور قرآن پاک ہیں اور باقی ایک سو چھوٹے صحائف ہیں۔ تاہم بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مقام پر ذکر سے مراد نصیحت ہے اور زبور سے مراد کتاب زبور ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) پر نازل فرمائی جیسے فرمایا واتینا دائو د زبورا (النساء 163) اور ہم نے دائود (علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی ۔ اس طرح مفہوم یہ ہوگا کہ نصیحت کرنے کے بعد ہم نے زبور میں یہ بات لکھ دی ہے ان الارض یرثھا عبادی الصلحون کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ چناچہ زبور میں آج بھی یہ آیتیں موجود ہیں کہ شریر لوگ فنا کردیئے جائیں گے ، اور حلیم اور بردبار لوگ زمین کے وارث ہوں گے یا اس طرح کے الفاظ ہیں کہ نیک لوگ ہی زمین کے وارث ہوں گے۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین سے مراد اس دنیا کی زمین ہے یا جنت کی سرزمین۔ بعض اسے جنت کی زمین پر محمول کرتے ہیں۔ جیسے سورة الزمر میں ہے واورثنا الارض نتبوامن الجنۃ حیث نشاء (آیت 74) اللہ نے ہمیں وراثت میں جنت عطافرمائی ہے اس سرزمین میں ہم جہاں چاہتے ہیں رہتے ہیں۔ ہمارے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ تاہم اس مقام پر ارض سے مراد اس دنیا کی زمین ہی ہے کہ اس زمین کی وراثت کے حقدار میرے نیک بندے ہی ہوں گے یہاں پر بھی دوقول ہیں۔ بعض اس سے عام زمین مراد لیتے ہیں۔ کہ اس سطح ارضی پر اللہ کے نیک بندے برسراقتدار ہوں گے ، اور بعض اسے ارض مقدس شام و فلسطین پر محمول کرتے ہیں کہ اس سرزمین کے وارث اللہ کے نیک بندے ہوں گے۔ یہ نیک لوگ حضور ﷺ کی امت کے لوگ ہیں ، چناچہ یہ پیشن گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں سرزمین شام و فلسطین کی وراثت اللہ نے مسلمانوں کے سپرد کردی اور عرصہ دراز تک یہ امانت انہیں کے پاس رہی۔ درمیان میں کچھ حوادثات بھی پیش آئے جن کی وجہ سے صلیبی جنگوں کے زمانے میں یہ سرزمین اسی سال تک غیر مسلموں کے قبضے میں رہی۔ پھر صلاح الدین ایوبی (رح) کے دور میں یہ خط ارضی مسلمانوں کو واپس ملا۔ اس کے بعد ترکوں کے زمانہ تک یہ علاقہ مسلمانوں ہی کے زیر تسلط رہا اور آخر میں روس ، امریکہ اور انگریزوں نے سازش کرکے اسے یہودیوں کے وطن میں تبدیل کردیا ، اگرچہ وہاں مسلمان بھی موجود ہیں مگر حکومت یہودیوں کی ہے جسے اسرائیل کا نام دیا گیا ہے۔ اور اگر اس سے عام زمین بھی مراد لی جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بھی کررکھا ہے جیسے سورة النور میں ہے وعداللہ……………قبلھم (آیت 55) کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال انجام دیں گے ، انہیں اسی طرح زمین کی خلافت عطا کروں گا ، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی۔ مسلمانوں کا عروج وزوال : یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں پورا کردیا اور خلفائے راشدین ؓ اس کا اولین نمونہ ہیں۔ اس زمین کے وارث اللہ کے نیک بندے خلفائے راشدین تھے۔ یہ مکمل نمونہ تیس برس تک قائم رہا۔ اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی ترقی اور عروج ساڑھے چھ سو سال تک جاری رہی ۔ پھر مسلمانوں میں کمزوریاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں اور خلافت علیٰ منہاج نبوۃ کی عمارت میں دارڑیں پڑنے لگیں۔ مسلمان حکمرانوں میں آرام طلبی اور عیاشی پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے ان میں تغیر آگیا۔ یہ انحطاط تاتاریوں کے زمانے سے شروع ہوا اور آج تک مسلسل چلا آرہا ہے مگر جیسا کہ قرآن وسنت کی تعلیم سے ظاہر ہوتا ہے آخر میں ایک دفعہ پھر دنیا میں مسلمانوں ہی کو غلبہ حاصل ہوگا۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو مسیحیوں کے ہاتھوں بڑی تکالیف برداشت کرنا پڑیں گی۔ آج دیکھ لیں ، اسلامی ملکوں کا سارا انتشار انگریزوں کا پیدا کردہ ہے۔ روس کے بگڑے ہوئے عیسائی دہریت کی آغوش میں چلے گئے۔ جب کہ امریکی عیسائی یا یہودی ہیں۔ یہ یورپ اور امریکہ کے عیسائی ہی ہیں جو دنیا بھر میں مسلمان سلطنتوں کا اکھاڑ پچھاڑ کر رہے ہیں ، انہوں نے مشنریاں اور کمیٹیاں بنارکھی ہیں جو مسلمانوں کو آپس میں لڑاتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ بہرحال قرآن پاک کی اس پیشن گوئی کے مطابق مسلمان عرصہ دراز تک اس سرزمین کے وارث رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان فی ھذا لبلغا لقوم عبدین بیشک اس میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے کفایت ہے۔ یعنی عبادت گزاروں کے لئے قرآن کا پیش کردہ پروگرام ہی کافی ہے۔ انہیں کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مسلمان اس پروگرام کے مطابق اپناعقیدہ اور عمل ڈھال لیں تو یقینا مراد کو پہنچ جائیں گے۔ بعض فرماتے ہیں لبلغا کا معنی یہ ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے عبادت گزار انسان یقینا اپنے مطلب یا مراد کو پہنچ جائیں گے ، اللہ تعالیٰ نے پہلی کتابوں کی پیشن گوئیوں کو بھی پورا کیا ، اور اس آخرت کتاب کی پیشن گوئی بھی پوری ہوگی بشرطیکہ اہل اسلام توحید اور نیکی پر قائم رہیں ۔ اگر لوگ ظلم و زیادتی کریں گے ، کفر ، شرک اور معاصی میں مبتلا رہیں گے تو پھر گرفت بھی آئے گی۔ اور وہ خدا تعالیٰ کی سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔ حضور ﷺ بطور رحمۃ العالمین : اگلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی تعریف بیان کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین اے پیغمبر ﷺ ! ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لئے حضور ﷺ کا وجود مبارک تمام کائنات کے لئے باعث رحمت ہے ، اور اس لحاظ سے آپ نبی رحمت ہیں۔ چناچہ آپ کا نام نبی الرحمۃ اور نبی الملحمۃ بھی ہے۔ آپ کی وجہ سے اللہ نے اپنی مخلوق پر بےانتہا رحمت فرمائی ۔ یہاں پر یہ اشکال پیدا ہونا ہے کہ مومنوں کے لئے باعث رحمت ہونا سمجھ میں آتا ہے مگر کافروں کے لئے آپ کیسے رحمت ہیں جب کہ ان کے خلاف جہاد بھی کیا جاتا ہے اور ان کو تکالیف بھی پہنچائی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ اس کی مثال اس طرح ہے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی روشنی اور حرارت سے پوری دنیا مستفید ہوتی ہے۔ اگ اگر کوئی شخص ازخود اپنے مکان کے دروازے اور کھڑکیاں بند کرکے روشنی اور حرارت سے محروم ہونا چاہتا ہے تو یہ اس کی اپنی بدبختی ہے ورنہ سورج کی خدمات تو ہر ایک کے لئے یکساں طور پر میسر ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ تمام جہانوں کے لئے باعث رحمت ہیں اور اب نافرمان اگر خود اس سے مستفید نہیں ہوتے تو یہ ان کی اپنی بدبختی ہے ، ورنہ حضور ﷺ کی رحمت تو ہر خاص وعام کے لئے موجود ہے۔ اس حقیقت سے مجال انکار نہیں کہ اپنی تمام تر مخالفت اور توحید و رسالت کے انکار کے باوجود دنیا کی تمام قومیں حضور ﷺ کی رسالت ونبوت کے فیضان سے مستفید ہورہی ہیں۔ حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے کے تمام انبیاء کی تہذیب اور تعلیم مٹ چکی تھی۔ مسیح (علیہ السلام) سے لے کر حضور کریم ﷺ تک کے چھ سو سال کے عرصہ میں دنیا میں تاریکی چھائی رہی۔ جب آپ کی بعثت ہوئی تو ترقی کی راہیں دوبارہ کھل گئیں مابعد کی دنیا کی ساری ترقی حضور ﷺ کی تہذیب وتعلیم کا فیضان ہے۔ یہ آپ ہی کی تہذیب کا ثمرہ ہے کہ انگریز اور امریکی آج ترقی یافتہ لوگ سمجھے جاتے ہیں حالانکہ نزول قرآن کے زمانے میں یہ لوگ وحشیانہ زندگی گزار رہے تھے۔ یہ تو لباس سے بھی عاری تھے ، محض پشتوں پر چمڑا باندھتے تھے ۔ ان کی ترقی تو چودھویں صدی عیسوی میں اس وقت شروع ہوئی جب مسلمانوں پر انحطاط کا دور شروع ہوا۔ غرضیکہ ان کی ساری ترقی مسلمانوں کے مرہون منت ہے۔ مسلمانوں کا علمی ذخیرہ : دوسری اور تیسری صدی میں مسلمانوں کو اندلس پر غلبہ حاصل رہا اور انہوں نے وہاں بڑی ترقی کی۔ مغرب میں قرطبہ میں اہل اسلام نے علمی طور پر بڑا نام پیدا کیا۔ آج کی ترقی یافتہ قومیں مسلمانوں کی اسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ میں چھ سو سال تک شیخ ابن سینا کا طب پڑھایا جاتا رہا۔ چوتھی صدی کے اس عظیم طبیب نے علم طب پر ” القانون “ اور ” الادویہ “ جیسی عظیم کتابیں لکھی جنہیں آج بھی انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ خود کہتا تھا کہ طب سے تو میں محض شغف رکھتا ہوں میرا اصل موضوع فلسفہ ہے۔ اس موضوع پر اس نے پانچ جلدوں میں ” الشفائ “ جیسی ضخیم کتاب لکھی جس کے پچھتر فیصد نظریات آج بھی درست مانے جاتے ہیں۔ یورپی قوموں نے ان کتابوں کے نظریات کو اپنی کتابوں میں شامل کرلیا اور ان کتابوں کو ضائع کردیا۔ اب دیکھئے جرمنی کے ہسٹر سپرنگر نے انیسویں صدی عیسوی میں مسند احمد شائع کرائی۔ یہ علم کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جس میں تیس ہزار حدیثیں بمعہ سند درج ہیں۔ اس سے عیسائی یہودی اور سارے لوگ مستفید ہوسکتے ہیں۔ پھر جرمنوں کو خیال پیدا ہوا کہ دنیا میں روز مرہ کی جنگوں سے نپٹنے کے لئے صلح وجنگ کا بھی کوئی قانون ہونا چاہیے۔ جس کے ذریعے لوگوں کو تباہی سے بچایا جاسکے۔ چناچہ انہوں نے امام محمد (رح) کی کتاب ” السیر الکبیر “ شائع کی جس میں حضور ﷺ کے غزوات کی تفصیل اور اصول وقوانین موجود ہیں ۔ اس بےمثال کتاب سے ساری دنیا مستفید ہورہی ہے۔ دنیا کی کسی دوسری تہذیب میں ایسی چیزیں نہیں ہیں۔ کیا یہ حضور ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کی کافی دلیل نہیں ہے ؟ مگر کیا کیا جائے اس تعصب اور عناد کا کہ غیر مسلم اقوام جس چیز سے مستفید ہوتی ہیں انہی کو مٹانے کی کوشش بھی کرتی ہیں تاکہ ساری تہذیب و ترقی اور علم وتحقیق کا سہرا اپنے سر باندھ لیں یہ وہ حقائق ہیں جن سے حضور ﷺ کے تہذیبی ، تمدنی ، تعلیمی ، تحقیقی اور اخلاقی فیضان کا پتہ چلتا ہے اور اس سے مسلم اور غیر مسلم سب لوگوں نے یکساں طور پر فائدہ اٹھایا۔ مولاناابوالکلام آزاد (رح) چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو اس بات کی تحقیق کرے کہ غیر مسلم اقوام نے حضور ﷺ کی نبوت اور تعلیم سے کس قدر فیضان حاصل کیا اور اس طرح آپ کی رحمتہ للعالمین ہونے کی حیثیت کو واضح کیا جاسکے۔ آپ (علیہ السلام) نے نہ صرف انسانوں کے حقوق کا تعین کیا ، بلکہ جانوروں ، درندوں ، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کے حقوق بھی بتلائے۔ صلح وجنگ سے متعلق آپ نے قیدیوں سے حسن سلوک کا طریقہ بتلایا۔ یہ سب اقوام عالم کے لئے آپ کی نبوت کا فیضان ہے۔ توحید ذریعہ رحمت ہے : آگے اللہ نے وہ نقطہ توحید بیان فرمایا ہے جو حضور ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کی بنیاد ہے۔ فرمایا قل انما یوحی الی اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ میری طرف اس بات کی وحی کی گئی ہے انما الھکم الہ واحد کہ تمہارا معبود برحق صرف ایک ہی معبود ہے۔ اس کی توحید کو مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔ یہ اصول اللہ کی کتاب ، حضور ﷺ کی نبوت اور آپ کی تعلیم سے دنیا کو نصیب ہوا۔ حضور ﷺ کی بعثت کے وقت توحید کا نام ونشان تک مٹ چکا تھا۔ ہر طرف کفر وشرک کا راج تھا۔ توحید کے پیاسوں کو توحید کا کہیں پتہ نہیں چلتا تھا۔ آپ تشریف لائے تو توحید کی کرن پھوٹی ، آپ کی تعلیم سے ہی توحید کے پودے کی آبیاری ہوئی اور اس طرح توحید اللہ کی رحمت کا سب سے بڑا سبب بن گئی۔ فرمایا فھل انتم مسلمون کیا تم فرمانبردار بننے کے لئے تیار ہو ؟ مطلب یہ کہ توحید و رسالت کو تسلیم کرکے اللہ کی رحمت سے اپنا حصہ وصول کرلو۔ فرمایا فان تولوا اگر یہ لوگ روگردانی کریں ، دین حق کو اختیار نہ کریں فقل اذنتکم علی سواء میں نے تم کو برابر سرابر خبردار کردیا ہے یعنی نیک وبد سے تمہیں آگاہ کردیا ہے۔ اچھے اور برے راستے کی نشاندہیکردی ہے۔ اب جونسا راستہ چاہو اختیار کرلو۔ وقوع قیامت کا وقت : فرمایا ، میں نے تمہیں اچھے برے کی تمیز سکھلادی ہے۔ اب جزا اور سزاکب واقع ہوگی وان ادری اقریب ام بعید ماتوعدون میں نہیں جان تاکہ جس چیز (قیامت) کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا بعید۔ اس کا علم تو اللہ رب العزت کے پاس ہے انہ یعلم الجھر من القول بیشک وہ تمہاری پکار کر کی جانے والی بات کو بھی جانتا ہے ویعلم ماتکتمون اور اس چیز کو بھی جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔ اپنی حکمت اور مصلحت کو وہ خودہی جانتا ہے کہ کب مجموعہ عالم کے اختتام کا وقت ہوگا اور کب جزائے عمل کی منزل آئے گی۔ فرمایا وان ادری لعلہ فتنۃ لکم اور میں نہیں جانتا شاید کہ یہ تمہارے لئے آزمائش کا سامان ہو۔ ومتاع الی حین اور شایدیہ ایک مقررہ وقت تک فائدہ اٹھانے کا سامان ہو۔ مگر بالآخر قیامت برپا ہو کر رہیگی اور سب کو اپنے اعمال کا حساب پیش کرنا ہوگا۔ فیصلے کا انتظار : آخر میں اللہ کے نبی نے اللہ کی بارگاہ میں اپنی درخواست پیش کردی جیسا کہ پہلے نبی پیش کرتے رہے ہیں قال رب احکم بالحق ، اور دیگر انبیاء نے بھی یہی کہا ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق ، اے اللہ ! اب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ کردے ہم نے فریضہ تبلیغ ادا کردیا ہے مگر یہ لوگ نہیں مانتے ، لہٰذا اب تو ہی اپنا فیصلہ صادر فرما۔ فرمایا ہم اپنے پروردگار کی رحمت سے مایوس نہیں ہیں ۔ کیونکہ وربنا الرحمن المستعال علی ماتصفون ہمارا پروردگار رحمان بیحد مہربانی کرنے والا ہے ان بیہودہ باتوں کے خلاف جو تم کرتے ہو۔ تم لوگ حق وصداقت ، اللہ کے نبی اور اس کی توحید کے خلاف جو ہرزہ سرائی کر رہے ہو۔ ہم اس کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مدد کے طلبگار ہیں ، اسی کی ذات پر ہم بھروسہ کرتے ہیں اور وہی تم سے انتقام لے گا۔ سورۃ کے آخر میں رسالت ، توحید اور جزائے عمل کا بیان ایک دفعہ پھر آگیا ہے۔ اس میں تسلی کا مضمون بھی ہے۔
Top