Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 18
حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ١ۙ قَالَتْ نَمْلَةٌ یّٰۤاَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ١ۚ لَا یَحْطِمَنَّكُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْدُهٗ١ۙ وَ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
حَتّىٰٓ
: یہانتک کہ
اِذَآ
: جب
اَتَوْا
: وہ آئے
عَلٰي
: پر
وَادِ النَّمْلِ
: چیونٹیوں کا میدان
قَالَتْ
: کہا
نَمْلَةٌ
: ایک چیونٹی
يّٰٓاَيُّهَا النَّمْلُ
: اے چینٹیو
ادْخُلُوْا
: تم داخل ہو
مَسٰكِنَكُمْ
: اپنے گھروں (بلوں) میں
لَا يَحْطِمَنَّكُمْ
: نہ روند ڈالے تمہیں
سُلَيْمٰنُ
: سلیمان
وَجُنُوْدُهٗ
: اور اس کا لشکر
وَهُمْ
: اور وہ
لَا يَشْعُرُوْنَ
: نہ جانتے ہوں (انہیں شعور نہ ہو
یہاں تک کہ جب سلیمان (علیہ السلام) چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا ، اے چیونیو ! داخل ہو جائو اپنے گھروں میں کہ کہیں پامال نہ کر دے تمہیں سلیمان (علیہ السلام) اور اس کا لشکر ، اور ان کی خبر بھی نہ ہو
ربط آیات گزشتہ آیات میں حضرات دائود علیہ اور سلیمان (علیہما السلام) کا ذکر ہوا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں بہت سے نیک اور ایماندار بندوں پر فضلیت بخشی ہے۔ پھر سلیمان (علیہ السلام) کی جانشینی کا ذکر ہوا ۔ پھر انہوں نے لوگوں کے سامنے اللہ کی عطا کردہ نعمت کا اس طرح تذکرہ کیا کہ اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی گفتگو سکھائی گئی ہے اور ہمیں ضرورت کی ہر چیز ، عطا کی گئی ہے جو کہ بڑی کھلی فضلیت ہے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان کے لشکر اکٹھے کیے جاتے تھے جن سے وہ مختلف مواقع پر کام لیتے تھے ، یہ لشکر انسانوں ، جنوں اور پرندوں پر مشتمل تھے جنہیں حسب ضرورت تقسیم بھی کیا جاتا تھا۔ منطق ایطہ گزشتہ آیات میں ایک لفظ منطق الطیر آیا تھا جو خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ پرندوں پر دیگر جانوروں کی گفتگو عام آدمی نہیں سمجھ سکتا ۔ مگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت عطا فرمائی تھی کہ وہ پرندوں کی بولی سمجھ جاتے تھے ۔ پرندوں کے علاوہ حشرات الارض یعنی کیڑوں مکوڑوں کی بولی بھی اللہ نے سکھا دی تھی ۔ جانوروں کی بولیوں پر قدیم زمانے سے تحقیق و تالیف کا کام ہو رہا ہے چناچہ بعض حکماء نے جانوروں کی بولیوں پر کتابیں لکھی ہیں ۔ علم ادب کی سب سے پرانی کتاب کلیلہ دمنہ آج بھی موجود ہے دراصل یہ کتاب تبتی زبان کی تصنیف ہے ۔ وہاں سے یہ کتاب سنسکرت زبان میں منتقل ہوئی ۔ پھر ایران کے کسر ی نے بزرویہ نامی ایک عالم فاضل کو بڑا مال و دولت دے کر ہندوستان بھیجا تا کہ وہ کسی طرح یہ کتاب حاصل کرسکے۔ کہتے ہیں کہ کسریٰ نے سونے کے بیس خچر لا د کردیے تھے اور کچھ آدمی بھی ساتھ بھیجے تھے۔ بہر حال وہ شخص کئی سال تک ہندوستان میں مقیم رہا اور بالآخرکلیہ و منہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ اس نے کتاب کو نقل کیا اور پھر واپس جا کر اسے فارسی زبان میں منتقل کیا کہتے ہیں کہ جب وہ شخص واپس ایران پہنچا تو کسریٰ نے اس کا پرتپاک خیر مقدم کیا ۔ اس کے اس علمی کا رنامے کے صلہ میں اسے سخت پر بٹھایا اور اس کے سر پر تاج رکھا۔ پھر منشی عبد اللہ ابن مقفع نے بنی امیہ یا بنی عباس کے دور میں اس کتاب کا عربی ترجمہ کیا ۔ آج کل یہ کتاب عربی ادب کے کورس میں شامل ہے اور باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے ۔ اس کے بعد اس کتاب کے تراجم انگریزی ، فرانسیسی ، جرمنی ، روسی اور دیگر زبانوں میں ہوئے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کتاب میں جانوروں کی زبان سے علم و حکمت اور نصیحت کی باتیں بیان کی گئی ہیں ۔ یہ باتیں بندروں ، گیدڑوں ، ریچھوں ، شیروں اور ہاتھیوں وغیرہ سے منسوب کی گئی ہیں ۔ کلی کہ اور دمنہ بعض گیدڑوں کے نام ہیں۔ دوسری صدی ہجری میں اور جاحظ نے علم الحیوان کے نام سے کتاب لکھی ۔ سات جلدوں پر مشتمل اس ضخیم کتاب ہیں حیوانات سے متعلق بہت سی مفید معلومات ملتی ہیں ۔ مصنف کا نام ابوحنیفہ کا ہم عصر تھا اور معتزلہ فکر رکھتا تھا ۔ اسی طرح چھٹی یا ساتویں صدی ہجری میں امام دسیری (رح) نے حیات الحیوان کے نام پر کتاب لکھی جس میں جانوروں سے متعلق بہت سی معلومات جمع کردی گئی ہیں ۔ اس میں جانوروں سے متعلق حلت و حرمت کے احکام اور کسی جانور کے خواب میں نظر آنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ امام قزوینی (رح) نے عائب المخلوقات کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ اس میں بھی جانوروں سے متعلق مفید معلومات ہیں ۔ حضرت شیخ عطاء چھٹی ساتویں صدی ہجری کے بزرگ گزرے ہیں جو تاتاریوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان کی مشہور کتاب منطق الطیر فارسی زبان میں ہے انہوں نے پرندوں کی زبانی تصوف کی بڑی گہری باتیں ذکر کی ہیں ۔ اس کے بعد بھی حیوانات کے علم نے بڑی ترقی کی ہے۔ خا ص طور پر موجودہ زمانے میں علم الحیوانات میں بڑے تجربات ہوئے ہیں اور دیگر علوم کی طرح یہ علم بھی انتہائی بلندیوں تک پہنچا ہے۔ اللہ نے اس مقام پر چیونٹیوں کا ذکر ہے۔ چیونٹیاں چھوٹی بھی ہوتی ہیں اور بڑی ہیں ، چھوٹی چیونٹی ( ذرہ) تو بعض خصوصیات کی بناء پر ضرب المثل بن چکی ہے۔ ان چیونٹیوں کے بارے میں جدید دور کے سائنس دانوں نے بڑی تحقیق کی ہے ، چناچہ جدید دور کے مصری مفسر علامہ طنطاوی (رح) نے جواہر القرآن میں ان کا کافی ذکر ہے۔ آپ جدید دور کے عالم تھے۔ 0451ء کے قریب وفات پائی ہے۔ انہوں نے نظام العالم والامم کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں عالم اور امتوں کے نظام میں چیونٹیوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ بھی کافی معلومات افزاء کتاب ہے۔ سلیمانی لشکر کا ہادی نمل سے گزر سلیمان (علیہ السلام) بمع لشکر جا رہے تھے حتیٰ اذا توا علی واد انمل یہاں تک کہ جب وہ وادی نمل میں پہنچے قالت نملۃ تو ایک چیونٹی نے کہا یایھا النمل اد خلوا مسکنکم اے چیونٹیو ! اپنے گھروں ( بلوں) میں داخل ہو جائو ۔ لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور اس کا لشکر تمہیں روند نہ ڈالے ۔ وھم لا شعرون ایسی حالت میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہو کہ انہوں نے کتنی چیونٹیوں کو پامال کردیا ہے۔ بعض جدید دور کے نام نہاد مفکرین نمل کو چیونٹی نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ نمل ایک قبیلہ تھا جہاں سے سلیمان (علیہ السلام) کا گزر ہوا تھا۔ دراصل یہ لوگ معجزات کے منکر ہیں ، چونکہ اللہ نے چیونٹی کی آواز معجزانہ طور پر سلیمان (علیہ السلام) کو سنوا دی تھی ، اس لیے ایسے لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ۔ اس سے چیونٹیوں کا کوئی قبیلہ تو مراد ہو سکتا ہے مگر انسانوں کا قبیلہ ہرگز مراد نہیں ہو سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح سلیمان (علیہ السلام) کو بےمثال حکومت عصا فرمائی تھی ۔ جنات اور پرندے ما تحت کردیئے تھے۔ ہوائوں کو تسخیر کردیا تھا ، اسی طرح یہ چیونٹی کا معجزہ بھی ظاہر کردیا کہ اس نے اپنی ہم قوم چیونٹیوں کو ان کی تباہی سے خبردار کیا تو سلیمان (علیہ السلام) فوراً اس کی بات کو سمجھ گئے۔ پہلے صاف بیان ہوچکا ہے کہ اللہ نے آپ کے متفق علیہ یعنی پرندوں کی بولیاں بھی سکھا دی تھیں ۔ تو ایسی حالت میں آپ کا چیونٹی کی بات کو سن لینا اور سمجھ لینا کون سی عجیب بات جاتی ہے ۔ مفسرین بیان کرتے ہیں کہ وھم لا یشعرون کے جملے سے بات بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ باوجود اس کے کہ ہو اور جانور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع تھے مگر آپ غیب کا علم نہیں جانتے تھے ۔ غیب خاصہ خداوندی ہے۔ اور وہ اس میں جتنا علم چاہتا ہے کہ کسی کو عطا کردیتا ہے۔ کلی غیب اور علم محیط کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور قرآن پاک میں غیر اللہ کے غیب دان ہونے کی واضح طور پر نفی کی گئی ہے ، یہ تو ناچیز چیونٹی بھی جانتی تھی کہ صاحب صحیفہ اور صاحب شریعت رسول ہونے کے باوجود سلیمان (علیہ السلام) غیب دان نہیں ہیں ۔ اسی لیے تو اس نے دوسری چیونٹیوں کو خبردار کیا کہ اپنی بلوں میں گھس جائو ، کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور ان کا لشکر بیخبر ی میں تمہیں کچل نہ ڈالے مفسرین کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) کا لشکربڑا مہذب تھا ، لہٰذا ان کی طرف سے قصدا ً کمزور مخلوق کو روند ڈالنے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی ۔ آپ کا لشکر کوئی ایسا لشکر نہیں تھا جو وحشیانہ طور پر ہر سامنے آنے والی چیز کو تباہ کردیتا ، لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ اگر چیونٹیوں کو کوئی نقصان پہنچتا تو ایسا سلیمان (علیہ السلام) کی بیخبر ی کی وجہ سے ہوتا یعنی انہیں پتہ ہی نہ چلتا کہ وہ جس وادی سے گزر رہے ہیں ۔ وہاں ہزارو لاکھوں چیونٹیوں کو لقمہ اجل بنا رہے ہیں۔ عربی زبان میں نملہ کا لفظ مذکر اور مؤنث دونوں جنسوں پر بولا جاتا ہے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو خبردار کیا تھا ، وہ مذکر تھی یا مؤنث ؟ مشہور محدث اور فقیہ حضرت قتادہ (رح) ( 36 ھ 811 ھ) جوتا بعین میں سے ہیں ۔ ایک مجلس میں فرمانے لگے جو جی چاہے پوچھ لو ۔ اس مجلس میں امام ابوحنیفہ (رح) بھی موجود تھے۔ جو اس وقت بھی بچے تھے ۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ حضرت قتادہ (رح) سے یہ سوال کرو کہ جس چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر سے خبردار کیا تھا وہ نر تھی یا مادہ ۔ جب یہ سوال پوچھا گیا تو حضرت قتادہ (رح) لا جواب ہوگئے۔ اس پر خود امام ابوحنیفہ نے بتلایا کہ وہ چیونٹی مادہ تھی ۔ اگرچہ بقرہ کی طرح لفظ نملہ بھی مذکر اور مونث دونوں اجناس کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر یہاں نملہ سے قبل قالت کی ضمیر مؤنث ہے ، لہٰذا وہ چیونٹی مؤنث تھی ۔ یہ واقعہ امام رازی نے تفسیر کبیر میں امام صاحب کی کسنی میں سوجھ بوجھ کے سلسلہ میں لکھا ہے۔ جب سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی یہ بات سنی فتبسم ضاحکا من قولھا تو آپ اس چیونٹی کی با ت سے مسکرا کر ہنس پڑے۔ دل میں خیال کیا کہ یہ چیونٹی کتنی بھولی بھالی ہے۔ جو سمجھ رہی ہے کہ میں اس کی بات کو نہ سن رہا ہوں اور نہ سمجھ رہا ہوں حالانکہ اللہ نے مجھے اپنے بہت سے نیک اور ایماندار بندوں پر فضلیت عطا فرمائی ہے اور مجھے جانوروں کی بولیاں بھی سکھا دی ہیں ۔ تبسم کا معنی مسکراہٹ ہے جو ضحک یعنی جنسنے کا ادنیٰ درجہ ہوتا ہے۔ مسکراہٹ صرف لبوں پر پھلتی ہے جب کہ ہنسنے میں دانت بھی ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ البتہ قہقہہ زور سے ہنسنے کو کہتے ہیں جو کہ پسندیدہ فعل نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کبھی قہقہہ مار کر نہیں ہنسے ۔ آپ کا معمول تبسم یا زیادہ سے زیادہ ضحک ہوتا تھا۔ قہقہہ غفلت کی علامت ہے ، اسی لیے اگر کوئی شخص نماز کے دوران قہقہہ لگا کر ہنسے تو اس کا وضو بھی ٹوٹ جائے گا اور نماز بھی فاسد ہو جائیگی۔ چیونٹیوں کا نظام معاشرت چیونٹی بڑی ذہین مخلوق ہے ۔ اللہ نے ایک درجے تک اس کو بڑا شعور عطا کیا ہے ۔ علم الحیوانات کے ماہرین نے بڑے بڑے تجربات کر کے اس مخلوق کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کی ہیں ۔ مثلاً انسانوں کی طرح چیونٹیوں کے بھی خاندان ، قبیلے اور گوتیں ہوتی ہیں ۔ ان کا اپنا نظام حکومت ہوتا ہے۔ باقاعدہ فوج اور پولیس ہوتی ہے جو نظام سلطنت کے نظم و نسق کی ذمہ داری ہوتی ہیں ۔ چیونٹیاں فطری طور پر خوراک کا ذخیرہ جمع رکھتی ہیں تا کہ بوقت ضرورت کام آسکے ۔ فرید وجدی موائرۃ المعارف ، میں لکھتے ہیں کہ چیونٹیوں کی مختلف سلطنتوں کے درمیان جنگ و جدل کی نوبت بھی آجاتی ہے۔ جب کبھی ایسا موقع آتا ہے تو ابتداء میں چیونٹیوں کی قلیل تعداد آ کر دشمن کی قوت کا اندازہ لگاتی ہے اور پھر حسب ضرورت پور لشکر بیک وقت حملہ آور ہوجاتا ہے۔ چیونٹی اپنے دشمن کو چمٹ کر ایساٹوٹتی ہے کہ چاہے جان چلی جائے دشمن کو چھوڑتی نہیں ۔ اس کے جسم کے پچھلے حصے میں تیزاب کی ٹینکی ہوتی ہے جو بارش کے موسم میں خوب بھر جاتی ہے۔ جنگ کے وقت چیونٹی یہی تیزاب دشمن پر پھینک کر کے اس نقصان پہنچاتی ہے۔ طنطاوی (رح) نے نظام العالم میں لکھا ہے کہ چیونٹیوں کے باقاعدہ قبرستان ہوتے ہیں جہاں یہ اپنے مدد کے دفن کرتی ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کہیں کوئی چیونٹی مری پڑی ہو تو زندہ چیونٹی اس کو اٹھا کرلے جاتی ہے اور قبرستان میں لے جا کر دفن کردیتی ہے ۔ جس طرح بعض حکومتوں کے موسم سرما اور گرما کے لیے مختلف ہیڈ کو ارٹر ہوتے ہیں ۔ اسی طرح چیونٹیوں کے بھی مختلف موسموں کے لیے مختلف علاقے متقین ہوتے ہیں اور سرمایا گرما میں مقررہ علاقوں میں اقامت پذیر ہوتی ہیں ۔ جس طرح انسانوں کے لیے دودھ دینے والے جانور ہوتے ہیں اسی طرح چیونٹیوں کے بھی خاص قسم کے جانور ہوتے ہیں ۔ ان کے لیے خوراک مہیا کی جاتی ہے اور پھر ان کے جسم سے نکلنے والی رطوبت کو بطور دودھ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی تجربات میں آیا ہے کہ اگر کوئی چیونٹی غلطی سے اپنی دشمن کے علاقہ میں چلی جائے اور اس کو جونہی اس بات کا علم ہوتا ہے وہ اپنی ٹانگیں اوپر کر کے پیٹھ کے بل لیٹ جاتی ہے۔ پھر جب اس علاقے والی چیونٹیوں کو اجنبی چیونٹی کے اور آنے کی اطلاع ملتی ہے تو انکی پولیس وغیرہ اس چیونٹی کو اٹھا کر اپنے علاقے سے باہر پھینک آتی ہے ، اللہ نے ان کو حیرت انگیز ذہانت عطا فرمائی ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی بولیاں سکھلائی تھیں ، جو آزاد آپ تک پہنچ جاتی تھی آپ اس کو سمجھ لیتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور یا پرندے کی نزدیک دور ساری آوازیں سنانے کا ذمہ نہیں لیا تھا۔ یہ جو آپ نے چیونٹی کی آواز کو سن لیا ، یہ اللہ کی خاص حکمت تھی کہ اس نے اس چیونٹی کی آواز آپ کو سنوادی اور یہ معجزہ تھا ۔ اس لیے تو کسی نے کہا ہے ؎ لو کنت اتیت کلام الحکلی علمت علم سلیمان کلام النملی اگر مجھے بھی آجکل یعنی بےزبان جانداروں کی آواز سننے کا علم دیدیا جائے تو میں بھی سلیمان (علیہ السلام) کی طرح چیونٹی کی بات کو سن لوں ۔ شیخ سعدی (رح) نے گلستان میں ذکر کیا ہے کہ ایک ہاتھی بان دریائے نیل کے کنارے اس طرح گنگنا رہا تھا ؎ زیر پایت گر بدانی حال مور ہم چوں حال تست زیر پائے پیل اے انسان ! اگر تو جان لے کہ تیرے پائوں کے نیچے چیونٹی کا کیا حال ہوتا ہے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے تو خود ہاتھی کے پائوں کے نیچے آجائے۔ چیونٹی کی دعا کی قبولیت امام ابن کثیر (رح) نے ابن ابی حاتم (رح) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں قحط پڑگیا ۔ بارش رک گئی ، لوگ بلبلا اٹھے ، چناچہ سلیمان (علیہ السلام) عام لوگ کے ہمراہ شہر سے باہر بارش کی دعا کے لیے نکلے۔ راستے میں انہوں نے دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنے پائو ۔ آسمان کی طرف کر کے دعا کر رہی ہے اللھم انا خلق من خلقک ولا غیر لنا عن سقیک والا تسقنا لھکنا اے اللہ ! ہم بھی تیری مخلوق میں سے ایک مخلوق ہیں ۔ ہم تیری سیرابی سے مستغنی نہیں ہیں بلکہ اس کے محتاج ہیں ۔ اگر تو ہمیں پانی نہیں ملائے گا تو ہم ہلاک ہوجائیں گی ۔ سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی زبان سے یہ دعا سنی تو تمام لوگوں کو واپس ہونے کے لیے کیا ۔ فرمایا اللہ نے اس چیونٹی کی دعا قبول کرلی ہے ۔ اب ضرور بارش ہوگی ، لہٰذا واپس چلو ، اللہ تعالیٰ اس چیونٹی کی بدولت تمہیں بھی سیراب کردیگا ۔ وادی نمل کے متعلق بعض کہتے ہیں کہ یہ شام کے علاقے میں واقع ہے۔ جب کہ دوسرے اسے طائف شہر سے دس بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر بتلاتے ہیں ۔ وہاں ایک کھلا میدان ہے جس میں ایک معمولی سا مکان بھی ہے۔ طائف کے تاریخی مقامات میں دادی نمل کا یہ میدان بھی ہے ، لوگ سیر کے لیے جاتے ہیں زا حقر صاحب درس عبد الحمید سواتی نے بھی اس کی زیارت کی ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) کی دعا سلیمان (علیہ السلام) اس چیونٹی کی بات سن کر ہنس پڑے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اس طرح شکریہ ادا کیا قال رب اوزغنی ان اشکر نعمنک التی انعمت علی و علی والذی عرض کیا ، اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق عطافرما کر میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بےمثال حکومت عطا فرمائی حتیٰ کہ جانوروں اور پرندوں اور جنات کو آپ کے تابع کردیا ۔ آپ کے لیے ہوا مسخر کردی اور جانوروں کو بولیاں بھی سکھا دیں ۔ باپ پر بھی بڑے انعامات کیے کہ انہیں اپنا صاحب کتاب رسول بنایا ۔ آپ کی والدہ بھی نہایت ہی پاکباز ، نیک سیرت ، عابد ہ اور زاہدہ خاتون تھیں ۔ ان کی فضلیت کے لیے تو یہی چیز کافی ہے کہ اللہ نے ان کو دائود (علیہ السلام) کے نکاح میں دیا ۔ آپ فرعون اور ہارون کا حال بھی پڑھ چکے ہیں کہ وہ کس قدر مغرور اور ناشکر گزار تھے۔ جب کہ حضرت دائود سلیمان (علیہما السلام) بےمثال حکومت کے باوجود کس طرح رب العزت کا شکر ادا کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ سلیمان (علیہ السلام) نے یہ دعا بھی کہ پروردگار ! مجھے توفیق عطا فرما وان عمل صالحا ً ترمنہ کہ میں ایسا نیک عمل انجام دوں جسے تو پسند کر اور تیری بارگاہ میں مقبول ہو۔ اور جو آخری بات حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کی اس میں ہمارے لیے درس عبرت ہے عرض کیا ، پروردگار ! وادخلنی برحمتک فی عبادک الصلحین اور داخل کر مجھے اپنی رحمت کے ساتھ اپنے نیک بندوں میں ۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ انسان کو اچھی سوسائٹی نصیب ہوجائے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی کہا تھا رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ ( الشعرائ : 38) پروردگار مجھے حکم عطا فرما اور مجھے نیکو کاروں میں ملا دے۔ سورة یوسف میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بھی یہی دعا منقول ہے توفنی مسلما ً والحقنی بالصلحین ( آیت : 101) یا اللہ ! مجھے اسلام کی حالت میں وفات دنیا ، اور مجھے نیکو کاروں کے ساتھ ملا دینا ۔ یہاں پر برحمتک کا لفظ ظاہر کر رہا ہے کہ اللہ کے جلیل القدر نبی ہونے کے باوجود کس قدرمتواضع اور منکر المزاج واقع ہوئے ہیں اپنے کسی عمل پر اعتماد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ ہے۔ جب اللہ کا پاک نبی اللہ کی رحمت کا طلب گار ہے تو ہم گنامہ گار کس شمار میں ہیں ۔ ہمیں تو رحمت خداوندی کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ ہمارے لیے اس میں درس عبرت ہے ۔ ہمیں بھی یہی دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ! اپنی مہربانی سے ہمارے عقیدوں کو پاک کر دے ، ہمارے اعمال درست ہوں اور ہمیں اچھی سوسائٹی نصیب ہو۔
Top