Mualim-ul-Irfan - Al-Ahzaab : 51
تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُئْوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُ١ؕ وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُهُنَّ وَ لَا یَحْزَنَّ وَ یَرْضَیْنَ بِمَاۤ اٰتَیْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا
تُرْجِيْ : دور رکھیں مَنْ تَشَآءُ : جس کو آپ چاہیں مِنْهُنَّ : ان میں سے وَ تُئْوِيْٓ : اور پاس رکھیں اِلَيْكَ : اپنے پاس مَنْ تَشَآءُ ۭ : جسے آپ چاہیں وَمَنِ : اور جس کو ابْتَغَيْتَ : آپ طلب کریں مِمَّنْ : ان میں سے جو عَزَلْتَ : دور کردیا تھا آپ نے فَلَا جُنَاحَ : تو کوئی تنگی نہیں عَلَيْكَ ۭ : آپ پر ذٰلِكَ اَدْنٰٓى : یہ زیادہ قریب ہے اَنْ تَقَرَّ : کہ ٹھنڈی رہیں اَعْيُنُهُنَّ : ان کی آنکھیں وَلَا يَحْزَنَّ : اور وہ آزردہ نہ ہوں وَيَرْضَيْنَ : اور وہ راضی رہیں بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ : اس پر جو آپ نے انہیں دیں كُلُّهُنَّ ۭ : وہ سب کی سب وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ : تمہارے دلوں میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَلِيْمًا : بردبار
آپ پیچھے ہٹا دیں اپنی بیویوں میں سے جس کو چاہیں اور جگہ دیں اپنے پاس جس کو چاہیں اور جس کو آپ تلاش کریں ان میں سے جن کو آپ نے الگ کردیا ہے ، تو آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ بات زیادہ قریب ہے کہ ٹھنڈی ہوں ان کی آنکھیں اور وہ غم نہ کھائیں ، اور وہ راضی ہوں اس چیز پر جو آپ ان کو دیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور بردبار ہے
ربط آیات گزشتہ درس میں نکاح کے سلسلے میں حضور ﷺ کی چار خصوصیات کا ذکر ہوچکا ہے۔ آپ کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ مہر کی ادائیگی پر آپ کے لئے چار سے زیادہ بیویاں بھی حلال ہیں۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی ملک میں یعنی لونڈیاں بھی آپ پر حلال ہیں اور عام مسلمانوں کے برخلاف نبی کی لونڈیوں سے کوئی امتی نکاح نہیں کرسکتا۔ تیسری بات اللہ نے یہ فرمائی کہ آپ کے لئے آپ کی چچازاد پھوپھی زاد ، ماموں زاد اور خالہ زاد میں سے صرف وہ عورتیں حلال ہیں۔ جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کوئی مومنہ عورت اپنے آپ کو نبی (علیہ السلام) کی ذات کے لئے ہبہ کر دے تو آپ اس سے بغیر مہر کے بھی نکاح کرسکتے ہیں۔ فرمایا یہ حکم صرف آپ کی ذات کے لئے ہے۔ امتیوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ہبہ کیلئے ایمان بطور شرط اس ضمن میں حضور ﷺ کی پانچویں خصوصیت یہ ثابت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو نبی کے لئے بہہ کرنے والی عورت کا مومنہ ہونا ضروری ہے۔ مفسرین اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر کوئی کتابیہ اپنے آپ کو ہبہ کر دے تو اس کے ساتھ بغیر مہر کے نکاح درست نہیں ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ وہی ہے جو گزشتہ درس میں بیان ہوچکی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء یہ ہے کہ کثرت ازواج کے 1 ؎ معالم التنزیل 081 ج 3 و خازن ص 862 ج 5 ذریعے دین اسلام کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ نبی کی بیویاں نبی کی صحبت میں رہ کر زیادہ سے زیادہ دین حاصل کریں ی۔ اور پھر اسے آگے پہنچائیں گی۔ ا اور یہ فریضہ وہی عورت انجام دے سکتی ہے جو خود ایماندار ہو۔ اگر عورت یہودیہ یا نصرانیہ ہوگی۔ تو وہ نہ تو اسلام کی تعلیم حاصل کرے گی اور نہ اسے آگے پہنچائے گی ، لہٰذا اللہ نے یہ شرط عائد کردی کہ اگر کوئی عورت خود کو نبی کے لئے ہبہ کر دے اور نبی اس سے بغیر مہر کے نکاح کرنا چاہے تو اس عورت کا مومنہ ہونا ضروری ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی دینی مدرسہ میں کوئی کافر استاد مقرر کردیا جائے۔ ایسا استاد مسلمانوں کو کیا تعلیم دے گا ؟ پیغمبر کے گھر کو ایک دینی مدرسہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ، لہٰذا اس گھر میں آنے والی مومنہ خاتون ہی دین کی کماحقہ خدمت انجام دے سکتی ہے۔ البتہ مہر کے ساتھ کتابیہ سے نکاح کرنے کی اجازت اہل ایمان کے لئے عام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے والمحصنت من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم (المائدۃ۔ 5) اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) کی پاکدامن عورتوں کے ساتھ بھی تم نکاح کرسکتے ہو۔ اذا اتیتموھن اجورھن جب کہ تم ان کے مہر ان کو ادا کر دو ۔ عدم مساوات کی اجازت آگے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی چھٹی خصوصیت یہ بیان فرمائی ہے تورجی من تشاء منھن آپ اپنی بیویوں میں سے جسے چاہیں پیچھے ہٹا دیں و تئوی الیک من تشاء اور جس کو چاہیں اپنے قریب کرلیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کے لئے بیویوں کے درمیان رہائش رکھنے میں مساوات قائم رکھنا ضروری نہیں ہے۔ اس کے برخلاف عام مسلمانوں کے لئے حکم یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی متعدد بیویاں ہیں تو ان کے درمیان مساوات کا قیام ضروری ہے یعنی ایسا شخص جتنے روز کے لئے خوردونوش اور شب باشی ایک بیوی کے ہاں اختیار کرے گا اتنے ہی روز دوسری بیوی کے لئے اختیار کرے گا ، مگر پیغمبر (علیہ السلام) کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ، گویا آپ اپنی بیویوں کے پاس کم و بیش وقت گزار سکتے ہیں۔ اس استثنیٰ میں یہ مصلحت ہے کہ پبغمبر (علیہ السلام) پر مساوات کے سلسلے میں کسی قسم کا ذہنی بوجھ نہ پڑے۔ اگر یہ پابندی آپ کے لئے برقرار رہتی تو ہو سکتا تھا کہ مساوات برقرار رکھنے کے لئے آپ کے ذہن پر بوجھ رہتا اور دینی خدمات کی انجام دہی میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ تاہم حضور ﷺ اپنے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے اپنی بیویوں کے درمیان ہمیشہ مساوات قائم کرتے۔ اور ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کرتے کہ پروردگار ! میں حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ بیویوں کے درمیان مساوات قائم رہے۔ اس کے باوجود اگر دل کا میلان کسی ایک طرف زیادہ ہو تو یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ اس پر مجھے ملامت نہ کرنا۔ صحیحین میں یہ حدیث بھی موجود ہے کہ جب حضور ﷺ سفر پر جاتے تو بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ، پھر جس بیوی کے نام قرعہ نکلتا ، اس کو سفر پر ہمراہ لے جاتے آپ ایسا بیویوں کی دلجوئی کے لئے کرتے وگرنہ آپ کے لئے ایسا کرنا ضروری نہیں تھا۔ البتہ عام مسلمانوں کے لئے بیویوں کے درمیان مساوات کا قیام ضروری ہے۔ اگر اس میں کوتاہی کریں گے تو عند اللہ ماخوذ ہوں گے۔ فرمایا و منالبتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک اور اگر آپ طلب کرنا چاہیں جس کو آپ نے پیچھے ہٹایا ہے تو بھی آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وقت آپ نے کسی بیوی کو کم وقت دیا ہے تو آپ اسے زیادہ بھی دے سکتے ہیں آپ کو اس ضمن میں پورا پورا اختیار حاصل ہے کیونکہ آپ کو مساوات سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ فرمایا ذلک ادنی ان تقر اعینھن یہ بات زیادہ قریب ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ولا یحزن اور وہ غمگین بھی نہ ہوں و یرضین بما اتیتھن کلھن اور جو آپ ان کو دیں اس پر راضی ہوں۔ بظاہر عدم مساوات کا اختیار کوئی خوشی کی بات نہیں تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ جب امہات المومنین کو معلوم ہوگیا کہ نبی (علیہ السلام) پر مساوات کا قیام ضروری نہیں ہے ، اس کے باوجود آپ اپنی طرف سے حتی الامکان مساوات کا سلوک فرماتے تھے۔ تو یہ بات ان کے لئے باعث مسرت تھی۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز پر اپنا حق سمجھے اور پھر وہ اسے نہ ملے تو وہ ناراض ہوگا۔ مگر نبی کی بیویوں کا مساوات کا حق تو اللہ نے نہیں دیا اس کے باوجود حضور ﷺ کی طرف سے مہربانی کا سلوک امہات المومنین کے خوشی کا سبب تھا۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ مساوات کے قانون سے آپ کا استثنیٰ آپ کی بیویوں کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور غم سے نجات کا باعث ہوگا۔ اور پھر آپ اپنی مرضی سے ان کے ساتھ جو بھی سلوک کریں گے۔ وہ اس پر راضی ہوں گی۔ فرمایا واللہ یعلم ما فی قلوبکم اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی بات کو جانتا ہے و کان اللہ علیما حلیما اور وہ سب کچھ جاننے والا اور بردبار ہے وہ فوری گرفت نہیں کرتا۔ اگر کوئی کوتاہی ہوجائے تو وہ اپنے وقت پر پکڑتا ہے یہ اس کی بردباری کی علامت ہے۔ مزید نکاح کی ممانعت حضور ﷺ کی ساتویں خصوصیت اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے لا یحل لک النساء من بعد اس کے بعد آپ کے لئے کوئی عورت حلال نہیں ہے ولا ان تبدل بھن من ازواج اور نہ ہی آپ ان کے بدلے میں دوسری بیویاں تبدیل کرسکتے ہیں مطلب یہ کہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ مزید بیویاں نہیں کرسکتے ولو اعجبک حسنھن اگرچہ ان کا حسن آپ کو زیادہ اچھا لگے۔ یہ پابندی بھی صرف حضور ﷺ کے لئے ہی تھی کہ آپ پہلی بیویوں میں سے کسی کو چھوڑ کر یا موجودہ بیویوں کی موجودگی میں مزید نکاح کرلیں۔ مفسرین کرام اس کی تفسیر دو طرح فرماتے ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس حکم کا 1 ؎ خازن 072 ج 5 و تفسیر الثعالبی ص 432 ج 3 منشاء یہ ہے کہ جتنی قسم کی عورتوں سے حضور ﷺ کو نکاح کی اجازت اللہ نے دی تھی اس کے علاوہ کسی اور قسم کی عورت سے نکاح نہیں کرسکتے۔ مثلاً آپ کو عام مومن عورتوں سے نکاح کی اجازت تھی ، جن کا آپ مہر ادا کردیں۔ آپ کے لئے لونڈیاں بھی حلال تھیں۔ آپ کی چچازاد ، پھوپھی زاد ، ماموں زاد اور خالہ زاد بھی حلال تھیں۔ جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی۔ آپ کو بغیر مہر ایسی مومنہ عورت سے نکاح کی بھی اجازت تھی جو اپنے آپ کو ہبہ کر دے۔ تو بعض مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ ان اقسام کی عورتوں کے علاوہ آپ کسی دوسری قسم کی عورت سے نکاح نہیں کرسکتے۔ تاہم حضرت انس ؓ کی روایت کے مطابق اس آیت کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ آپ موجودہ بیویوں کے علاوہ مزید نکاح نہیں کرسکتے۔ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ کی ازواج نے زیادہ خرچہ کا مطالبہ کیا اور آپ ناراض ہوگئے اور پھر اللہ کے حکم سے ازواج میں یہ اعلان فرما دیا کہ اگر دنیا کی عیش و عشرت چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں اچھے طریقے سے رخصت کر دوں اور اگر اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور آخرت کا گھر مطلوب ہے تو پھر اسی خرچہ میں گزارہ کرو ، تو ازواج مطہرات نے دوسری بات کو پسند کیا اور زندگی بھر عسرت میں وقت گزار دیا۔ حتیٰ کہ دو دو ماہ تک آپ کے گھروں میں چولہا نہیں جلتا تھا۔ فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے اس پناعت کو قبول کرلیا تو اللہ نے بھی حضور ﷺ کو حکم دے دیا کہ آئندہ ان بیویوں کے علاوہ مزید نکاح نہ کریں چناچہ آپ نے اس حکم کی پابندی کی۔ آپ کی رحلت کے وقت آپ کی نو بیویاں اور دو لونڈیاں موجود تھیں۔ ان کے علاوہ حضرت خدیجہ ؓ مکہ میں فوت ہوچکی تھیں اور حضرت زینب بنت خزیر ؓ مدینہ میں فوت ہوئیں۔ قبل از نکاح ملاقات اس آیت کریمہ میں آمدہ الفاظ ولو اعجبک حسنھن سے مترشح 1 ؎ خازن ص 073 ج 5 و طبری ص 83 ج 22 ہوتا ہے کہ قبل از نکاح مرد اور عورت ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں کیونکہ شکل و صورت ، قد بت اور حسن وغیرہ کا ادراک تو دیکھنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے اسی لئے تو اللہ نے فرمایا کہ آپ کو مزید نکاح کی اجازت نہیں ہے۔ اگرچہ آپ کو کسی عورت کا حسن بھلا معلوم ہو۔ اس بات کی تصریح حدیث میں بھی موجود ہے کہ جس عورت کو پیغام نکاح دینا مقصود ہو ، آدمی اسے دیکھ سکتا ہے اور پسند ناپسند کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ البتہ تنہائی میں بیٹھ کر گفتگو کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ اس سے کئی قسم کی قباحتیں پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ آج کل نام نہاد مہذب ممالک کے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کو پسند کرنے کے لئے قبل از نکاح کئی کئی ماہ تک اکٹھے رہ کر (COURT SHIP) کرتے ہیں اور اس کے بعد نکاح کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ تو صریحاً بےحیائی کی بات ہے ، تاہم لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے کو دیکھنے اور بات چیت کرنے کی اسلام نے اجازت دی ہے۔ الغرض ! اللہ نے فرمایا کہ آپ کو مزید نکاح کی اجازت تو نہیں ہے الا ما ملکت یمینک البتہ آپ کی مملوکہ لونڈیوں کو گھر میں رکھنے کی اجازت ہے۔ و کان اللہ علی کلی شیء رقیبا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ احکام الٰہی کی پابندی یا ان کی خلاف ورزی کرنے والے سب لوگ اس کی نگاہ میں ہیں ، اور وہ ہر ایک کے ساتھ اس کے عقیدہ اور عمل کے مطابق ہی سلوک کرے گا۔ لونڈی غلام کا رواج اکثر لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام میں لونڈی غلام رکھنے کی اجازت ہے جو کہ شرف انسانیت کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بھی غلامی کو غیرفطری چیز تصور کرتا ہے اور اس کے حق میں نہیں ہے ظہور اسلام کے زمانے میں غلامی کا رواج پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا اور روزمرہ کاروبار کا زیادہ تر انحصار انہی پر تھا۔ اگرچہ اسلام نے اس رواج کو یکسر ختم نہیں کیا ، مگر مگر اس کو پسند بھی نہیں کیا ، بلکہ اس کو ختم کرنے کے لئے کئی اقدام کئے۔ چناچہ غلام کی آزادی کو بہت بڑی نیکی قرار دیا اور مسلمانوں نے ہزاروں غلام خرید کر آزاد کئے۔ اس کے علاوہ اسلام نے مختلف جنایات کا کفارہ بھی غلام کی آزادی کو قرار دیا اور اس طرح بھی بہت سے لوگوں کو آزادی نصیب ہوئی۔ پھر آہستہ آہستہ پوری دنیا سے شخصی غلامی کا رواج ختم ہوگیا۔ عورتوں کی غلامی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ اسلام کے ظہور سے پہلے جب مختلف قبائل آپس میں جنگیں لڑتے تھے تو مرد تو مارے جاتے اور عورتیں و بچے بےیارو مددگار ر جاتے جن کی وجہ سے معاشرے میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوتیں۔ اسلام نے زمانے کے حالات کے پیش نظر اس رواج کو اس لئے جاری رکھا تاکہ لاوارث عورتیں اور بچے در در کی ٹھوکریں نہ کھاتے پھریں بلکہ لوگوں کے قبضہ میں آ کر ان کی خدمت بھی کریں اور اچھے طریقے سے زندگی بھی بسر کریں چناچہ اسلام نے لونڈی اور غلاموں کے بہت سے حقوق متعین کئے اور مالکوں کو حکم دیا کہ جیسا خود کھائو۔ ان کو بھی کھلائو اور جیسا خود پہنو ان کو بھی پہنائو۔ کسی غلام سے اس کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو اور اگر کوئی مشکل کام ان کے سپرد کرو تو خود بھی ان کا ہاتھ بٹائو۔ اس کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنوں کے اکثر مرد تو مارے گئے اور بیس لاکھ عورتیں باقی رہ گئیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ پھر انہیں فیکٹریوں میں بھرتی کیا گیا تو وہاں بےحیائی اور بدکاری جیسی معاشرتی خرابیاں پیدا ہوئیں اور یہی عورتیں ملک کے لئے مصیبت بن گئیں۔ اس کے برخلاف مسلمان ترکوں نے تعداد زواج پر عمل کرتے ہوئے ایک سے زیادہ نکاح کر لئے اور اس طرح بےسہارا رہ جانے والی عورتوں کو سہارا مل گیا اور وہ باعزت زندگی گزارنے لگیں۔ بہرحال لونڈی غلام اور تعداد ازواج کے معاملہ میں اسلام نے بہترین راستہ اختیار کیا ہے جس پر لوگ خواہ مخواہ اعتراض کرتے ہیں۔
Top